شفاف ماحول شہریوں کا آئینی حق
لاہور: (راحیلہ خان ایڈووکیٹ) پاکستان کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ممالک میں ہوتا ہے، جسے قدرت نے چار حسین موسموں سمیت خوبصورت وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں، سمندر، بندر گاہوں، ریگستانوں، دریاؤں، نہروں اور وسیع و عریض میدانی خطّوں سے نوازا ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ اب ہمارا ملک بدترین ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیرات کا شکار ہوچکا ہے، ملک کے متنوع مزاج موسم، جغرافیہ اور وسائل اس بات کے متقاضی تھے کہ ماحولیات کے شعبہ پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جاتی مگر قیام پاکستان کے بعد اس شعبہ کو بری طرح نظر انداز کیا گیا، نتیجتاً اس وقت ہم دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں سے متاثرہ 10 ممالک میں سرفہرست ہیں۔
دوسری طرف پاکستان (امیر) ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کیے گئے کاربن کے اخراج کے باعث موسمی تبدیلی کا شکار ملک بھی ہے، پاکستان اس وقت قدرتی وسائل کے انحطاط، بنجر ہوتی ہوئی زمین، جنگلات کی کٹائی، گرمی کی بڑھتی لہر، شدید بارشیں، خشک سالی، قحط سالی، سیلاب، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ، سیلاب (گلوف)، سطح سمندر میں اضافے، بغیر منصوبہ بندی کے شہروں میں آبادی کا پھیلاؤ (قابل کاشت زمین کا رہائش مقاصد کیلئے بڑھتا استعمال )، پانی کی آلودگی اور فضائی آلودگی جیسی آفات کے انسانی صحت اور معیشت پر پڑنے والے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کا شمار ایشیا کے آلودہ ترین ممالک میں ہوتا ہے، ملک کے کئی شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہیں، خاص طور پر لاہور اس وقت دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا ہے، جو کہ آج کل شدید فضائی آلودگی کا شکار ہے، ائیر کوالٹی انڈیکس 1000 کی حد عبور کر گیا ہے جس کے سبب شہریوں خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں کو شدید پریشانی درپیش ہے اس لئے عوامی حلقوں کی جانب سے لاہور میں ایمرجنسی کے نفاذ کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ماہ اکتوبر کے خاتمے اور نومبر کے آغاز کے باوجود کراچی سمیت پورے سندھ میں موسم شدید گرم ہے اور پارہ مزید ہائی ہونے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے، پاکستان گزشتہ کچھ سالوں سے لگاتار شدید خشک سالی، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ، شدید گرمی کی لہر، اوسط شرح سے تین گنا زیادہ گلیشیئر پگھلنے اور مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا کر رہا ہے۔
ورلڈ بینک نے پاکستان میں پچھلے سال سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 40 ارب امریکی ڈالر لگایا، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں فصلوں کو تباہ کر رہی ہیں جس سے خوراک کا بحران پیدا ہو رہا ہے اور معیشت تنزولی کا شکار ہے۔
پاکستان میں 1974ء میں پہلی بار ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کئی سرکاری ادارے، قوانین اور قومی ماحولیاتی پالیسیاں تشکیل دی گئیں اور بعد کے عرصے میں پاکستان کئی کثیر الجہتی عالمی ماحولیاتی معاہدوں کا دستخط کنندہ بھی بنا اور ماحولیاتی عوامل کی اہمیت کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 2009 ء کو ماحولیات کا قومی سال قرار دیا۔
ماحولیات کے حوالے سے پاکستان میں 1983ء سے 1997ء تک اقدامات کئے گئے مگر عملی طور موثر اقدامات نہ ہونے پر صورتحال بد سے بدتر ہے، اس لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کلائمیٹ چینج کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لیں، اس سلسلے میں ایک مثبت قدم 26 ویں ترمیم میں صاف و شفاف ماحول کو شہریوں کا آئینی و بنیادی حق قرار دے کر اٹھایا گیا ہے، اس سے قبل آئین میں یہ حق موجود نہیں تھا۔
یاد رہے کہ آئینی بنیادی حقوق کی محافظ براہِ راست عدلیہ ہے اگر کسی ایسے حق کی تلفی ہوتی ہے تو شہری عدلیہ میں درخواست لگا کر اپنے حق کا تحفظ حاصل کر سکتے ہیں، اس ترمیم کے ساتھ ساتھ اگر ملک میں قدرتی وسائل کے تحفظ کیلئے سخت قوانین متعارف کرائے جائیں جس کے تحت پانی کے ضائع، درختوں کے کٹاؤ، ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے والے عوامل کی پیدائش، فیکٹریوں اور صنعتوں سے نکلنے والے زہریلے مادوں اور دیگر ایسے افعال پر سخت سزائیں دی جائیں تو یہ اقدام ماحول کے تحفظ کیلئے خوش گوار ثابت ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ عوام میں بہترین آگاہی مہم چلانے اور شجر کاری کو لازمی سماجی کام بنانے کیلئے چاروں صوبوں میں پالیسی بنانی ہوگی، اس کے علاؤہ عالمی سطح پر حکومت کو سفارتی کوشش تیزی کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم عالمی حدت جس میں ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، سے شدید متاثر ہیں، جس کا ہرجانہ عالمی قوانین کے تحت پاکستان کو ادا کئے جائیں۔
راحیلہ خان ایڈووکیٹ سندھ ہائیکورٹ کی وکیل ہیں، ماحولیات اور سماجی امور پر لکھتی ہیں۔