اشرف غنی اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات

امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی نے حال ہی میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیاہے کہ افغان نیشنل آرمی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے۔ اب تک افغان نیشنل آرمی کے 40ہزار سپاہی یا تو بھاگ گئے ہیں یا پھر طالبان سے مل گئے ہیں۔ صرف ایک سال کے اندر 1300افغان فوجی طالبان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ یہ صورتحال افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بہت زیادہ تشویشناک ہے۔ خود افغان صدر اشرف غنی افغان نیشنل آرمی میں پائے جانے والے انتشار کی وجہ سے خاصے دل گرفتہ نظرآرہے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی ذات میں انتہائی حوصلہ مند واقع ہوئے ہیں، اس لئے وہ افغان آرمی کے حوصلوںکو بلند کرنے کے لئے ان کے لئے مزید''مالی آسانیاں‘‘ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں؛ تاہم اگر افغان نیشنل آرمی سے فوجیوں کے بھاگنے کی یہی صورتحال رہی تو آئندہ ماہ ہونے والے افغان طالبان کی جانب سے حملوں کو کون روک سکے گا؟ خود افغانستان میں موجود امریکی کمانڈر اب یہ کہہ رہے ہیں، کہ ہم نے افغان آرمی کی بہادری اور جنگجوانہ صلاحیتوں سے متعلق جو تصور قائم کیا تھا وہ غلط ثابت ہورہا ہے، چنانچہ اب افغانستان کے عوام حکومت سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آئندہ دنوں میں جب افغان طالبان کی جانب سے حملوں میں اضافہ ہوگا تو ان کی مزاحمت کون کرے گا؟ اس وقت افغان آرمی میں تقریباً پونے دو لاکھ فوجی رہ گئے ہیں، جس کی تربیت امریکی اور کچھ بھارتی فوجی افسروں نے کی ہے۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیںہے، پہلے بھی نہیں تھا لیکن سابق صدر کرزئی نے بھارت کے ساتھ مل کر نہ صرف افغانستان میں حالات کو خراب سے خراب تر کردیا تھا بلکہ پاکستان او رافغانستان کے تعلقات سکڑ کرصرف بات چیت کی حد تک رہ گئے تھے۔ اب پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح افغانستان میں جلد سے جلد امن قائم ہوجائے تاکہ باہم مل کر اس خطے سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے موثر مگر نتیجہ خیز کوششیں کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے اشرف غنی کو ہرقسم کی مالی و فوجی تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس پس منظر میں ہی پاکستان نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات کا بھی اہتمام کیا ہے جس میں چین اور امریکہ بھی مدد کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں قطر میں افغان طالبان کا دفتر بھی کھل گیا ہے، جہاں افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے؛ تاہم ایک مستند اطلاع کے مطابق بیک ڈور ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کا موقف واضح ہے یعنی مذاکرات کی کامیابی کا انحصار افغان حکومت پر ہے۔ پاکستان ''امن عمل‘‘ کی حمایت کرے گا۔ اس سلسلے میں افغان طالبان کی بیجنگ میں چینی قیادت سے جو ملاقات ہوئی ہے، اس کے مطابق افغان طالبان اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کے لئے تیار ہیں اور افغانستان کے اندرونی معاملات (خانہ جنگی) کو ا حسن طریقے سے حل کرنے کے سلسلے میں ان کو امریکہ کا بھی مکمل تعاون حاصل ہے، ماسوائے بھارت کا جو افغانستان میں اپنے قونصلیٹ کے ذریعے افغان عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکا رہا ہے اور اب بھی بھارت سمیت پاکستان دشمن عناصر پاک افغان سرحدوں کے قریب دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ پشاور آرمی اسکول میں دہشت گردی کے ہولناک واقعہ میں جہاں پاکستانی طالبان ملوث تھے وہیں اس اندوہناک واقعہ میں بھارت بھی ملوث تھا جس کے شواہد پاکستان کی حکومت کے پاس موجود ہیں۔ بعض ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے
کہ افغان طالبان قیام امن کے سلسلے میں پاکستان کی حکمت عملی کی حمایت کر رہے ہیں جس کا اظہار انہوں نے قطر کے افسران سے بھی کیا ہے۔ چنانچہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو افغان طالبان کے ساتھ بات چیت میں تاخیر کا مظاہرہ نہیںکرنا چاہئے اور نہ ہی ان افغان عناصر کے مشوروں پر دھیان دینا چاہئے جو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے خلاف ہیں، خصوصیت کے ساتھ کچھ وارلارڈز جن کا سیاسی مستقبل افغانستان کے اندر افراتفری سے وابستہ ہے، لیکن افغانستان کا ایک عام آدمی افغانستان میں ''خانہ جنگی‘‘ سے تنگ آچکا ہے۔ گزشتہ تیس سال سے افغانستان کے عوام بڑی طاقتوں سے مفادات کی بھینٹ چڑ ھ چکے ہیں، جس کی وجہ سے ہر خاندان شدید متاثر ہوا ہے، اب یہ تمام لوگ افغانستان میں حقیقی امن چاہتے ہیں، جبکہ امن کی چابی افغان طالبان کے پاس ہے، جو وہاں غیر ملکی فوجوں کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ سعودی عرب کا امن مذاکرات میں پہلے بھی اور اب بھی ایک اہم کردار ہے۔ افغان طالبان افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں پاکستان کے علاوہ چین اور سعودی عرب کی طرف دیکھ رہے ہیں، اور ان کے تعاون اور اشتراک سے قطر میں امن مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے
ہیں۔ اگر افغانستان میں امن قائم ہوجاتا ہے تو نہ صرف افغانستان میں بلکہ اس پورے خطے میں ترقی اور تعمیر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتاہے، جس کی تمنا اس خطے کے تمام ممالک کررہے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ پاکستان جس کے عوام اور فوجیوں نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہئے کہ افغان طالبان کے ساتھ افغان حکومت کا مذاکرات کا عمل بہت ہی پیچیدہ ہے اس لئے اس کے مثبت نتائج کے سلسلے میں بڑے تحمل کی ضرورت ہے۔ فوری طورپر کسی قسم کا نتیجہ دیر پا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ معاملات بہت زیادہ گمبھیر ہیں جن کو سلجھانے کے لئے طویل عرصہ درکار ہے، لیکن امن مذاکرات کے دوران چین اور پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ طالبان افغانستان میں حکومت کے خلاف اپنی کارروائیوں کو فی الحال موخر کردیں تب ہی جاکر امن مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں، ورنہ غلط فہمیوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود امریکہ کو اب افغانستان میں اپنی فوجی حکمت عملی کی ناکامی کا احساس ہوگیا ہے۔ وہ ایک ایسے پسماندہ قبائلی ملک میں جمہوریت اور معاشی اصلاحات کا پروگرام لے کر آیا تھا، جن کی نسلیں ان تصورات سے واقف نہیں تھیں ، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی جس نے اب تک اس پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کررکھا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں