قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ

ہمارے عوام نہایت ہی سادہ لوح ہیں۔ یہ روزمرہ ہونے والی ناانصافیوں پر تو چیخ وپکار کرتے رہتے ہیں لیکن ان معاملات پر ان کی توجہ نہیںہوتی جس کا تعلق مستقبل کے علاوہ ملکی معیشت سے وابستہ ہو، مثلاً پاکستان کی موجودہ حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے اور روزمرہ کے حکومتی معاملات چلانے کے لئے دھڑا دھڑ قرضے لے رہی ہے، جس میں آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر امداد اور قرضہ دینے والے ادارے شامل ہیں ۔ سابق حکومت کے مقابلے میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لئے ہیں، اس طرح اس وقت پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق19,299.2بلین روپے ہیں۔ اس طرح ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ حکومت قرضہ لے کر قرضہ اتار رہی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر سال پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے، جو کسی وقت ڈیفالٹ کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان قرضوں کی مد میں اپنی مجموعی آمدنی کا 47 فیصد سے لے کر 50 فیصد تک ادا کرتا ہے، باقی جو رقم بچ جاتی ہے وہ دفاعی اخراجات کے علاوہ ترقیاتی پروجیکٹس کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس طرح عوام کی فلاح و بہبود کے ضمن میں خاطر خواہ رقم نہیں بچ پاتی ۔ حکومت تعلیم کی مد میں بمشکل 2 فیصد رقم خرچ کرتی ہے، جبکہ صحت کے شعبے کیلئے تقریباً 1.5فیصد ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس خطے کا وہ واحد ملک ہے جو تعلیم اور صحت کے شعبے میں سب سے کم پیسے خرچ کرتا ہے، جس کی وجہ سے جہالت عام ہے، جو ملک کی ترقی میں رکاوٹ کا ایک سبب بن رہی ہے۔ 
غیر ممالک سے قرضہ حاصل کرنے سے متعلق ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دنیا کے اکثر ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک اپنے حکومتی اور سماجی معاملات چلانے کے لئے قرضہ لیتے ہیں اور بعد میں ادا کردیتے ہیں، نیز ان غریب ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت قرضے کی رقم بڑی ایمانداری سے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کرتی ہے۔ جبکہ کرپشن کے امکانات خاصے کم ہوتے ہیں پاکستان کا معاملہ دوسرا ہے، ماضی کے علاوہ موجودہ حکومت نے قرضوں کا استعمال انتہائی نا مناسب انداز میں کیا ہے، جس میں کرپشن کا عنصر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت گزشتہ آٹھ سالوں سے ترقی نہیں کر پا رہی او ر نہ ہی ایسی پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں جن کی مدد سے قرضوں کا استعمال ملکی مفاد کے تحت کیا جائے، مزیدبرآ ں موجودہ حکومت جس ٹھاٹھ باٹھ سے ملکی امور چلارہی ہے، اس سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ اسے ملک کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے، حالانکہ آئی ایم ایف نے قرضہ دیتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے سنجیدگی سے کوشش کرے، اور سادگی اختیار کرے ورنہ مستقبل میں پاکستان کی کمزور معیشت کے لئے بھاری سود کے ساتھ اصل رقم واپس کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان کے زرمبادلہ میں اضافہ بھی قرضوں کی رقم سے تجاوز کر رہا ہے، جبکہ بیرونی ممالک میں آباد پاکستانی محنت کشوں کی جانب سے جو رقم بھیجی جارہی ہے، اس کا حجم اتنا زیادہ نہیں ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سبب بن سکے۔ چنانچہ پاکستان کے پالیسی سازوں کوچاہئے کہ وہ مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے قرضوں کے حصول کے سلسلے میں نہ صرف احتیاط برتیں بلکہ صرف ضرورت کے مطابق قرضہ لیں۔ نیز کرپشن کو ختم کرنے کے لئے کرپٹ عناصر کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے ، کیونکہ کرپشن کی وجہ سے جہاں پاکستان بدنام ہوچکا ہے، وہیں اس کے منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہورہے ہیں۔ ہر طرف افراتفری کے علاوہ بغیر محنت کے ذریعے پیسہ کمانے کا رجحان بڑھتا جارہاہے، اس میں بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ کرپشن کلچر نے پاکستان میں جو تباہی مچائی ہے اس کے اثرات آئندہ نسلوں پر بھی پڑیں گے۔ معاشرتی سطح پر کرپشن کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کے عمل نے نوجوان نسل کو بہت زیادہ متاثرکیا ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے میرٹ کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے اور نا اہل بے افراد اعلیٰ عہدوں پر فائز کئے جا رہے ہیں۔ 
قرضوں اور کرپشن کے علاوہ پاکستان میں ایک اور مسئلہ جو آئندہ چند سالوں میں معاشرتی انارکی کا سبب بن سکتا ہے، وہ بڑھتی ہوئی آبادی کا دبائو ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی انیس اور بیس کروڑ کے قریب ہوچکی ہے، جبکہ معیشت کی شرح نمو چار فیصد سے زیادہ نہیں ہے، جو اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، چنانچہ بڑھتی ہوئی آبادی کی جب بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو ں گی تو انارکی معاشرے کا مقدر بن جائے گی اور ترقی کے تمام امکانات بھی معدوم ہوجائیں گے۔ 
تاہم اب بھی وقت ہے کہ حکومت آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو موثر طور پر روکنے کی کوشش کرے اور خاندانی منصوبہ بندی کے محکمہ کو زیادہ فعال بنا کر بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کی کوشش کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو معیشت کی شرح نمو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ معیشت کی موجودہ شرح نمو موجودہ آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے، اس ضمن میں ماہرین معاشیات کا یہ استدلال بجا ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے تو معیشت کی شرح نمو سات اور آٹھ فیصد کے درمیان ہونی چاہئے، ورنہ پاکستان کی آبادی بنیادی ضروریات سے محروم رہے گی۔ اس وقت دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جنہوں نے اپنے عوام کی مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق حکمت عملی اختیار کرکے معیشت کی شرح نمو اور آبادی کے مابین اعتدال پیدا کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں معاشرے میں خوشحالی آئی ہے اور معیار زندگی بہتر ہوا ہے، ان ممالک میں ہمارا پڑوسی دوست ملک چین ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش شامل ہیں، کیا ہم ایسی حکمت عملی اختیار نہیں کرسکتے ؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں