شام ، لیبیااور عراق میں عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اس سے قبل اسی قسم کے حالات افغانستان میں روسی فوج کی آمد کے بعد شروع ہوئے تھے۔جہاں افغان عوام کی اکثریت نے روس کی مداخلت کے خلاف مزاحمت شروع کردی تھی، امریکہ اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک اس کے بعد شامل ہوئے تھے۔ میرا اس کالم میں روسی مداخلت یا افغانستان سے متعلق پراکسی وار کا تجزیہ کرنا مقصود نہیں ہے، اس کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ انسانی تاریخ ‘ بدلتے ہوئے حالات اور واقعات کی مرہون منت ہوتی ہے۔ چند حقائق کے علاوہ تاریخ وقت کے دھارے کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی ہے۔بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے، اس وقت یورپی ممالک خصوصاً جرمنی، یونان، اٹلی اور کچھ حد تک برطانیہ بھی‘ ان خانماں بربادوںکو اپنی جگہ عزت کے ساتھ رہنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ مہاجر ، جرمنی کی طرف رخ کررہے ہیں، جہاں کی چانسلر انجیلا مرکل ایک بہادر خاتون ہیں، انہیں ماضی میں ہجرت کا اور ہجرت کرنے والوں کا خاصا تلخ تجربہ رہا ہے، اس لئے وہ شام، لیبیا، عراق اور افغانستان کے مہاجرین کو اپنے ملک میں جگہ دے رہی ہیں۔ دیگر یورپی ممالک پر بھی دبائو ڈال رہی ہیں کہ وہ جنگ اور خانہ جنگی سے متاثر ین پر اپنی سرحدیں بند نہ کریں۔ ترکی کے ساحل سمندر پر ملنے والے شامی بچے ایان کرد کی لاش نے پوری دنیا کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا تھا بلکہ ان کے لئے رحم کا غیر معمولی جذبہ بھی پیدا ہواجو اس وقت بھی ان کے دلوں میں موجزن ہے۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے، جہاں افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ آئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً دو ہزار میل لمبی سرحد ہے۔ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نسل اور ایک ہی کلچر کے لوگ آباد ہیں۔ جب افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی توافغانوں کا رخ پاکستان کی طرف تھا۔ کم از کم تیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے لیکن پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے؛ البتہ حال ہی میں کچھ کو واپس افغانستان بھیجا گیا ہے، لیکن اب بھی تقریباً 15لاکھ افغان مہاجرین پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں۔ ان میں سے بعض افغان مہاجر اچھے خاصے خوش حال ہیں‘ اور انہوںنے اپنا ذاتی کاروبار شروع کررکھا ہے؛تاہم غریب افغان مہاجرین محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ افغان ہجرت حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہے (ماسوائے پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے دوران) پاکستان نے افغان مہاجرین کو اپنے یہاں مہمان رکھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان مہمانوں نے پاکستانی کلچر میں کچھ ایسے عوامل شامل کردیئے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا معاشرہ انتشار کا شکار ہوگیاہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے جس طرح ان مہاجرین کی اخلاقی، انسانی، اور مذہبی بنیادوں پر مدد کی، اس کی مثال ملنا مشکل
ہے۔ساری دنیا نے پاکستان کی اس مہمان نوازی کی نہ صرف تعریف کی بلکہ حکومت پاکستان کے ذریعہ ان کی مدد بھی کی جو اس وقت بھی جاری ہے ،حالانکہ پاکستان کی کمزور معیشت تنہا ان کی مہمان نوازی کی متحمل نہیں ہوسکتی ، لیکن پھر بھی ان کی عارضی آباد کاری کے سلسلے میں پاکستان سے جو کچھ بھی ہوسکا کیا گیا۔ افغانستان کا ایک عام آدمی پاکستان کی اس مہمان نوازی کا اعتراف کرتا ہے، اور شکر گزاربھی ہے۔
تاہم افغان مہاجرین کی پاکستان آمد اور قیام کے سلسلے میںپاکستان کو وہ پبلسٹی نہیںمل سکی جو ملنی چاہئے تھی ، جیسا کہ اس وقت یورپی ممالک کو خانماں بربادوں کی آباد کاری کے سلسلے میں
مل رہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان سفارت کاری کے معاملے میں بہت کمزور ہے، نیز فاٹا کے قبائلی علاقوں سے ملک کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے حکومت، افغان مہاجرین کے سلسلے میں اپنے موقف کو عالمی سطح پر موثر انداز میں پیش نہیں کر سکی۔ دوسری طرف پاکستان دشمن طاقتوں نے دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو زیادہ بد نام کیا جبکہ پاکستان نے انسانیت کے نام پر افغانیوں کے لئے جو کارخیر انجام دیا ہے وہ پس پشت چلا گیا؛تا ہم دنیا تسلیم کررہی ہے کہ پاکستان کے عوام نے عدم استحکام اور کمزور معاشی حالات کے باوجود افغان مہاجرین کی بھر پورمدد کی اور کررہے ہیں۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ خود موجودہ افغان حکومت پر زور ڈالے کہ وہ اپنے ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ باقی افغان مہاجرین بھی واپس اپنے وطن چلے جائیں۔ خود افغان مہاجرین بھی وطن واپس جاکر ملک کی تعمیر نو میںاپنا کردار اداکرنا چاہتے ہیں۔ اپنے گھر بار چھوڑنا یا اپنے ملک سے ہجرت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ نفسیاتی طورپر یہ ایک دل ہلا دینے والا مسئلہ ہوتا ہے، جو بھلائے نہیں بھولتا۔ ایسے مہاجرین جہاں جاکر آباد ہوتے ہیں
وہاں کا کلچر ان کے کلچر سے متصادم ہوتا ہے، جو مزید نفسیاتی عوارض پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہجرت کبھی بھی انسانی تاریخ میںخوشگوار عمل یا تجربہ نہیںرہا ۔لیکن سیاسی حالات مثلاً متحارب گروپوں کے درمیان جنگ اور خانہ جنگی وغیرہ جیسے تکلیف دہ محرکات انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔مشرق وسطیٰ میںہماری نظروں کے سامنے یہ سب کچھ ہورہا ہے، ان تکلیف دہ مناظر کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، لیکن سیاسی بالادستی اور کسی ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے کی جابرانہ جبلت ایسا ماحول پید ا کردیتی ہے ‘جو انسانوں کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہے۔ یورپ میں ان مہاجرین کو نفسیاتی طورپر سنگین مسائل پیش آرہے ہیں لیکن پاکستان میں افغان مہاجرین نفسیاتی ولسانی بنیادوں پر ضم ہوگئے ہیں اور اپنے ملک کے مقابلے میں یہاں بہتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن اب ان مہاجرین کو واپس اپنے وطن جانا چاہئے، بلکہ اشرف غنی کی حکومت کو انہیں افغانستان بلانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ جب تک افغان مہاجرین پاکستان میںمقیم ہیں دونوں ہمسایہ مسلم ملکوں کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی پیدا نہیں ہوسکے گی، کیونکہ افغان مہاجرین کا مسئلہ افغانستان میں امن کے قیام سے جڑا ہواہے،اگروہاں امن اور استحکام آ جائے تو افغانستان کے دیگر مسائل بھی بہ آسانی سے حل ہو جائیں گے۔