امریکی صدربارک حسین اوباما نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ بہت عرصے تک جنوبی ایشیا کا خطہ جس میں پاکستان اور افغانستان سر فہرست ہیں ‘ عدم استحکام سے دوچار رہے گا۔ ان کے اس بیان کا پاکستان میں ملا جلا ردعمل ہوا ہے۔سرتاج عزیز نے بارک اوباما کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا، یہ خطہ جلد مستحکم ہوجائے گااور یہاں سے دہشت گردوں کا صفایا بھی، لیکن سرتاج عزیز کے خیالات زمینی حقائق سے مطا بقت نہیں رکھتے ۔پاکستان میں ضرب عضب کی دہشت گردوں کے خلاف نمایاں کامیابیوں کے باوجود دہشت گرد موقع ملنے پر اپنی کارروائیاں کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں، با الفاظ دیگر ان کا نیٹ ورک پاکستان کے اندر کسی نہ کسی جگہ موجود ہونے کے ساتھ ساتھ فعال بھی ہے ۔باچا خان یونیورسٹی اورحال ہی میں کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد ایک منظم حکمت عملی کے تحت ایسا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر اور باہر سے بھی مدد مل رہی ہے، ورنہ یہ عناصر اپنی مذموم حرکتوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے میں جہاں ہمارے اپنے لوگ شامل ہیں، وہیں مشرقی اور مغربی سرحدوں کے قریب وہ عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں جو روپے پیسے کے عوض یہ مذموم کام کررہے ہیں۔یہ عناصر نظریاتی نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں اسلامی اقدار سے کسی قسم کا واسطہ ہے۔ انہیں ''حکم‘‘ ملتا ہے ، بھاری رقوم ان کے سپرد کی جاتی ہیں اور یہ اپنی کارروائیاں کرنے میں کبھی کامیاب ہوجاتے ہیں یا پھر مارے جاتے ہیں۔پاکستان کی فوج اس محاذ پر جس بہادری اور جوانمردی سے ان سفاک اور ظالم عناصر کا مقابلہ کررہی ہے ‘وہ اپنی جگہ انتہائی قابل تحسین اور قابل تعریف ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ سیاسی حکومت کیا کررہی ہے؟ کیا اس کے پاس ان دہشت گردوں کو کیفر کردار پہنچانے کے ضمن میںکوئی منصوبہ بند ی ہے؟ کیا حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے میں سنجیدہ ہے؟کیا حکومت عوام کی بھلائی اور بہبود کے ضمن میں کوئی اچھی طرز حکمرانی کا مظاہرہ کررہی ہے؟ نیز حکومت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کو غیر موثر بنادیا ہے، تمام اہم امور خفیہ طورپر وزیراعظم کے مخصوص حواریوں کے مشورے سے طے کئے جاتے ہیں، جس کے بعد میں ملک میںاچھے اثرات مرتب نہیںہوتے ۔ن لیگ کا یہ انداز حکمرانی پاکستان میں معاشی وسیاسی حالات کو بہتر بنانے میں ہنوز ناکام ونامراد ثابت ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر ُسو بے چینی اور افراتفری نظر آرہی ہے اور عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد تقریباً ختم ہوچکاہے۔اسی باعث پی پی پی کے رہنما جناب اعتراز احسن کو کہنا پڑاہے کہ ملک میں قومی حکومت کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔مزید برآں اس صورتحال کے پیش نظر عوام اپنے دکھوں کا مداوا فوج میں دیکھ رہے ہیں، لیکن سیاست دانوں نے اپنے خودپرستانہ و مفاد پرستانہ طرز عمل سے سیاسی ومعاشی ومعاشرتی حالات کواتنا دگرگوں بنادیا ہے کہ فوج بھی کس طرح ان حالات کو سدھاریا پھر سنوار سکے گی؟ مشرقی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ اس ملک میں ایک ایسا عیار ‘ چالاک اور مسلمان پاکستان دشمن وزیراعظم اقتدار پر براجمان ہے جو کسی بھی وقت پاکستان پر فوجی کارروائی کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ مغربی سرحد یعنی افغانستان کے اندر موجود سیاسی قیادت پاکستان کے خلاف وہی جذبات رکھتی ہے جو کم وبیش بھارت کی حکومت میں پائے جاتے ہیں۔اس پریشان کن صورتحال کا مقابلہ صرف اور صرف پاکستان کی فوج کررہی ہے جبکہ حکومت غیر پیداواری پروجیکٹوں پر کام کرکے کک بیک کے ذریعہ اپنی دولت وثروت میں اضافہ کررہی ہے۔پاکستان کے عوام یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، مشاہدہ کررہے ہیں، لیکن جمہوریت کے سبز باغ میں پھنس کر اور اپنے افلاس زدہ حالات کے پیش نظر سڑکوں پر آنے سے گریزاں ہیں۔
اس پس منظر میں ایک اور سنگین مسئلہ جو آئندہ اس ملک کے لئے گورننس کے حوالے سے پیچیدہ مسائل پیدا کرسکتا ہے ‘وہ ملک کی معیشت ہے ‘جس کی شرح نمو تین اور چار کے درمیان ہے ۔ اس میں فی الحال اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے، نہ تو غیر ملکی سرمایہ آرہا ہے اور نہ ہی مقامی سرمایہ دار نئی صنعتیں لگا رہا ہے۔پاکستان کو امداد دینے والے ممالک (آئی ایم ایف کوچھوڑ کر) پاکستان کو سرمایہ کاری کے حوالے سے منفی فہرست میں ڈال چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ کرپشن کے اثرات ہیں جو ماضی میں زرداری حکومت میں بلندیوں پر جا پہنچی جس کے سلسلے میں خاصے بڑے لوگوں کو گرفتار بھی کیاجاچکا ہے۔ماضی میںہونے والی کرپشن میں میاں صاحب فرینڈلی اپوزیشن کی ایک حکمت عملی کے تحت زرداری صاحب کے ساتھ ملے ہوئے تھے، اور اب بھی ان کا رابطہ برقرار ہے۔ مزیدبرآں میاں صاحب اور ان کے خوشامدیوں نے پاکستان کی ترقی کا تمام تر انحصار پاکستان چین اکنامک راہداری سے منسلک ومربوط کردیاہے، حالانکہ یہ عظیم منصوبہ بنیادی طورپر چین کے وسیع تر مفادات کو پورا کرنے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ یقینا اس منصوبے سے پاکستان کو بھی فائدہ حاصل ہوگا، لیکن یہ سوچنا کہ اس سے پاکستان کی معیشت میں کوئی انقلابی تبدیلی آئے گی، حقائق سے عاری سوچ ہے۔تبدیلی اسی صورت میں آسکتی ہے جب حکومت پاکستان اپنے وسائل اور اپنی حکمت عملی کے تحت وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا آغاز کرے، اور ایسی معاشی پالیسیاں مرتب کرے جس پر عمل پیرا ہوکر پاکستان مضبوط بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے، کیونکہ آج کی اس دنیا میں ترقی اور خوشحالی کا راز صرف اور صرف معاشی ترقی سے وابستہ ہوچکا ہے۔بھارت ہر چند کہ ہمارا دوست ملک نہیںہے، لیکن معاشی ترقی میں بڑی تیزی سے آگے کی طرف رواں دواں ہے جبکہ کرپشن پاکستان کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ کیا پاکستان کے سیاست دان اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں؟اور اگر رکھتے ہیں تو پھر نیک نیتی کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
یہ پاکستان کی بد نصیبی ہے کہ ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوئے ہیں جو صرف اپنے مفادات کے لئے ملک کا نام اور پیسہ استعمال کررہے ہیں، جبکہ عوام کے معاشی ومعاشرتی حالات کو سدھارنے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہورہاہے ۔ ظاہر ہے کہ ایک بے چین معاشرے میں کیونکر استحکام پیدا ہوسکتاہے؟ اچھی طرز حکمرانی سے ملک میں استحکام پیدا ہوتا ہے، اور عوام کے مسائل بھی حل ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، چنانچہ اطراف سے دشمنوں میں گھر ے ہوئے اور بری طرز حکمرانی سے یہ ملک عدم استحکام سے دوچار رہے گا، جس کا اظہار بارک اوباما نے اپنے خطاب میں کیا ہے۔