گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے علاقہ ہندواڑہ میں اسکول کی ایک طالبہ پر بھارتی فوج کے ایک سپاہی نے اس کی عصمت لوٹنے کے لئے حملہ کیا تھا۔ اس زیادتی کے خلاف کشمیر میں شدید غم و غصے کا اظہار اور احتجاج کیا جا رہا ہے۔ لڑکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ جب اسکول کے باتھ روم میں گئی تو ایک فوجی نے اس کا پیچھا کیا، شور مچانے پر وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ قرب وجوار کے تمام لوگوں نے اسے فرار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اب اس لڑکی اور اس کے والدین پر صوبائی حکومت کے بعض ارکان خاص طور پر بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اسمبلی کے ممبران بیان بدلنے کے لئے مسلسل دبائو ڈال رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے میں جو دو نوجوان اس نازبیا اور قابل مذمت حرکت میں شامل تھے، ان میں ایک بلال احمد بندے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے جن دو نوجوانوں کو اس واقعے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، ان کے بارے میں لڑکی کا بیان تبدیل کرنے کے لئے دبائو کا مقصد سوائے اس کے اورکچھ نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے اس علاقے میں فوج کے ظلم و ستم کے علاوہ مقامی لوگوں خصوصیت کے ساتھ خواتین پر ہونے والی زیاتیوں پر پردہ ڈالا جائے۔ حریت کانفرنس کے رہمنائوں نے بھی اس واقعے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جن دو نوجوانوں کے بارے میں مبینہ طور پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اس واقعے میں ملوث نہیں تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اصل ملزموں کو گرفتار کر کے ان سے شفاف تفتیش کی جائے، لڑکی نے شدید دبائو کی وجہ سے اپنا اصلی بیان بدلا ہے۔ لڑکی کے والدین نے بھی میڈیا کو بتایا کہ ان کی بچی پر بیان بدلنے کے سلسلے میں شدید دبائو ڈالا جا رہا ہے۔
جب لڑکی سے زیادتی کا واقعہ منظر عام پر آیا تو علاقے کے عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔ فوج نے عوام کے اس پرامن احتجاج کو روکنے کے لئے ان پر گولیوںکی بوچھاڑ کردی جس میں پانچ نوجوان شہید ہوگئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ اس وقت ایک طرف پوری وادی کے عوام میں سخت غم وغصہ پایا جا رہا ہے، تو دوسری جانب محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ان کی مخلوط حکومت میں بی جے پی میں شامل ہے، لہٰذا یہ جس قسم کی بھی قانون سازی چاہتی ہے کرا لیتی ہے۔ چنانچہ کشمیری لڑکی کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے متعلق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ایک مذمتی بیان تک بھی نہیں دے سکیں اور نہ ہی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں جو خصوصی اختیارات حاصل ہیں ان میں ترمیم یا پھر ختم کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھاسکی ہیں۔ ان خصوصی اختیارات کے ذریعے بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم وجور کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر میں لڑکی کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور پانچ نوجوانوں کی شہادت پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے سے متعلق غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند سیاست دان اور عوام قانون اور آئین کی روشنی میں اپنے بنیادی حقوق کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں ۔ ان حقوق میں استصواب رائے جیسا بنیادی حق بھی شامل ہے جس کے لئے کشمیری عوام نے 65 برسوں میں جانی، مالی اور عزت و ناموس کی بے مثال قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی بھارتی فوج پر کشمیری خواتین کی عصمتیں لوٹنے کے واقعات بھارت کے اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں۔2011 ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نے کم از کم 1400خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات کا اعتراف کیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان خواتین کے نام ظاہر نہیں کرسکتے۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک دانشور لیاقت علی خان نے کہا ہے کہ اگرچہ خواتین کے ساتھ زیادتیاںکرنا سرکاری پالیسی نہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر میں فوج کو جو خصوصی اختیارات حاصل ہیں وہ ان کا ناجائزاستعمال کرتے ہوئے کشمیری عوام کے ساتھ بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
گزشتہ سال عدالتوں نے ریپ کے مقدمات میں ملوث 125 فوجیوںکو مرکزی حکومت کے دبائو پر بری کردیا؛ حلانکہ حکومت اور خود فوج کے سربراہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فوجی کشمیری خواتین کے ساتھ زیادتیوں میں ملوث تھے۔ صوبائی حکومت کی لاچاری ان قابل مذمت اور افسوسناک واقعات کے پیش نظر قابل دید ہے۔ جب مقبوضہ کشمیر کی صوبائی حکومت سے ان واقعات کی تحقیقات کے سلسلے میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جاتاہے تو وہ ٹال مٹول کرکے اس مطالبے کو سرد خانے میں ڈال دیتی ہے۔ صوبائی حکومت کے اس رویے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے عوام میں مزید اشتعال پھیلتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اب روزمرہ کی بنیاد پر بھارتی فوج اور حکومت کے خلاف احتجاج بڑھتا جا رہا ہے اور پر زور مطالبہ کیاجا رہا ہے کہ گزشتہ دنوں جن نوجوانوںکو شہید کیا گیا، اس کی شفاف تحقیقات کی جائے، گولی چلانے والے فوجیوں کو فی الفورگرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے اور انہیں سخت سزادی جائے۔
کشمیری عوام کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے پاکستان کا موقف واضح ہے۔ جب تک کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کا بنیادی حق نہیں ملے گا، کشمیری عوام کی جدوجہد جاری رہے گی اور پاکستان ہر فورم پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری فورسز کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں پر احتجاج کرتا رہے گا تاکہ ان مظلوموں کو عالمی سطح پر پذیرائی مل سکے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار امن کا قیام بھی کشمیر کے مسئلے کے حل سے جڑا ہوا ہے، جس کا بر ملا اظہار حال ہی میں ترکی میں ہونے والی تیرھویں سربراہی کانفرنس میںکیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں محض انتخابات کرانے سے نہ تو کشمیری عوام کے احساسات کی ترجمانی ہو سکے گی اور نہ ہی وہ اپنی آزادی کے سلسلے میں اپنے موقف سے دستبردار ہوں گے ، بھارت کو آخر کار اس خطے سے جانا ہی ہوگا۔