کراچی آپریشن جاری رہے گا

کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز اور کار لفٹنگ کے واقعات میں ہر چند کہ کمی واقع ہو رہی ہے، لیکن یہ کہنا کہ یہ شہر ہر قسم کے کرائمز سے محفوظ ہوگیا ہے، نامناسب بات ہوگی۔ کراچی میں تقریباً 52 تھانوں کی حدود میں موبائل فون، کارلفٹنگ اور ڈکیتی کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں، بلکہ بعض جگہ اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ صحت و صفائی کے لحاظ سے بھی کراچی میں ہنوزکوئی تبدیلی نہیں آئی، گندگی کے ڈھیر، بارشوں کا رکا ہوا پانی اور ابلتے ہوئے گٹر لوکل گورنمنٹ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کراچی کے میئر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت انہیں مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کر رہی، اس لئے مختلف علاقوں میں کام رکا ہواہے۔ میئر کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کی حکومت جان بوجھ کر میئر کو ضروری فنڈز فراہم نہیں کر رہی ہے، بلکہ مبینہ طور پر حکومت غیر معمولی کرپشن میں بھی ملوث ہے۔ صوبائی وزیر جو مقامی حکومتوں کا نگراں ہے، اس کی ترجیحات میں کراچی کی بھلائی اور اصلاح شامل نہیں، بلکہ ان کی کوشش یہ ہے کہ کراچی کے عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جائے اوران کے نمائندوں کی کارکردگی کو ناقص قرار دے کر آئندہ انتخابات میںا پنے امیدواروں کو سامنے لاکر کراچی کے مسائل حل کیے جائیں۔ 
کراچی کے ان نامناسب، ناگفتہ اور تکلیف دہ حالات کے پیش نظر ابھی حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی کا مختصر دورہ کیا۔ انہوںنے اپنے قیام کے دوران کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں سے تفصیلی ملاقات کی اور ان سے کھل کر شہر کے معاملات پر بات چیت کی۔ جنرل صاحب نے تاجروں کے وفد کویقین دلایا کہ کراچی میں آپریشن جاری رہے گا، کیونکہ سماج دشمن عناصرکی اس شہر میں سرگرمیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی ہیں۔ رینجرز اور پولیس دونوں باہم مل کر سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں، جن کے اخلاص اور پیشہ ورانہ کارروائیوں کی وجہ سے کراچی کی رونقیں آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہیں۔ جنرل صاحب نے بڑی وضاحت سے کہا کہ کراچی پاکستان کو 60 فیصد سے زائد ٹیکس کی صورت میں رقم فراہم کر رہا ہے، اس رقم سے فوج کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں؛ چنانچہ اس شہر میں صنعت و حرفت کا پہیہ چلتا رہنا چاہیے جس کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ جہاں تک لوکل گورنمنٹ کی مالی ضروریات کا تعلق ہے، انہیں ضرور ملنی چاہئیں اور سندھ کی حکومت کو اس سلسلے میں لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں سے تعاون کرنا چاہیے۔ 
کراچی کے صنعت کار اور تاجر جنرل باجوہ سے مل کر بہت خوش ہوئے، جو کراچی میں امن کے قیام اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں اسی طرح کی دلچسپی لے رہے ہیں، جس طرح جنرل راحیل شریف نے ماضی میں لی تھی۔ سندھ کی حکومت کو چاہیے کہ وہ لوکل گورنمنٹ کے مسائل حل کرنے کے لئے اپنے سوچ، رویے اور گورننس میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے، نیز میئر کو فنڈز کے سلسلے میں جو شکایتیں ہیں ان کو دور کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہیںکرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میںحالات کی بہتری سے خود سندھ کی مجموعی ترقی پر اس کے انتہائی خوشگوار اور مثبت اثرات مرتب ہوسکیں گے۔ اس سلسلے میں کراچی کے عوام ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ماضی میں اس شہر کے ساتھ جو غیر انسانی اور غیر مہذب سلوک ہوا جس کی وجہ سے صنعت وحرفت کا پہیہ رک چکا تھا اور سرمایہ ملک سے باہر چلا گیا تھا، اب ایسا نہیںہونا چاہیے۔ ٹارگٹڈ آپریشن کی وجہ سے ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور اور دیگر سماج دشمن عناصر کی بیخ کنی کسی حد تک ہو چکی ہے اور کراچی میں ماضی کے مقابلے میں حالات بہت زیادہ بہتر ہوئے ہیں، لیکن جیسا کہ سی پی ایل سی کے نمائندوں کا کہنا ہے، اب بھی سماج دشمن عناصر کہیں نہ کہیں موجود ہیں جو افراتفری اور لاقانونیت کو پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ شہرمیں امن قائم نہ ہوسکے اور تجارتی وصنعتی سرگرمیاں بحال نہ ہوسکیں۔ چنانچہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان عناصر کا تعاقت کر رہے ہیں جو کسی نہ کسی جگہ رو پوش ہوکر ڈکیتی اور قتل وغارت گری کی مذموم وارداتیں کر رہے ہیں۔ یہ عناصر خوف پھیلانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کراچی میں امن قائم کرنا صرف اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ عوام کو خود بھی احساس کرنا ہو گا کہ کراچی سے دہشت گردی ختم کرنے کی مکمل ذمہ داری اداروں اور فورسز پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس کے لئے شہریوں کو خود بھی میدان عمل میں نکلنا ہو گا۔ ایسے لوگوں اور ایسی تخریبی حرکات و سکنات کی نشاندہی کرنا ہو گی جو ان کے اردگرد ہو رہی ہیں۔ بیشتر شہری اس خوف سے ایسی باتیں چھپا لیتے ہیں کہ کہیں ان کا نام نہ آ جائے۔ عوام کو اب اس خوف سے باہر نکلنا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گاکہ اگر وہ اسی خوف مبتلا رہے تو دہشت گردی جڑ سے ختم نہیں ہو پائے گی اور ان کی آئندہ نسلیں پر امن کراچی دیکھنے سے محروم رہ جائے گی۔ فی الوقت کراچی میں جو امن نظر آ رہا ہے اسے قائم رکھنے کے لئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وگرنہ شہر میں دیرپا اور پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
شہر کے بعض ذمہ دار افراد کا یہ تبصرہ معقول لگتا ہے کہ یہ شہر اب آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ماضی میں اس شہر کے باسیوں نے اپنے ناکردہ گناہوں کی بے پناہ قربانیاں دی ہیں، اب وہ اس خونی تاریخ کو دہرانے نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کراچی کے شہریوں کی جانب سے بھر پور تعاون مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں آہستہ آہستہ نئے کارخانے لگنے کا کام بھی شروع ہو چکا ہے، جن میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں، جن میں سرمایہ کاری سے ہنر مند اور غیر ہنرمند دونوں کوفائدہ پہنچے گا، کیونکہ کسی حد تک بے روزگاری اور محرومی جرائم کو جنم دیتی ہے۔ ماضی میں پھیلنے والی لاقانونیت اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوا تھا، لیکن اب صورت حال یکسر بد ل رہی ہے۔ شہر میں آسودگی کی فضا پیدا ہو رہی ہے، سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ جو تنظیمیں شہر میں لاقانونیت پھیلا رہی تھیں ان کی بھی شناخت ہوچکی ہے۔ کراچی کے عوام نے انہیں مسترد کردیا ہے، ان کی سوچ ترقی اور تمدن کے ساتھ منسوب ہوچکی ہے، جس کا اظہار آرمی چیف سے کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں نے کیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں