شام گزشتہ پانچ برس سے ہولناک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ اب تک اس خانہ جنگی کے نتیجے میں تین لاکھ افراد ہلاک اور تقریباً ایک کروڑ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اتنی تباہی کے بعد اب بشارلاسد اس خونیں کھیل کو ختم کرنے کی تیاری میں ہیں۔ وہ اپنے لیے ایک بنکر اور ساحلی شہر لطاقیہ کے نواحی پہاڑوں میں ایک انکلیو تعمیر کرا رہے ہیں۔ اس شہر میں علوی کثرت سے آباد ہیں۔ اس پسپائی میں ایرانی اُن کا ہاتھ بٹا رہے ہیں کیونکہ شام پر اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کی امید دم توڑتی جا رہی ہے۔ اب خطے میں یہ سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ اسد باقی رہیں گے یا نہیں بلکہ یہ کہ ان کے بعد دمشق کس کے کنٹرول میں ہو گا؟ اور یہ کہ اگر ملک کا نسلی اور مسلکی بنیادوں پر شیرازہ بکھر گیا‘ تو بربادی کی کیسی داستان رقم ہو گی؟
مستقبل کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو شام کے نام نہاد اعتدال پسند باغی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ ان کی سکت زیادہ نہیں کیونکہ امریکہ اور عرب ریاستیں ان کی مدد کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ امریکہ کے سیکرٹری دفاع ایش کارٹر نے گزشتہ ہفتے سینیٹ کو یہ بتا کر ششدر کر دیا کہ اب تک پینٹاگان صرف ساٹھ اعتدال پسند باغیوںکو تربیت دینے میں کامیاب ہوا ہے؛ حالانکہ گزشتہ سال 5,400 باغیوں کو تربیت دے کر داعش کے مقابلے میں اتارنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس دوران عراق میں فوج کو تربیت دینے کے لیے جانے والا 3,500 امریکی فوجیوں کا دستہ بھی اب تک صرف 2,600 عراقی فوجیوں کو تربیت دینے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ یقیناً ان اعدادوشمار کے ساتھ اسد حکومت یا داعش کے خلاف جنگ نہیںجیتی جا سکتی۔
عرب دنیا‘ جو کئی برسوں سے پُرتشویش نگاہوں سے یہ سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی، اب تک کم از کم ایک ٹھوس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسد کا دور تمام ہوا۔ دمشق پر آئندہ کس کی حکومت ہو گی؟ اگر پینٹاگان کے تربیت یافتہ پانچ درجن اعتدال پسند جنگجو ایسا نہ کر سکے تو پھر میدان یقینی طور پر دو میں کسی ایک انتہاپسند گروہ کے ہاتھ رہے گا۔۔۔۔ داعش یا القاعدہ۔ بے شک یہ ایک خوفناک چوائس ہو گی، لیکن اس کے سوا اور کوئی چوائس موجود نہیں۔ اب تک ترکی اور خلیجی ریاستیں خود کو نئی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر چکی ہیں۔ وہ القاعدہ (جس کا مقامی نام جبہۃ النصرہ ہے) کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اسے بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کر رہی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ گروہ داعش کی نسبت ''پُرامن‘‘ ہے۔ یہ بات کچھ عرصہ پہلے ناقابل تصور دکھائی دیتی تھی‘ لیکن داعش نے ثابت کیا کہ اس کے مقابلے میں القاعدہ اور اس طرح کے دیگر گروہ زیادہ معتدل ہیں۔
اس پسِ منظر میں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ اگر القاعدہ کامیاب ہو گئی تو کیا یہ اپنے ہمسایوں کی مدد سے اپنی خلافت کے قیام کا اعلان تو نہیں کر دے گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کون سے حالات تھے کہ ہم حماقت کے اس گڑھے میں جا گرے۔ اس ضمن میں سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ لندن یا واشنگٹن کو القاعدہ کی پشت پناہی کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ اس کا رہنما، ایمن الظواہری 25 ملین امریکی ڈالر سر کی قیمت کے ساتھ اب بھی امریکہ کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست ہے۔ القاعدہ کی حمایت کرنا مغرب کے لیے کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہے کیونکہ اس کے ساتھ نائن الیون کی یادیں وابستہ ہیں‘ لیکن اگر اوباما انتظامیہ داعش سے نمٹنے کے لیے دستے تعینات کرنے کو تیار نہیں تو پھر اسے اپنے عرب اتحادیوں پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں کہ وہ القاعدہ کے ساتھ مراسم کیوں بڑھا رہے ہیں؟ بدقسمتی سے مغرب کے پاس کوئی جاندار متبادل منصوبہ نہیں۔ اس کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی بے شمار تضادات کی شکار ہے۔ اس میں حد درجہ ابہام اور کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق و سطیٰ کی ریاستوں نے اپنی من مانی (جتنی وہ کر سکتی ہیں) کرتے ہوئے القاعدہ کی طرف جھکائو ظاہرکرنا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت ترکی، سعودی عرب، قطر اور خلیجی ریاستیں القاعدہ کی حمایت کرتے ہوئے اسے ہتھیار اور رقم فراہم کرنے کے علاوہ اس کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہی ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی قیادت سعودی عرب کے ہاتھ ہے اور اسی دوران خطے کے کئی مقامات پر داعش نے حملے کیے ہیں (سعودی عرب اور تیونس میں ہونے والے بم دھماکے) ادھر ترکی کو خدشہ ہے کہ شام کے کرد قبائل، ترکی کے کرد قبائل کو آزاد ریاست کا مطالبہ کرنے اور اس کے حصول کی جدوجہد کرنے کی ترغیب دیں گے۔
اس وقت القاعدہ صرف شام میں ہی فعال نہیں ہو رہی بلکہ دیگر ممالک میں بھی اس کے حامی گروہ نئے دوست تلاش کر رہے ہیں۔ یمن میں واشنگٹن طویل عرصے سے القاعدہ کے جنگجوئوں پر ڈرون حملے کر رہا ہے۔ یمن میں القاعدہ کو اے کیو اے پی (AQAP) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان حملوں میں اے کیو اے پی کا رہنما ناصرالوحشی ہلاک ہو گیا تھا۔ واشنگٹن کو یقین ہے کہ اے کیو اے پی امریکی شہروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے؛ تاہم امریکہ کے عرب اتحادی اس کے ساتھ مفاہمت کرتے ہوئے امریکہ کے نئے اتحادی ایران کے خلاف الائنس بنا رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ دراصل بہت سے ممالک کو جنگ کے وقت ہی سمجھ آتی ہے کہ دشمن کا دشمن اتحادی بن سکتا ہے، چاہے وہ زمانۂ امن میں کتنا ہی ناقابل برداشت کیوں نہ ہو۔ اس فارمولے کے مطابق عرب ریاستیں ایران کے مقابلے میں اے کیو اے پی کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنا چکی ہیں۔
شام اور یمن کے میدان جنگ میں عرب ریاستیں نہ صرف القاعدہ پر امریکی حملوں کی مخالف ہیں بلکہ اس کے رہنما الظواہری کو بھی عملی حمایت کی پیش کش کر رہی ہیں، اس لیے اس خطے میں دو اہم جنگیں متوقع ہیں۔ پہلی جنگ میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی شام اور یمن میں القاعدہ اور داعش کو شکست دینے کی کوشش کریں گے۔ اس جنگ میں عرب ریاستیں حصہ نہیں لیںگی اور نہ ہی امریکیوں کو کوئی معلومات فراہم کریں گی۔ دوسری جنگ میں تمام عرب اتحادی مل کر بشارالاسد، جن کی پشت پر ایران ہو گا، کے خلاف لڑیں گے؛ تاہم اسی میدان میں ان کا داعش کے ساتھ بھی آمنا سامنا ہو گا۔ اس جنگ میں عرب اتحادی کھل کر اے کیو اے پی کا ساتھ دیتے نظر آئیں گے۔ اے کیو اے پی اور اس کے معاون گروہوں کی طرف سے اعلانات سامنے آ چکے ہیں کہ وہ اسد حکومت کو گرانے اور ایران کی مخالفت میں متحد ہیں۔
اس وقت واقعات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک سال پہلے مغرب کی بنائی گئی پالیسی گئے وقتوں کا قصہ لگتی ہے۔ اس دوران پتا نہیں داعش کہاں سے نمودار ہوئی اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ کے رقبے جتنے علاقے کو شام اور عراق سے کاٹ کر اس پر اپنی خلافت قائم کر لی۔ اب یہ تیونس سے لے کر پاکستان تک، دنیا کے دیگر خطوں کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ نائیجیریا سے لے کر روس تک، گیارہ ممالک میں موجودگی رکھنے والے گروہ اس کے ساتھ وابستگی ظاہر کر چکے ہیں۔ اس نے مغربی ممالک میں رہنے والے نوجوان اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی متاثر کیا اور وہ اس کی صفوں میں شامل ہو کر جہاد کر رہے ہیں۔ دوسرے انتہا پسند گروہوں کے برعکس داعش تیزی سے ریاست کے خدوخال واضح کرتے ہوئے اسے ایک ریاست کے طور پر پیش کرنے کے عمل میں مصروف ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جس دوران دنیا کی توجہ داعش پر مرکوز ہے، کئی سالوں کی بمباری اور فوجی کارروائی کی وجہ سے کمزور ہونے والی القاعدہ اپنے آپ کو سنبھال کر میدان میں آ رہی ہے۔ اس کی شام اور یمن میں توانا موجودگی ظاہر ہے۔ یہ افغان اور پاکستانی انتہا پسندوں کو تحریک دیتی ہے۔ داعش کی طرح خطہ چھین کر خلافت قائم کرنے کی بجائے، القاعدہ اپنی منقسم موجودگی کو ترجیح دیتی ہے۔ اس وقت اس کا ہدف ایران اور اسد حکومت ہے۔ داعش کی قوت کا انحصار دیگر ممالک سے آنے والے جنگجوئوں پر ہے، لیکن القاعدہ کی شامی شاخ میں مقامی جنگجو شامل ہیں۔ اس لڑاکا فورس کا تعلق شام کے مستقبل سے ہے اور یہ داعش کے سخت گیر اسلامی قوانین کو پسند نہیں کرتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا نے ایک عشرہ جنگ کرکے القاعدہ کو کمزور کیا تھا، لیکن داعش کے سر ابھارنے سے اس کو تقویت ملی۔ مغرب اور عرب دنیا اسد حکومت گرانے کی کوشش کی بھاری قیمت چکانے والے ہیں۔