احمد فراز نے کہا تھا ؎ شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے مئی کے عام انتخابات سے پہلے اس قلمکار نے اپنے حصے کی شمع جلائے رکھی۔ بولتا رہا‘ لکھتا رہا‘ اپنا مافی الضمیر قرطاس پر منتقل کرتا رہا‘ لیکن یہ سب کچھ صدا بصحرا ثابت ہوا۔ ایک دفعہ پھر اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش کررہا ہوں۔ شاید… شاید کوئی دھیان دے، کوئی سن لے۔ سماج میں اگر مکالمہ ختم ہوجائے تو سوچ کے پانیوں میں ٹھہرائو آجاتا ہے اور ٹھہرے ہوئے پانی کائی زدہ ہوجاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جس طرح ملک میں عام انتخابات کروائے وہ سب کے سامنے ہیں۔ صلاحیتوں کی کمی، سفارشوں پر تعیناتیوں، ذاتی ایجنڈوں اور مفادات کی ترجیحات کے مارے ہوئے الیکشن کمیشن سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں یہی تماشے ہوئے اور آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی شاید اس سے کچھ مختلف ہونے والا نہیں۔ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں یا جہاں جہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں اور عوام کی رائے لی جاتی ہے وہاں الیکشن کمیشن کا ادارہ بنتا ہے اور وہاں کی پارلیمنٹ اور خود الیکشن کمیشن انتخابی قوانین بناتا ہے جس کی توثیق کردی جاتی ہے اور اسے نافذ العمل سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل ایک تسلسل کے ساتھ ہر ملک میں ہورہا ہے ۔ کہیں آئین میں ترمیم کو براخیال نہیں سمجھا جاتا‘ اس لیے کہ آئین اور قوانین انسانوں کے لیے بنائے جاتے ہیں اور ان کی بہتری کے لیے اگر ضروری ہوتو آئین میں ترامیم کردی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے دنیا کے تمام مہذب اور جمہوری ممالک میں ترامیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بھارتی آئین میں 74ترامیم ہوچکی ہیں۔ بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا ، کویت، امریکہ، کینیڈا، سری لنکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، ہالینڈ ، سویڈن اور دوسرے ممالک کے دساتیر میں بارہا ترامیم ہوچکی ہیں اور اس عمل کو برا نہیں گردانا جاتا۔ ہمارے ہاں بھی متعدد ترامیم ہوچکی ہیں اور آئین کو بہتر بنانے کے لیے مزید ترامیم کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں ایک امیدوار کو ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے کا حق دیا گیا ہے۔ عموماً سیاسی جماعتوں کے قائدین یا مقبول سیاستدان ایسا کرتے ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ حلقوں سے جیت بھی جاتے ہیں لیکن قانون کے مطابق ایک شخص صرف ایک نشست اپنے پاس رکھ سکتا ہے ‘ لہٰذا اسے باقی نشستیں چھوڑنا پڑتی ہیں۔ چھوڑی گئی نشستوں پر الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کراتا ہے جسے ضمنی انتخاب کہا جاتا ہے۔ یوں پرانا عمل ایک دفعہ پھر دہرایا جاتا ہے۔ امیدوار اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیں‘ جلسے کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، پوسٹرز چھپواتے ہیں، گھر گھر جاتے ہیں، الیکشن کمیشن اپنا عملہ تعینات کرتا ہے‘ ووٹرز دوبارہ گھروں سے نکلتے ہیں‘ دوبارہ ووٹ ڈالتے ہیں، دوبارہ تمام متعلقہ محکمے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس سے ووٹرز کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے‘ وقت کے ساتھ اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں اور امیدواروں کو بھی نئے سرے سے پیسے لگانا پڑتے ہیں۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ ایک قانون کے ذریعے امیدواروں پر ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخاب لڑنے پر پابندی لگادی جائے تاکہ ضمنی انتخابات کے سردرد سے نجات حاصل کی جاسکے۔ اصل میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنے اور اپنے ووٹرز پر یقین نہیں ہوتا کہ وہ جیت جائیں گے لہٰذا وہ مختلف حلقوں سے انتخاب لڑتے ہیں تاکہ کسی ایک سے تو جیت کر اسمبلی کی زینت بن جائیں۔ کیونکہ اسمبلی میں پہنچنا ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے‘ اس کے بغیر ان کی سیاست پروان چڑھتی اور نہ وہ عوام کی ’’خدمت ‘‘ کرپاتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں تو بعض حلقوں میں تین تین دفعہ انتخابات ہوئے‘ مثلاً NA-55 راولپنڈی میں۔ اس دفعہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 41نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے جن پر سیکڑوں امیدواروں نے الیکشن لڑا۔ ان سب امیدواروں کے پیسے بھی خرچ ہوئے‘ حکومت کے اخراجات ہوئے۔ مختلف محکموں کو بھی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور پورے ملک کو ایک ہسٹریائی کیفیت میں مبتلا کردیا گیا۔ ان نشستوں پر بیشتر ایسے امیدوار تھے جو ان پر دوسری دفعہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ یوں ان کے اخراجات دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئے۔ ووٹرز بھی اس دن گھروں سے کم ہی نکلتے ہیں۔ سو کم ٹرن آئوٹ کے ساتھ الیکشن کے نتائج سامنے آتے ہیں، حکومتی پارٹی پر الزامات لگتے ہیں کہ وہ سرکاری مشینری استعمال کررہی ہے اور بعد میں بھی عدالتی کارروائی چلتی رہتی ہے۔ ہم اس نام نہاد جمہوری عمل سے بچ سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن والوں کو اپنی مصروفیات سے فرصت ملے اور وہ ملک اور قوم کے لیے بھی کچھ وقت نکال سکیں تو ایسا قانون بنائیں جس کی رو سے ایک امیدوار کو ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ جرأت مندانہ کام کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی طرف سے دبائو اور مخالفت کا سامنا تو کرنا پڑسکتا ہے لیکن ملک کے لیے اور قوم کی خاطر اگر اس ممکنہ دبائو اور مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ بڑا کام کرایا جائے تو الیکشن کمیشن اپنے دامن پر لگے ہوئے داغ دھونے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ شمع جلادی ہے کہ یہی ہمارا کام ہے۔