امریکہ میں مقیم عام پاکستانیوں کے لیے یہ خبر دکھ کا باعث بنی ہے کہ ان کے وزیراعظم امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری سے ملنے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں واقع ان کے دفتر میں چل کر گئے۔ ان کے خیال میں وزیر خارجہ کو وزیراعظم سے ملنے کے لیے خود چل کر آنا چاہیے تھا۔ ان کو یہ بات بھی توہین آمیز لگی ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا امریکہ آمد پر استقبال وزارتِ خارجہ کے قائم مقام چیف آف پروٹوکول نے کیا ہے۔ ان کی رائے میں وزیراعظم کا استقبال کم از کم وزیر خارجہ کی سطح پر ہونا چاہیے تھا۔ انہیں کیا معلوم کہ اپنی عزت اور وقار کے ساتھ یہ سب کچھ ہم نے خود کیا ہے۔ مانگنے والوں کی کبھی عزت نہیں کی جاتی۔ شاید یہی احساسِ زیاں تھا جو پاکستانی کمیونٹی کے استقبالیے میں خطاب کے دوران وزیراعظم کے لبوں پر لفظوں کے نئے پیراہن لیے موجود تھا۔ انہوں نے پاکستانیوں کے سامنے دل کھول کر باتیں کیں اور کہا کہ جب ہم نے اپنی عزت خود نہیں کی تو دوسرے کیسے کریں گے۔ ہم مانگنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ نوازشریف سے ملاقات کے دوران خود جان کیری نے پوچھ لیا کہ ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے ہیں تو نوازشریف نے انہیں کہا کہ ہم ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں۔ اس پورے دورے کے دوران نوازشریف کی ٹیم کی زیادہ تر توجہ بزنس اور سرمایہ کاری پر ہے۔ انہوں نے پاکستان امریکہ بزنس کونسل کے اجلاس اور پاکستانی کمیونٹی کے اجلاس میں امریکی سرمایہ کاروں سے بار بار درخواست کی کہ وہ آگے آئیں اور اپنے ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ ابھی تک وزیراعظم کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور کسی مرکزی سطح کی بریفنگ کا اہتمام نہیں کیا گیا جس سے مزید کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے۔ ہر اخبار اور ٹی وی چینل اپنی اپنی مرضی اور پسند کی خبر جاری کر رہا ہے‘ وضاحت کر رہا ہے۔ یہ دانشمندانہ پالیسی نہیں ہے۔ وزیراعظم کی میڈیا ٹیم کو چاہیے کہ وہ اس پالیسی پر نظرثانی کرے اور ایک Unified پالیسی مرتب کی جائے تاکہ اہم ایشوز پر متفقہ فیصلہ سامنے آ سکے۔ اس پالیسی سے جہاں ملک کو اندرونی سطح پر نقصان پہنچ رہا ہے وہاں بیرون ملک پاکستان کے خلاف کیے جانے والے پراپیگنڈہ کا جواب دینے والا بھی کوئی نہیں۔ وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکہ نے 1.6 ملین ڈالر کی جو امداد دینے کا اعلان کیا ہے اس پر بھارتی لابی اور صحافی بہت پریشان ہیں اور مسلسل پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرر ہے ہیں۔ Chidanand Rajghatta بھارت کا ایک سینئر صحافی ہے۔ اس نے ٹائمز آف انڈیا میں زہر آلود آرٹیکل لکھا ہے۔ اس کا کہناہے کہ ایک غیر مستحکم اور نیوکلیائی ہتھیار بنانے والے ملک کو امریکہ ایک مرتبہ پھر امداد دے رہا ہے حالانکہ اس ملک کے سیاستدان‘ حکمران اور دیگر طاقتور افراد ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے 60 فی صد سیاستدان اور پارلیمنٹیرین ٹیکس نہیں دے رہے۔ بھارتی صحافی نے جان کیری پر بھی شدید تنقید کی ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس نے کیری لوگر بل منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کی بیشتر شرائط مان چکا ہے جن میں ڈاکٹر اے کیو خان تک رسائی دینا بھی شامل ہے۔ بھارتی صحافی نے نیویارک ٹائمز پر بھی الزام لگایا ہے کہ وہ پوری طرح پاکستان کے سفیر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس مضمون کا مؤثر جواب دینے والا کوئی نہیں۔ یہاں کے اخبارات میں بھی بھارتی صحافی بہت کچھ لکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے اردگرد موجود لوگ ان کے دورے کو بہت پُراسرار بنا رہے ہیں تاکہ میڈیا سے گفتگو نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک میڈیا کے نمائندوں کی وزیراعظم کے ساتھ براہِ راست میٹنگ کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت صورتِ حال بہت دلچسپ موڑ اختیار کر گئی جب وزیراعظم پاکستانی کمیونٹی کے اجلاس میں صدر اوباما کو صدر کلنٹن کہہ گئے ا ور پھر انہیں احساس تک نہ ہوا کہ وہ غلطی سے کیا کہہ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ کئی وجوہ کی بنا پر وزیراعظم نوازشریف کو سابق صدر کلنٹن اکثر یاد رہتے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانہ اس دورے کے دوران میڈیا کے نمائندوں کے لیے خاطر خواہ سہولیات فراہم نہیں کر سکا۔ اس نے ہلٹن میں ایک میڈیا سنٹر تو بنا لیا تھا لیکن وہاں ضروری سہولتیں فراہم نہیں کی جا سکیں۔ جس سے بھی کوئی بات پوچھی جاتی اسے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا‘ وہ جواب دینے کی بجائے کسی ایسے شخص کا حوالہ دیتا جو وہاں اس وقت موجود نہیں ہوتا تھا۔ ان کی بدحواسی کا یہ عالم تھا کہ ایوان صدر کے افسران کے نمبر تقسیم کرتے وقت بہت بڑا گھپلا کیا گیا۔ اس فہرست کے مطابق سب سے پہلے سلمان فاروقی کو سیکرٹری ٹو آصف علی زرداری‘ آصف درانی کو ایڈیشنل ایس پی اور بریگیڈئر عدنان کو ملٹری سیکرٹری ٹو صدر دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے ان تینوں اصحاب کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی اور لوگوں کو غلط معلومات فراہم کیں۔ نوازشریف کی پاکستان امریکہ بزنس کونسل کے اجلاس میں کی جانے والی تقریر میں چند فقرے انہوں نے انگریزی میں اپنی طرف سے بھی ڈالے تو ایک صحافی نے ان کی انگریزی کی تعریف کی۔ اس پر پاس کھڑے ہوئے سینئر صحافی نے کہا کہ ان کی انگریزی کیسے بہتر نہ ہوتی؟ واشنگٹن سے لاہور جانے والے صاحب نے ا ن کی مدد جو کی ہے۔