اتوار کی چھٹی ختم کریں

اسلام آباد کے بڑے افسروں کی عرصہ سے خواہش تھی کہ کام تو جیسے تیسے ہوتا ہی رہے گا، آرام کا وقت بڑھانا چاہیے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہفتہ میں ایک نہیں دو چھٹیاں ہوا کریں۔ اس طرح انھیں صرف پانچ دن دفتر آنا پڑے گا۔ مشکل یہ تھی کہ کوئی حکمران، سیاسی ہو یا غیرسیاسی، ان کی باتوں میں نہ آتا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ترقی پذیر ملک میں کام کی ضرورت کہیں زیادہ ہے ۔ میاں نواز شریف نے تو پچھلے دور میں بطور وزیر اعظم سرکاری تعطیلات بھی کم کر دی تھیں، جن میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کی برسیاں (21اپریل‘ 11 ستمبر اور یوم دفاع 6 ستمبر) شامل تھیں۔ تاہم افسروں نے ہمت نہیں ہاری۔ جب بجلی کا بحران بڑھا اور بچت کرنے کے لیے بہت سی تجاویز سامنے آئیں تو ان میں ہفتہ میں ایک اور چھٹی کی تجویز بھی شامل کرا لی گئی۔ تجویز تو گرمیوں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کی بھی تھی لیکن قومی اسمبلی کے ارکان کو اس کا فائدہ نظر نہ آیا۔ چنانچہ انھوں نے شور مچا کر اسے رد کرا دیا۔ گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ دن کا آغاز جلدی ہوتا۔ پھر دفتروں، اداروں اور کاروبار کے اوقات سارا سال نو بجے سے شروع ہوتے ، جیسے سردیوں میں ہوتے ہیں۔ اس طرح گرمیوں میں بعض جگہوں پر وقت بدلنے اور بعض جگہ نہ بدلنے سے عام لوگوں کو پریشانی نہ ہوتی۔ بہرحال، جب تک ارکان اسمبلی زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے ، گرمیوں میں گھڑیاں آگے نہیں کی جا سکتیں۔ ہاں، کوئی حکمران خود ہی حکم دے دے تو اور بات ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کسی فیصلہ کے لیے زیادہ سوچ بچار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی وسیع مشاورت کو ضروری سمجھتے۔ انھیں یہ کہہ کر چکر دیا گیا کہ مزید ایک چھٹی کرنے سے بجلی کی بچت ہوگی۔ ظاہر ہے انھیں قائل کرنے کے لیے خاصی بچت دکھانا ضروری تھی۔ مرکزی حکومت کے دفتروں سے تو زیادہ بچت ممکن نہ تھی۔ اس لیے کافی جواز پیدا کرنے کے لیے ملک بھر کے سکول، کالج، بینک، ڈاک خانوں کے ساتھ صوبائی حکومتوں کے دفاتر اور اداروں کو بھی ملا لیا گیا۔ پھر بھی زیادہ سے زیادہ ایک سو میگاواٹ کی بچت کا دعوی کیا جا سکا، وہ بھی مہینہ میں صرف چار دن۔ جہاں ہر روز بجلی کی کمی ہزاروں میگاواٹ تھی، وہاں اتنی کم بچت کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن گیلانی صاحب نے پیپلز پارٹی کی ہر ایک سے \\\"مفاہمت\\\" کی پالیسی کے تحت افسروں کو خوش کرنے کے لیے ہفتہ میں ایک اور چھٹی کا اعلان کر دیا۔ صوبوں نے مزاحمت کی لیکن وہاں بھی افسروں کے بھائی بند وزرائے اعلیٰ کو ڈھب پر لے آئے ۔ صرف پنجاب رہ گیا جہاں دال نہ گلی۔ یہاں بھی قسمت نے یاوری کی اور نگران حکومت نے پنجاب میں بھی ہفتہ کی چھٹی کا اعلان کردیا۔ اب سارے ملک میں ہفتہ میں دو چھٹیاں ہونے لگی ہیں۔ جمعہ کی آدھی چھٹی ختم کر کے نماز کا وقفہ رکھ دیا گیا۔ لیکن ظاہر ہے نماز کے لیے جانے والے تھوڑی دیر کے لیے کام پر واپس نہیں آتے ۔ یوں عملی طور پر آدھی چھٹی برقرار رہی اور ہفتہ و اتوار ملا کر ویک اینڈ ڈھائی دن کا ہو گیا، جبکہ امیر ترین ملکوں میں بھی یہ دو دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ چھٹی پسند افسروں نے احساس نہیں کیا کہ بجلی کے بغیر بھی بہت سی جگہوں پر کام ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے ۔ مثلا، ہزاروں سکولوں میں بجلی ہے ہی نہیں لیکن وہاں پڑھائی ہوتی ہے ۔ پھر بہت سی جگہوں پر دن کی روشنی اتنی ہوتی ہے کہ بتی جلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ایک اور مشکل بھی ہے ۔ ہمارے قانون کے مطابق ہفتہ میں 48 گھنٹے کام لیا جاتا ہے ۔ جب اسے پانچ دنوں پر تقسیم کیا جائے گا تو ہر روز زیادہ دیر کام کرنا ہوگا۔ اس طرح تھکاوٹ بھی زیادہ ہوگی اور ذاتی کاموں کے لیے وقت بھی کم ملے گا۔ (زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں، جہاں دو چھٹیاں ہوتی ہیں، وہاں ہفتہ میں 40 گھنٹے کام ہوتا ہے ، یعنی پانچ دنوں میں آٹھ گھنٹے روزانہ) ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہو گیا۔ صدر ایوب خاں کے دور میں دفتروں میں اوقات کار کم کر دیئے گئے تاکہ ملازموں کو ذاتی کاموں اور کنبہ کے ساتھ گزارنے کے لیے زیادہ وقت ملے ۔ بہت سے چھوٹے ملازموں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کو جزوقتی ملازمت اختیار کر لی۔ دو چھٹیوں کی وجہ سے ان کے روزانہ کے اوقات کار بڑھ گئے ، جس سے جزوقتی کام کرنا مشکل ہو گیا۔ یوں بہت سے گھرانے ، جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے ، اضافی آمدنی سے محروم ہو گئے ۔ دو چھٹیوں سے پہلے بھی صورت حال بڑی مضحکہ خیز تھی۔ اتوار کو پوری چھٹی اور جمعہ کو آدھی ہوتی تھی۔ دونوں کے درمیان کام کا پورا دن ہوتا۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہم دنیا میں واحد ملک تھے ، جہاں ویک اینڈ دو ٹکڑوں میں ہوتا۔ بڑے شہروں سے باہر نکلیں تو بیشتر قصبات کی دکانیں، بازار اور کاروبار جمعہ کو بند ہوتے ہیں۔ جب ہفتہ اور اتوار کی چھٹیاں ہو گئیں تو کاروباری لوگ تین دن تک بینک میں نہ کیش جمع کرا سکتے اور نہ چیک کیش کرا سکتے ۔ یہی نہیں، جب دو چھٹیاں شروع ہوئیں تو عیدین وغیرہ پر ویک اینڈ ملا کر بینک چار چار دن بند ہونے لگے ۔ اس سے عام لوگوں اور خاص طور پر کاروبار کرنے والوں کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جمعہ کو آدھی چھٹی بدستور رہے ۔ اس کے ساتھ ہفتہ وار چھٹی اتوار کی بجائے ہفتہ کو ہو۔ اس طرح اوقات کار کم کیے بغیر ڈیڑھ دن کا ویک اینڈ بن جائے گا۔ ویک اینڈ منانے والوں کو بھی سہولت ہوگی اورجمعہ کی نماز پڑھنے والوں کو بھی۔ جمعہ کی نماز میں حاضری زیادہ ہوا کرے گی۔ جن دنوں جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی، مشاہدہ کیا گیا کہ نماز پڑھنے والے آدھی چھٹی کی نسبت کم تعداد میں آتے تھے ۔غلامانہ روایت کے پیروکار اصرار کریں گے کہ چھٹی اتوار ہی کو ہونی چاہیے۔ آخر کیوں؟ انگریزوں نے تو گرجا جانا ہوتا تھا۔ آپ نے اتوار کو ایسا کون سا کام کرنا ہوتا ہے جو ہفتہ کو نہیں کر سکتے ؟ پھر جن بڑے ملکوں سے کاروباری تعلقات ہیں، وہاں تو پہلے ہی ہفتہ اور اتوار دونوں دن چھٹی ہوتی ہے ۔ ان سے لین دین میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ پھر ہمارے ہاں جمعہ کو آدھا دن کام بھی ہوا کرے گا۔ رہی یکسانیت کی بات، تو تقریباً سبھی مسلم ملکوں میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے ۔ ان سے یکسانیت کیوں نہ کی جائے؟ امید ہے کہ وزیراعظم نواز شریف آتے ہی جو کام کریں گے ، ان میں موجودہ دو چھٹیاں ختم کرنا بھی ہوگا۔ ساتھ ہی ہفتہ کو پوری اور جمعہ کو آدھی چھٹی کا بھی اعلان کر دیں گے۔ اس طرح ہم کام زیادہ اور آرام کم کریں گے ۔ غلامانہ روایت کے پیروکار اصرار کریں گے کہ چھٹی اتوار ہی کو ہونی چاہیے۔ آخر کیوں؟ انگریزوں نے تو گرجا جانا ہوتا تھا۔ انہوںنے اتوار کو ایسا کون سا کام کرنا ہوتا ہے جو ہفتہ کو نہیں کر سکتے ؟ پھر جن بڑے ملکوں سے کاروباری تعلقات ہیں، وہاں تو پہلے ہی ہفتہ اور اتوار دونوں دن چھٹی ہوتی ہے۔ ان سے لین دین میں کوئی فرق نہیں پڑے گا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں