پلیناریہ(Planaria) ایک قسم کا کیڑا ہوتا ہے ، جس کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں تو ہر ٹکڑا جلد ہی مکمل شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ پھر ان دو کے دو دو ٹکڑے کر دیے جائیں تو وہ بھی مکمل شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی صورت صوبوں کی ہے ۔ پہلے ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کا مطالبہ ہوا۔ پھر بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے صوبوں کی بات ہونے لگی۔ اس کے بعد پوٹھوہار صوبہ کے قیام کی قرارداد منظور کرانے کے لیے اسمبلی میں پیش کی گئی۔ پنجاب میں نئے صوبے بنائے گئے تو پھر باقی صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ ہوگا۔متحدہ قومی موومنٹ کراچی اور حیدرآباد پر مشتمل نیا صوبہ چاہتی ہے ۔ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کا مطالبہ تو پہلے سے ہی ہو رہا ہے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ ہر ضلع کو صوبہ قرار دینے کا مطالبہ ہو۔ تو کیوں نہ ایک ہی مرحلہ میں صوبوں کو ختم کر کے سیدھے ضلعوں تک چلے جائیں؟ فوراً اعتراض ہوگا کہ ایک بار پہلے بھی اکتوبر 1955ء میں صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا تھا۔ اس سے لوگوں کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ انہیں ہر مسئلہ کے حل کے لیے بہت دور صوبائی دار الحکومت جانا پڑتا تھا ؛ چنانچہ یحییٰ خاں نے 1970ء میں صوبے بحال کر دئیے (گو اصل وجہ سیاسی معاملات پر اتفاق رائے روکنا تھا)۔ چلیں، صوبوں کی بحالی سے ون یونٹ سے پیدا ہونے والے مسائل ختم ہو گئے ۔ اب کیا ہوا کہ پرانے صوبوں پر گزارا کرنا مشکل ہو گیا؟ اصل مسئلہ حکومت کو عوام کے قریب تر لانے کا ہے ، تاکہ مسائل آسانی سے حل ہو سکیں۔ یہ کام صوبے ختم کرنے سے بڑی اچھی طرح ہو جائے گا۔ موجودہ صوبے غلامی کے دور میں بنائے گئے ۔ کسی کی بنیاد لسانی، نسلی، ثقافتی وغیرہ نہ تھی۔ انگریزوں کی صرف انتظامی ضروریات تھیں۔ چنانچہ سارے اختیارات صوبوں کو دے دیے گئے ، جن کے سربراہ ہمیشہ بااختیار انگریز ہوتے ۔ اضلاع میں ڈپٹی کمشنر صوبائی اور مرکزی حکومت کے احکامات کی تعمیل کراتے تھے ۔ ضلع کی پولیس اس کے ماتحت ہوتی تھی۔ عوام صرف رعایا تھے۔ ضلع سے نیچے پنچائتیں تھیں۔ 1912ء، 1926 ء اور 1939 ء میں پنجاب میں پنچائتیں بنانے کے لیے قانون نافذ کیے گئے ۔ ان کے تمام ارکان ڈپٹی کمشنر نامزد کرتا تھا۔ پھر بھی 1952 ء تک صرف ایک تہائی اضلاع میں پنچائتیں بنائی جا سکیں۔ آزادی کے بعد مقامی سطح پر جو نظام بنائے گئے وہ بڑی حد تک غیرموثر تھے ، کیونکہ انہیں ایک طرف اختیارات نہ دئیے گئے اور دوسری طرف افسرشاہی کا ان پر غلبہ رہا۔ ایوب خاں نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا۔ ضیاء الحق نے 1979 ء میں اس میں بہت سی ترامیم کیں۔ ہمارے بیشتر سیاست کاروں اور افسروں کو یہی نظام پسند ہے کیونکہ اصل اختیارات ان کے اپنے ہاتھ میں رہیں گے۔ 2001ء میں نافذ ہونے والے مقامی حکومتوں کے نظام میں اضلاع کو اتنے سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات دے دیے گئے کہ صوبوں کے کرنے کو صرف پالیسی سازی رہ گئی۔ دوسری طرف، آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اتنے اختیارات دے دیے گئے ، جنہیں وہ استعمال ہی نہیں کر پا رہے ۔ اگر پالیسی سازی کے اختیارات واپس مرکز کے پاس چلے جائیں اور2001 ء کا مقامی حکومتوں کا نظام پوری طرح اور اصل شکل میں بحال ہو جائے تو صوبوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور عوام کے مسائل بھی آسانی سے حل ہوں گے ۔ صوبے مرکز سے ملنے والی رقوم سے کام چلاتے ہیں۔ بعض کی اپنی ٹیکس آمدنی 10 فی صد سے بھی کم ہوتی ہے ، جیسا کہ ذیل میں دیے گئے چارٹ سے ظاہر ہوتا ہے : 2002ء میں صوبوں کی آمدنی، بلین روپوں میں پنجاب: کل آمدنی اپنی ٹیکس آمدنی % غیرٹیکس آمدنی 436.5 36.8 8.4 76.2 سندھ: 240.5 22.1 9.2 93.2 خیبرپختونخوا: 133.4 3.5 2.6 53.7 بلوچستان: 44.8 1.1 2.5 1.3 اگر صوبوں نے قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت مرکز سے ملنے والی رقوم ہی خرچ کرنی ہیں تو یہ کام ضلع حکومتیں کہیں بہتر طور پر کر سکتی ہیں۔ ان کے منتخب نمائندں کو اپنی ضرورتوں کا علم صوبائی صدر مقام میں بیٹھے افسروں سے کہیں زیادہ ہوگا۔ مرکزی حکومت طے شدہ فارمولا کے تحت اضلاع کو براہ راست رقوم دے دے ۔ جن منصوبوں کا تعلق دو یا اس سے زیادہ اضلاع سے ہو (جیسے بڑی سڑک، چھوٹا ڈیم، نہروں کا نظام)، وہ یا تو متعلق ضلع ناظمین یا ضلع کونسلیں اتفاق رائے سے بنا سکتے ہیں یا مرکزی حکومت کر سکتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے نفاذ کے بعد صوبوں کے پاس صرف پالیسی سازی رہ گئی۔ یہ کام مرکزی حکومت سارے ملک میں یکساں اور کہیں بہتر طور پر کر سکتی ہے ۔ صوبے مختلف اور متضاد پالیسیاں بناتے ہیں۔ مثلاً، یکساں ٹرانسپورٹ پالیسی اور موٹرگاڑیوں کی رجسٹریشن کا ایک نظام نہ ہونے سے ٹرانسپورٹروں کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ صوبے ختم ہونے سے پالیسی معاملات مرکزی حکومت کے اور دوسرے تمام معاملات ضلع حکومتوں کے سپرد کر دیے جائیں۔ عمل کیسے ہوگا؟ یونین ناظم بلحاظ عہدہ پارلیمنٹ کا رکن ہوگا اور ضلع کونسل کا بھی؛ چنانچہ وہ پارلیمنٹ اور ضلع کونسل دونوں کی کارروائی میں حصہ لیا کرے گا۔ سیاست کار تو کبھی صوبے ختم کرنے پر رضامند نہیں ہوں گے ۔ چنانچہ، غیرمعمولی طریقہ اپنانا ہوگا۔ پہلے آئین میں ضروری ترمیموں کے اوردوسرے قوانین کے مسودات تیار کیے جائیں۔ پھر ایک دن آرمی چیف ہنگامی حالت نافذ کر کے آئینی ترمیموں اور دوسرے قوانین کو نافذ کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد ہنگامی حالت ختم کر دی جائے ۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کارروائی کی توثیق کر دے ۔ جونہی مرکزی قانون کے تحت مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں اور منتخب عہدیدار حلف اٹھا لیں تو صوبے ختم ہو جائیں گے ۔ نئی پارلیمنٹ قوانین اور آئین میں ترامیم منظور کرے۔ جب یونین ناظم بلحاظ عہدہ قومی اسمبلی کے ارکان بن جائیں گے تو نیا سیاسی نظام وجود میں آ جائے گا۔ اس کے تحت ہر ضلع کی بھرپور ترقی ہوگی اور صوبائیت کے پیدا کیے ہوئے مسائل اور علاقائی کشیدگیاں ختم ہو جائیں گی۔