ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ماحولیاتی اعداد و شمار پر عوام کا استحقاق …(1)

تحریر: جسٹن مینکن

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جو تباہی اور آفات آتی ہیں اور ان کے دنیا بھر میں معیشت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جو انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے‘ ایک کلائمیٹ سائنس دان کے طور پر میں ان کھربوں ڈالرز کے پرائس ٹیگ کے ریکارڈ کو دستاویز ی شکل دیتا ہوں۔ کئی مرتبہ مجھے تزویراتی کنسلٹنٹس اور فنانشل انویسٹمنٹ تجزیہ کاروں کی طرف سے درخواستیں موصول ہوتی ہیں جو کلائمیٹ ڈیٹا، تجزیوں اور کمپیوٹر کوڈز کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ میری ریسرچ کے نتائج کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا یہ جاننے کے خواہاں ہوتے ہیںکہ ان نتائج کے ان کے بزنس پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا کے سب سے بڑے ایسیٹ منیجر بلیک راک کے تجزیہ کار نے مجھ سے کہا کہ میں اس بات پر ریسرچ میں ان کی مدد کروں کہ موجودہ سائیکلون کلائمیٹ پیٹرن ایل نینو کے فنانشل مارکیٹ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس طرح کی درخواست دانشمندانہ ہوتی ہے۔ جو لوگ اور کمپنیاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمیاتی خطرات کا سامنا کرتے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ وہ انہی خطرات کے تناظر میں خود کو ڈھال سکیں۔ ان انکوائریز کا زیادہ تر تعلق کلائمیٹ سائنس کے موضوعات سے متعلق ہوتا ہے۔ بڑے سرمایہ کار کروڑوں ڈالرز کلائمیٹ انٹیلی جنس میں لگا رہے ہیں کیونکہ وہ آگے چل کر روز افزوں ترقی کرنے والا کلائمیٹ اینالیٹکس کا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں جس میں ڈیٹا، رسک ماڈلز، تجزیے اور ایسی بصیرت شامل ہے جس کی ان لوگوں اور اداروں کو اشد ضرورت ہے جو کلائمیٹ کی وجہ سے سامنے آنے والے خطرات کو سمجھنا اور ان کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ میںڈارٹمائوتھ کلائمیٹ ماڈلنگ اینڈ امپیکٹس گروپ کو چلاتا ہوں اور ان کمپنیوں کو اپنے اس گروپ پر فری دستیاب ڈیٹا اور کوڈ کی طرف ریفر کر دیتا ہوں لیکن جو درخواستیں محض کاروباری اسیسمنٹس کے لیے ہوتی ہیں انہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ میں کلائمیٹ سے متعلق انفارمیشن کو عوام کی بھلائی اور ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے ممکنہ خدشات کے تناظر میں سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ایسی دنیا سے متعلق ہوتے ہیں جس میں یہ انفارمیشن قحط سالی، سیلابوں، جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات، شدید گرمی کی لہر وں اور سمندری پانی کا لیول بلند ہونے سے متعلق خطرات کے بارے میں وقت سے پہلے بتانا ممکن بناتی ہے۔ جو کمپنیاں اور لوگ نجی طور پر ان خطرات کا تعین کرانے کی استعداد رکھتے ہیں وہ کسی محفوظ مقام پر اپنے گھر اور بزنس شفٹ کرنے کے لیے اپنے دفاتر اور گھر تعمیر کر لیتے ہیں یا کرائے پر لے لیتے ہیں جبکہ اربوں لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ سرمایہ کار پے درپے ہونے والے نقصانات کے اجتماعی نتائج کو وقت سے پہلے سمجھ جاتے ہیںاور جو ایسا نہیں کر سکتے انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان تمام باتوںکے باوجود گلوبل کنسلٹنٹس، ماحولیات اور زراعت کی ٹیکنالوجی کے سٹارٹ اپس، انشورنس کمپنیاں اور مالیاتی فرمیں’ سب اس انفارمیشن کے بڑھتے ہوئے مطالبے کو پورا کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی تیاری کیسے کی جائے؟ اس وقت جبکہ اس انفارمیشن کا بڑا حصہ عوام کے سامنے آ چکا ہے لیکن یہ انفارمیشن اس قدر بھاری بھر کم ہے کہ یہ زیادہ تر تکنیکی نوعیت کی ہوتی ہے اور خاص طور پر یہ ان لوگوں کے لیے اتنی مفید بھی نہیں ہوتی جو یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں ذاتی طور پر ان موسمیاتی تبدیلیوں سے کتنا خطرہ ہو سکتا ہے۔ نجی سطح پر ان خطرات کا تعین اس خلا کو پورا کر سکتا ہے لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اور یہ عوام کے لیے بہت مہنگا ہوتا ہے۔

کلائمیٹ رسک اینالیٹکس مارکیٹ کے حوالے سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ 2027ء تک عالمی طور پر چار ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں آپ سے یہ کہوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق انفارمیشن کی فراہمی میں نجی شعبے کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات حقیقت پسندی پر مبنی نہیں ہو گی؛ تاہم مجھے ایک بات کی تشویش ضرور لاحق ہے وہ یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی تباہی اور آفات کے بارے میں انفارمیشن کی فراہمی میں نجی شعبے پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے سے سرکاری سطح پر مہیا کی گئی کلائمیٹ رسک سائنس بری طرح کھوکھلی ثابت ہو گی اور اس کا نتیجہ صرف اسی صورت میں نکلے گا کہ ہم سب کو اس کی قیمت چکا نا پڑے گی۔ امیروں کو مالی طور پر اور غریبوں کو جانوں کی قربانی دے کر۔

انفارمیشن کی نجی کاری سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں‘ انہیں سی این بی سی پر 2018ء میں جوئل مائرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں پیش کیا گیا تھا۔ جوئل مائرز Accu Weather کے بانی ہیں جو سرکاری سطح پر بھی موسم کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں اور اپنے ایسے کسٹمرز کو بھی موسم کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہیں جو انہیں باقاعدہ رقوم کی ادائیگی کرکے یہ انفارمیشن حاصل کرتے ہیں۔ اس انٹرویو میں جوئل مائرز نے اپنے ایک گاہک ریل روڈ کمپنی ’’یونین پیسیفک‘‘ کی سٹوری سنائی جو AccuWeather کی گاہک تھی اور ڈالرز دے کر موسم کے حالات کے حوالے سے معلومات حاصل کرتی تھی۔ ’’ہم نے انہیں وقت سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایک ٹارنیڈو ایک خاص مقام کی طرف جا رہا ہے؛ چنانچہ دو ٹرینیں دو مختلف مقامات پر روک دی گئیں اور ان کے درمیان دو میل کا فاصلہ تھا۔ ان ٹرینوں کے ڈرائیوروں نے دیکھا کہ ٹارنیڈو ان دونوں کے درمیان میں سے گزر گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ ٹارنیڈو ایک ایسے قصبے کی طرف چلا گیا جس نے ہماری سروسز حاصل نہیں کی ہوئی تھیں؛ چنانچہ دو درجن سے زائد افراد اس ٹارنیڈو کی زد میں آکر اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ لیکن چونکہ ٹرین والوں نے ہم سے موسم کے حوالے سے پیشگی معلومات حاصل کر لی تھیں‘ اس لیے ریلوے کو کسی قسم کا نقصان برداشت نہیں کرنا پڑا‘‘۔

ڈاکٹر جوئل مائرز نے اپنا کام جاری رکھا جس کے دوران انہوں نے یہ بات نوٹ کی کہ AccuWeather عوام کو کوئی ایسی موسمیاتی انفارمیشن فراہم نہیں کرتا جسے ایڈورٹائزنگ کی سپورٹ حاصل ہو۔ لیکن ان کے اس بیان پر غور کریں تو یہ بات پریشان کن نظر آتی ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات کی وجہ سے انسانی جانوں کا بھاری نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے کہ گلوبل وارمنگ انسانیت کا ایک اجتماعی المیہ ہے اور اسی لیے اس کے جتنے بھی ممکنہ حل ہو سکتے ہیں‘ خاص طور پر درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں انسانیت کو جو خطرات درپیش ہوتے ہیں‘ ان سے متعلق انفارمیشن سے عوام کو لازمی کوئی فائدہ ہونا چاہئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک کی حکومتوں کو خود ایک قدم آگے آنا چاہئے۔ عوام کا یہ بنیادی حق ہے کہ سائنس کی ہر برانچ تک ان کی رسائی ہو۔ کلائمیٹ سائنس سے متعلق کمیونٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرکاری سطح پر دستیاب ہونے والا اس کا کوئی ایسا متبادل تیار کریں کہ عوام کو کلائمیٹ سے متعلق کوئی بھی انفارمیشن لینے کے لیے جیب سے کوئی پیسہ نہ دینا پڑے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ غیر منصفانہ اور خطرناک بات ہو گی۔ (جاری) 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں