پی ٹی آئی انٹر پارٹی الیکشن، نظر ثانی درخواست خارج: ہمیں کسی ترمیم کا معلوم نہیں: چیف جسٹس

پی ٹی آئی انٹر پارٹی الیکشن، نظر ثانی درخواست خارج: ہمیں کسی ترمیم کا معلوم نہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد(دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق نظر ثانی کی درخواست خارج کر دی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کی، تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے نظرِ ثانی درخواست کیلئے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی اورکہا کیس لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے کمیٹی کو بھیجا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی زیر التوا ہے، یہ نظرثانی کا معاملہ ہے ہم نے قانون کو دیکھنا ہے ،نظرثانی درخواست میں عدالتی فیصلوں قانونی حیثیت پر سوالات اٹھانے ہوتے ہیں،آپ نے اس پوائنٹ کو پہلے کیوں نہیں اٹھایا، آپ کیس کو چلا لیں اس پر حامد خان نے کہا کہ عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیراگراف دیکھ لے ۔ چیف جسٹس نے کہا وہ فیصلہ ہم کیوں دیکھیں؟ یہ اور معاملہ ہے وہ الگ معاملہ ہے ، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے کہا میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی پر بات کرنے کے بجائے منہ پر بات کرنے والے کو میں پسند کرتا ہوں۔ حامد خان نے کہا میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو مجبور نہیں کرسکتا،حامد خان نے کہا ہم نے لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے درخواست دی ہوئی ہے، چیف جسٹس نے کہا نظرثانی میں لارجر بینچ کیسے بنا سکتے ہیں؟ ایڈووکیٹ حامد خان نے مخصوص نشستوں سے متعلق 8 ججز کے اکثریتی فیصلے کا حوالہ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس فیصلے کی مثال دے رہے ہیں اس کی نظرثانی زیر التوا ہے ، ہم اس کیس پر رائے نہیں دیں گے جس کی نظرثانی زیر التوا ہے ، 13 جنوری کو فیصلہ دیا گیا، 16 فروری کو نظرثانی دائر کی گئی 13 جنوری سے لے کر 16 فروری تک فیصلے کو تسلیم کیا گیا، ہم بعد کے واقعات کو نہیں دیکھیں گے ، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ نے ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ایسا کیا کہ آپ کہہ سکیں ہم سے بلا چھینا گیا، جب بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے اس وقت بھی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے ۔

حامد خان نے کہا میں آپ کے سامنے دلائل ہی نہیں دینا چاہتا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا ہم یہاں گپ شپ کیلئے بیٹھے ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاالیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو کسی نے چیلنج نہیں کیا، آرٹیکل 17 کا جائزہ تنہا نہیں لیا جاسکتا، اگر کیس کو اختلاف تھا تو سیکشن 215 کو چیلنج کر لیتے ۔چیف جسٹس نے کہا ایک بڑے مشہور وکیل ہیں جن کی میں بڑی قدر کرتا ہوں، ان کے دلائل عدالتی فیصلے کا حصہ ہیں، یہ دلائل ایڈووکیٹ حامد خان صاحب نے 2012 میں ایک کیس میں دیئے تھے ۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق آئین بہت شفاف ہے ، اتنا شفاف آئین کسی اور سیاسی جماعت کا نہیں ہے ، چیف جسٹس نے کہا میں بھی اس معاملے پر معترف ہوں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پوری عدالتی کارروائی یوٹیوب پر موجود ہے ، دیکھا جاسکتا ہے ، آپ کو چاہیے دیگر سیاسی جماعتوں کی طرز پر اپنا آئین تبدیل کر لیں ،حامد خان نے کہا ہمارا عدالتی بینچ پر تعصب کا اعتراض ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ بات درخواست میں نہیں لکھی، ہم زبانی بات تسلیم نہیں کریں گے ، عدالت کو سیاست سے دور رکھیں، آپ کی اپنی بھی سیاسی وابستگی ہے ، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہم کیوں متعصب ہیں یہ ہمیں معلوم ہی نہیں، وجہ تو بتائیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئینی ترمیم ہو چکی ہے اس لیے سپریم کورٹ اب یہ کیس نہ سنے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے ترمیم ابھی نہیں دیکھی اور ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں معلوم، عدالت نے فریقین کے وکلا کو ایک اور موقع دیا لیکن کیس پر دلائل نہیں دیئے گئے ، ہمارے 13 جنوری کے فیصلے میں کوئی غلطی ثابت نہیں کی جا سکی لہٰذا نظرثانی درخواست خارج کی جاتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں