اللہ تعالیٰ کی عطا کا جس نے نظارہ کرنا ہو‘ بن مانگے ربِ کریم کا کرم دیکھنا ہو تو وہ پاکستان کی حالیہ تاریخ دیکھ لے۔ وطن عزیز کے اقتدار کی چابیاں جن کے ہاتھ میں تھیں وہ حافظ سید عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں بنانا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہی کو آرمی چیف بنوایا۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے فارغ کرنے کا پروگرام وقت کے اہلِ اقتدار نے شروع کروا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ اس کا یہ بندہ سپریم کورٹ کا چیف بن کر رہے گا‘ چنانچہ کائنات کے خالق نے حالات کو ایسا بدلا کہ حضرت قائداعظم کے ساتھی قاضی عیسیٰ مرحوم کا بیٹا فائز عیسیٰ‘ فائز یعنی کامیاب ہو کر چیف جسٹس آف پاکستان کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ لگ بھگ تیرہ ماہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر متمکن رہے۔ اہلِ اقتدار ان کی منت سماجت کر رہے تھے کہ آپ اضافی مدت لے لیں‘ مگر وہ نہ مانے اور آج عزت و وقار کے ساتھ رخصت ہو کر گھر جا رہے ہیں۔ اسی دوران پارلیمنٹ میں نیا قانون بن گیا اور چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار پارلیمنٹ کو مل گیا۔ پیغام یہ دیا گیا کہ قانون ساز ادارہ ہی سپریم ہے۔ یہاں مشاورت سے قانون بنتا ہے۔ قانون سازی کا اختیار کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا؛ چنانچہ شب و روز کے گزرتے لمحات کے خالق نے اب کے پھر حالات کے دھارے کو ایسی دھاری دار قمیص پہنائی کہ پارلیمنٹ دھاری دار چیتے کی طرح سامنے آئی اور اس کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج‘ جناب جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کر دیا۔ شاید محترم یحییٰ آفریدی صاحب نے اس دوڑ میں شامل ہونے کا نہ سوچا تھا‘ نہ اس کی کوئی خواہش تھی کہ جو کسی موقع پر گفتار یا کردار سے ابھر کر سامنے آئی ہو۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی بن مانگے عطا کا نظارہ۔
اب ملک کے چیف ایگزیکٹو کی بات کریں تو دنیا ایک سال پہلے یہی کہہ رہی تھی کہ میاں نوازشریف صاحب اگلے وزیراعظم بنیں گے۔ حالات کا دھارا یہی بتلا رہا تھا مگر پھر حالات کا دھارا بدلا اور شہباز شریف صاحب وزیراعظم بن گئے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ''شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کا اجلاس ہمارے وطنِ عزیز میں ہوگا۔ وہ بھی ہوا اور اس طرح ہوا کہ روس اور چین کے وزرائے اعظم کے علاوہ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر بھی یہاں آئے۔ اس دوران پاکستان نے کمال کردیا۔ اپنی اخلاقی ساکھ کو سکھ اور چین کا ایسا لباس زیب تن کرایا کہ جناب جے شنکر سے وہ بدلہ نہیں لیا‘ ان سے ویسا سلوک نہیں کیا جیسا انہوں نے ہمارے وزیر خارجہ جناب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کیا تھا کہ مصافحہ کے وقت ہاتھ ہی پیچھے کر لیا تھا۔ پاکستان نے جے شنکر کو عزت و اکرام سے نوازا‘ میزبانی کا مکمل حق ادا کیا۔ جے شنکر نے بھی حق ادا کیا اور اچھی گفتگو کرکے‘ اچھا ٹویٹ کرکے اشارہ دیا کہ ہم اچھے ہمسائے بن کر رہنے کا عزم کرتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی عزت و آبرو میں اضافہ ہوا ہے۔ اب ہم استحکام کی جانب چل پڑے ہیں۔ سیاسی استحکام سے معاشی استحکام ملے گا۔ انتظامیہ اور عدلیہ سے میرٹ اور عدل ملے گا تو ہم چھلانگیں مارتے آگے بڑھیں گے‘ ان شاء اللہ!
راقم نے ''روزنامہ دنیا‘‘ کے ان صفحات پر اپنے کالموں میں کئی بار لکھا اور تقریروں میں بھی متعدد بار گزارش کی کہ فوجداری فیصلوں کی مدت زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کر دیں۔ دیوانی مقدمات کی مدت زیادہ سے زیادہ ایک سال کر دیں۔ میں کہتا ہوں ایسا ہو جائے اور عدل کو ملحوظِ خاطر رکھ لیا جائے تو ہمارا معاشرہ پُرامن بن جائے گا۔ ٹیکس وصولی کو ایک کھڑکی سے وابستہ کر دیا جائے تو ہماری صنعت کو بھاگ لگ جائیں گے۔ تاجر خود ٹیکس دینے کو تیار ہیں مگر سسٹم میں جو بددیانتی کا عنصر ہے وہ اصل رکاوٹ ہے۔ ہر محکمے میں میرٹ اور عدل کو لازم کر لیا جائے۔ دیانتدار افسران کو ڈھونڈ کر سربراہ بنایا جائے تو ملک چھلانگیں مارتا آگے بڑھے گا۔ اب ہر محکمے میں اصلاحات کا کام شروع ہونا چاہیے۔ یورپ نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصلاحات کو اپنایا تو دیکھ لیں پچھلی چند صدیوں سے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔
یروشلم کا جب محاصرہ ہوا تھا تو وہاں کے سیاسی اور مذہبی حکمران جناب پیٹر یارچ سوفرونیوس (Patriarch Sophronius) نے کہا تھا کہ اے مسلمانو! تمہارا حکمران اگر یہاں آ جائے تو ہم چابیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیں گے۔ یہ حضرت عمرؓ کا عدل تھا جو مفتوحہ علاقوں میں دنیا دیکھ چکی تھی۔ اس کا نظارہ سوفرونیوس کے بھی سامنے تھا‘ تبھی اس نے یہ پیشکش کی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ پر قائم مقام امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اور خود یروشلم کی جانب چل دیے۔ سوفرونیوس نے ان کا استقبال کیا اور ان کی سادگی کو دیکھ کربے حد متاثر ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر شہر کی چابیاں رکھ دیں۔ اب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہاں دس دن قیام کیا اور اس دوران ہر تقریب میں پیٹریارچ سوفرونیوس کو اپنے ساتھ رکھا‘ اسے خوب عزت دی۔ ٹیمپل مائونٹ کا میدان‘ جسے قرآنِ مجید نے ''مسجد الاقصیٰ‘‘ کے نام سے یاد فرمایا‘ اس میدان میں فجر کی نمازکے بعد جب مسلمان اور مسیحی اکٹھے بیٹھے تھے‘ گفتگو چل رہی تھی تو سوفرونیوس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید حکمرانی جانے کے غم میں رونے لگ گیا ہے‘ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حوصلہ دیتے ہوئے سوفرونیوس سے کہا: '' غم نہ کرو اپنے آپ کو سنبھالو۔ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں دن گردش میں رہتے ہیں۔ کبھی تمہارے حق میں ہوتے ہیں اور کبھی تمہارے خلاف ہوتے ہیں‘‘۔ اس پر سوفرونیوس کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپؓ نے میرے بارے میں خیال کر لیا کہ شاید میں ملک اور حکمرانی چھن جانے پر رو رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں اس کی محرومی پہ نہیں رو رہا۔ بالکل بھی اس کی خاطر نہیں رو رہا۔ میں رو رہا ہوں اور جی ہاں میں نے آنسو بہائے ہیں مگر اس لیے بہائے ہیں کہ آپ کی رحم دلی اور عدل و انصاف دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ لوگوں کی حکمرانی ایک لمبے زمانے تک باقی رہے گی۔ ترقی کی منازل طے کرتے چلی جائے گی۔ بلندی اور رفعت کا یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوگا اس لیے کہ ظلم کی حکمرانی کا ٹائم تھوڑا ہوتا ہے جبکہ عدل و انصاف کی حکمرانی قیامت تک بھی قائم رہ سکتی ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ فاتح لوگوں کی حکمرانی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے‘ پھر وقت کے ساتھ ساتھ قریب المرگ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ لوگ یروشلم کی مملکت کے مالک تا ابد بھی رہ سکتے ہیں مگر اسلام کے عقیدے کو تھام کر‘ اسلام کے قانون کو اپنا کر اور اسلام کے اخلاق سے وابستہ و پیوستہ ہو کر۔
قارئین کرام! اہلِ اسلام اور مسیحی برادری نے خاموشی کے ساتھ سوفرونیوس کی دانشورانہ باتوں کو سنا۔ امیر المومنین سیدنا عمرؓ کی خاموشی نے اس گفتگو کو حکمت اور دانش کی سند عطا فرمائی۔آج ہمارے سوچنے اور غور کرنے کا وقت ہے کہ یروشلم کن کے پاس ہے اور دنیا دہکتی آگ کے کس کنارے پر کھڑی ہے؟ آیئے! اپنے ایٹمی قوت کے حامل ملک کو عدل و احسان سے بھر دینے کا عزم کریں۔ عملی طور پر آگے بڑھیں‘ کردار میں مفلس اور دنیا کے مردار پر ایمان بیچنے والوں سے وطن عزیز کی جان چھڑائیں۔ پیٹریارچ سوفرونیوس کی نصیحت کو سامنے رکھ لیں۔ حضرت فاروق اعظمؓ کی اصلاحات کو پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنائیں۔پاکستان زندہ باد!