ہم بھی عجیب و غریب خیالوں کے جال میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح ہیں۔ سنا اور دیکھا تو یہی ہے کہ مچھلی پانی میں نہ ہو تو بے چین ہو جاتی ہے‘ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے اور وہ جسم اور سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کی جدوجہد میں آخرکار دم توڑ کر شکاریوں کا لقمہ بن جاتی ہے۔ فطرت میں ہر روز کا مشاہدہ ہے کہ جنگل آباد‘ جنگل ہی سے ہوتا ہے۔ ہر نوع کے درخت انسانی معاشرے میں مختلف کارہائے حیات انجام دینے والے افراد کی طرح ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں‘ گرمی سردی سے بچاؤ کا باہمی عمرانی معاہدہ قدرت نے ان کی فطری جینیات میں رکھ دیا ہے۔ قربت میں ایک دوسرے سے مقابلے بازی میں تیزی سے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ روشنی‘ سورج کی کرنیں‘ ہوا‘ پانی اور نمی کی کھلی منڈی میں مسابقت ہمارے انسانوں سے کم نہیں۔ یہ بھی اپنی نسل کے لحاظ سے رنگ‘ قد‘ برگ و بار‘ پھول‘ پھل اور بیج پیدا کرکے اپنی افزائش کو یقینی بناتے ہیں۔ جنگل خوراک‘ پانی اور تحفظ مہیا کرے تو خوبصورت پرندے اور جانور وہاں جمع ہو جاتے ہیں۔ انسانی معاشرے بھی اپنی حقیقی فطرت پر استوار ہوتے ہیں۔ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ترقی‘ خوشحالی اور امن کے حصول کے لیے اپنا راستہ عالمگیر اصولوں کی بنیاد پر استوار کرکے نئی منزلوں کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ ایسے قومی سفر میں نہ منزلیں ختم ہوتی ہیں اور نہ سفر تھمتا ہے۔ کئی تہذیبیں وادیٔ سندھ سے لے کر مصر کے ریگستانوں اور یونان کے جزیروں تک میں نشانیاں چھوڑ گئیں‘ اور ہم ہیں کہ آج نہ کوئی راستہ‘ نہ منزل اور نہ ہی کوئی کارواں ہے۔ میر کارواں کی بات تو تب ہو کہ کوئی کارواں بنے‘ رختِ سفر باندھے‘ کوئی منزل طے کرے۔
فطرت اور تاریخ سے سیکھنے اور سمجھنے والی شخصیت اور قوم سبق لے سکتی ہے۔ اکثر ذہن میں خیال اُبھرتا ہے‘ اور جس کا اظہار ان سطور میں کئی سالوں سے تواتر سے کرنے سے قلم باز نہیں رہتا وہ ہمارے سیاسی‘ مذہبی اور نظریاتی مفکروں اور رہنماؤں کا اس بات پر زور ہے کہ ہم منفرد لوگ‘ قوم اور ملک ہیں۔ یہ تو ہر ملک اور قوم کا اصرار ہے کہ ان کی ساخت کی ترکیب دوسروں سے منفرد ہے‘ مگر امن‘ سکون اور خوشحالی اور ترقی کے اصول اور دستور اب الگ نہیں۔ ایک صدی قبل کچھ ملکوں نے نئے نظریاتی زاویوں کو ترویج دے کر کچھ متبادل راستے بنائے اور جو انہوں نے تباہی مچائی اور جو اُن کا انجام ہوا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نئے آزاد ہونے والے ملکوں‘ خاص طور پر افریقی‘ لاطینی اور مسلم ممالک میں سے چند نے قومیت‘ اشتراکیت‘ جدیدیت اور تجدید کے پُرفریب نعرے لگائے اور اکثر بدترین فسطائیت کا شکار ہوئے۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب فروری 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی‘ سب روداد لائیو دیکھی اور لاہور کے سپورٹس سٹیڈیم میں معمر قذافی کی پُرجوش تقریر نے ہزاروں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کر دیا۔ ہماری جامعہ کے کچھ طالب علموں نے ان کی تصاویر دیواروں اور میزوں پر سجانا شروع کر دیں۔ مصرکے جمال عبدالناصر بھی ہماری نسل کے ہیرو تھے۔ ہمارے ہاں بھی ذوالفقارعلی بھٹو کا رنگ نکھرا اور لاکھوں لوگ ان کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ یہ سب قصے کہانیاں نہیں‘ سبق آموز تاریخ ہے۔ ذرا غور کریں جب ہمارے ہاں شخصیت پرستی‘ بے وقت کی اشتراکی راگنی کے ساتھ حزبِ اختلاف کو ملک اور سلامتی کا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر اسے کچلنے کے لیے ریاست کا ہر ادارہ اور ہر طاقت مصروف تھی‘ دنیا کے دوسرے ممالک میں کیا ہو رہا تھا۔ چین اپنا راستہ بدل رہا تھا۔ مائوزے تنگ نے اپنی ہی زندگی میں امریکہ سے مصالحت کر لی تھی‘ اور اس کی آنکھ بند ہوتے ہی نئی قیادت جیلوں اور گھروں کی نظر بندی سے نکل کر مسندِ اقتدار پر آئی‘ ایک راستہ منتخب کیا‘ جس کی بنیاد اپنی تہذیبی روایات اور معیشت کے عالمگیر اصولوں پر تھی۔ آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس درویش نے پہلی بار جب 1978ء میں کراچی سے امریکہ کا سفر کیا تو چینی سفارتکاروں اور سرکاری اہلکاروں کو براستہ کراچی یورپ جاتے دیکھا۔ آج ہم اپنے ہی ملک سے امریکہ اور یورپ کا براہِ راست سفر نہیں کر سکتے۔
ہم نے سب سیاسی نظاموں کو آزما لیا ہے‘ یا سب کا ہمارے اوپر مسلط افراد نے ایسا حشر نشر کیا ہے کہ اب جو بھی نظام سکہ رائج الوقت کی طرح ادھر چل رہا ہے‘ اسے کوئی ڈھنگ کا نام دینا آسان کام نہیں۔ پہلے پارلیمانی نظام‘ پھر بگڑا ہوا صدارتی نظام‘ جو بقول جسٹس آر اے کیانی‘ لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرح تھا‘ یعنی طاقت کے سب راستے اُس طرف جاتے تھے۔ رہا سہا بھرم 1965ء کے صدارتی انتخاب نے کھول دیا جب پوری ریاستی مشینری اور نامور سیاسی خاندانوں نے کھل کر دھاندلی کی۔ ایک اور مارشل لاء اور پھر پارلیمانی نظام‘ متفق دستور‘ مگر عوامی گھوڑے کے شاہسوار کی سیاست طاقت کے نشے میں سرشار تھی۔ اس کا رنگ صنعتوں اور اداروں کو قومی تحویل میں لینے سے پھیکا‘ بلکہ زرد پڑ گیا۔ آج کل کے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جرنیلوں کے جھونکے کی تاب نہ لا سکا‘ اور ایک بار پھر مارشل لاء آ گیا۔
اس مارشل لاء کی کہانی اور پاکستان کی نظریاتی سمت کا تعین‘ ایک سیاسی‘ غیر سیاسی اتحاد اور سرد جنگ کو افغانستان میں لانے میں اس اتحاد نے کردار ادا کیا۔ اس کے نتائج آج بھی آپ کے سامنے ہیں۔ ہمارا روایتی قومی تشخص ہو یا اس خطے کی قدیم تہذیبی روایت‘ سب خاک میں مل چکے ہیں۔ ایک اور مارشل لاء (چوتھا) آیا تو پھر ملک کو اسی اندھے کنویں میں دھکیل دیا گیا جہاں سے نکلنے کی سعی ہو رہی تھی۔ دو تہائی اکثریتی جماعت کو ختم کرنے کیلئے پارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ وہ کیا جو کبھی روس اور عراق کے لیڈر کیا کرتے تھے۔ ''ہم نیا پاکستان بنائیں گے‘‘۔ مجھے اس نعرے سے چڑ سی ہو گئی ہے کہ ہر نیا آنے والا 'نیا پاکستان‘ بناتے بناتے پرانے کا جو حشر کرتا ہے‘ وہ ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ آج کل جو اس ملک میں ہو رہا ہے‘ وہ ضیاالحق اور پرویز مشرف کے دور کے ہتھکنڈوں‘ آئینی ترمیموں‘ ذاتی مفاد پر قانون سازی‘ سیاسی وغیر سیاسی اتحاد‘ جس میں نام نہاد جمہوریت کے سب دعوے دار شامل تھے‘ سے کچھ مختلف نہیں۔ لگتا ہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں سے کسی نے ایک سکرپٹ لکھ کر رکھا ہوا ہے‘ اور آنے والے سیاسی کارندوں کے ہاتھ میں اُسے تھما دیا جاتا ہے۔ اس میں یکسانیت اتنی ہے کہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی لفظوں اور فقروں میں کوئی جدت نہیں آ سکی۔
ہمارے امن وسکون کی بربادی‘ قومی سلامتی کے مسائل اور عد م استحکام اور معاشی پسماندگی کی بنیادی وجوہات دراصل ان فطری معاشرتی اصولوں سے انحراف ہے جن کی بنیاد پر اقوام عالم ترقی کر رہی ہیں۔ کون لکھنے اور بولنے والا یاد نہیں دلاتا اور ہم کب سے دست بستہ عرض گزار ہیں کہ امن وسکون اور خوش حالی کا راز ایک مستحکم نظام سے وابستہ ہے جو عوامی اور قانونی جائزیت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ہمارے اکابرین ایوب خان سے لے کر آج تک 'مسلطنت‘ بنانے کی فکر میں ہیں۔ یہ لفظ کئی دنوں سے میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا کہ موجودہ نظام مسلط کرنے کی میرے نزدیک ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے کئی تجربے کرنے کے باوجود بھی اگر حکمران مُصر ہیں تو ہم آپ کے لیے دعا کر کے جنگل کے ایک کونے میں‘ زہرہ نگاہ کی نظم آپ کی نذر کریں گے۔
خداوندِ جلیل و معتبر‘ دانا و بینا‘ منصف و اکبر
میرے اس شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر