اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ کے فرمان کے مطابق زمین پر آپﷺ کا نام ''محمد‘‘ ہے اور آسمان میں '' احمد‘‘ ہے۔ عربی زبان میں ہر لفظ کا ایک ''مادہ‘‘ یعنی ایک بنیاد ہوتی ہے‘ جو زیادہ تر تین حروف پر مشتمل ہوتی ہے۔ یوں حضورﷺ کے نام ''محمد‘‘ کا بنیادی لفظ ''حمد‘‘ ہے اور ''احمد‘‘ کا بنیادی لفظ بھی ''حمد‘‘ ہے۔ حمد کے معنی تعریف کے ہیں۔ زمین پر سب سے اونچا نام‘ تعریفی نام محمد ہے کہ ساری زمین میں ایک ہی ایسی ہستی ہے کہ جس پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ کتابیں ساری انسانوں نے لکھی ہیں۔ جدید زمانے میں انٹرنیٹ اور اب A.I یعنی مصنوعی ذہانت میں بھی سب سے زیادہ سرچ ہونے والا نام صرف اور صرف ''محمد‘‘ ہے۔ یعنی زمین آپﷺ کی تعریف سے بھری ہوئی ہے۔ زمین کی فضا حضور نبی کریمﷺ کی حمد سے اس طرح بھری ہوئی ہے کہ زمینی گلوب پر 24 گھنٹے میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب فضائوں میں ''اشھد ان لا الہ الا اللہ‘‘ اور ''اشھد ان محمد رسول اللہ‘‘ کی گواہی کا اعلان نہیں ہوتا۔ یوں ساری زمین کی فضا دن رات کے ہر لمحے میں حضور نبی کریمﷺ کی تعریف سے معمور رہتی ہے۔
''احمد‘‘ کا مطلب حضورﷺ نے یہ بھی بتایا کہ قیامت کے دن سب سے بڑھ کر میں اپنے اللہ کی حمد بیان کروں گا۔ یاد رہے! قیامت کا دن‘ جو 50 ہزار سال پر مشتمل ہو گا‘ اس دن تمام انسانیت گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار ہو گی۔ اس دن اگر انسانیت کو امن ملے گا تو حضورﷺ کی حمد کے بعد ہی ملے گا۔ وہ حمد جو حضور کریمﷺ سجدے میں کریں گے۔ سجدے میں بیان کی گئی اللہ کی حمد ہی پوری انسانیت کو امن کا تحفہ دے گی۔
ہمارے حضورﷺ کا ایک نام ''امین‘‘ بھی ہے۔ امین کا مادی لفظ ''امن‘‘ ہے۔ یاد رہے! زمین وآسمان میں تعریف وتوصیف اسی ہستی کو ملتی ہے جس کی گفتار اور کردار سے انسانیت کو امن ملے۔ حضور کریمﷺ کے اعلانِ نبوت سے پہلے جب کعبۃ اللہ کی تعمیر ہو رہی تھی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا موقع آیا تو قریش کے ہر قبیلے کا سردار دعویٰ کرنے لگ گیا کہ یہ اس کے قبیلے کا ہی حق ہے اور حجر اسود کو وہی نصب کرے گا۔ قریب تھا کہ تلواریں نکل آتیں۔ آخر سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ کل جو شخص سب سے پہلے حرم شریف میں داخل ہو گا‘ وہی حجر اسود کی تنصیب سے متعلق فیصلہ کرے گا۔ سب قبیلوں کا اس پر اتفاق ہو گیا۔ اگلے دن حرم مکی میں جو شخصیت سب سے پہلے داخل ہوئی وہ حضرت محمد کریمﷺ کی ذاتِ گرامی تھی۔ سب نے آپﷺ کو ''امین‘‘ کہہ کر پکارا۔ مکہ میں آپﷺ صادق اور امین کے لقب سے معروف تھے۔ امن اور امانتداری کے لحاظ سے حضورﷺ کو امین کہا جاتا تھا۔ اب حجر اسود کی تنصیب کا فیصلہ حضورﷺ نے کرنا تھا۔ حضورﷺ نے کیا کیا کہ ایک چادر منگوائی۔ اس میں اپنے دستِ مبارک سے حجر اسود کو رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں اور عمائدین نے اس چادر کو تھام لیا۔ جب تنصیب کے مقام کے قریب چادر لائی گئی تو حضورﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو اٹھایا اور حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔ تمام قبائل اس فیصلے پر راضی تھے۔ یہ ہے وہ امن جو اہلِ مکہ کو پیغمبر امینﷺ نے عطا کیا۔ اب سارے مکہ اور پورے عرب میں نام محمد کی تعریف وتوصیف ہو رہی تھی‘ جو اس امن بھرے فیصلے کی وجہ سے ہو رہی تھی۔ اس فیصلے میں حضورﷺ نے اپنے اختیار کو اپنی ذات سے باہر نکالا اور سب کو اس میں شامل کیا۔ اسی کا نام شورائیت ہے‘ اسی کا نام انسانیت کی عظمت ہے۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ اسی میں برکت ہے۔ اسی میں انسانیت کی عزت اور توقیر ہے۔
اِس وقت امریکہ کے اندر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں غزہ اور اب لبنان پر بحث ہو رہی ہے۔ انسانیت اور عالمی امن کا ضامن یہ ادارہ غزہ میں سال بھر سے جاری ظلم وزیادتی کو رکوانے میں ناکام رہا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک بھی جنگ بندی میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس ناکامی کا حالیہ اجلاس میں بھی تذکرہ ہوا ہے۔ دنیا ایک نئی خوفناک عالمی جنگ کے کنارے پر کھڑی ہے۔ کنارے سے نیچے جھانک کر جو کوئی بھی دیکھتا ہے اسے آگ کا دہکتا اور شعلے مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ کیا ساری انسانیت اس میں گر کر بھسم ہو جائے گی؟ اب تو امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی کہہ دیا ہے کہ دنیا آگے بڑھ کر اس جنگ کو پھیلنے سے روکے۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو بارود کون فراہم کر رہا ہے؟ عالمی عدالت انصاف کو کون روکے بیٹھا ہے جو اسرائیلی وزیراعظم پر جنگی جرم کے ارتکاب کا اعلان تو کر چکی ہے مگر گرفتاری اور اسرائیل پر پابندیوں کے لیے اسے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ آخر کار اقوام متحدہ میں پانچ سے زیادہ مستقل ممبران لانے کی بات بھی کر دی گئی ہے۔ یہ بات خود امریکی صدر جوبائیڈن نے کی ہے۔ مسلم آبادی دنیا کی ایک چوتھائی یعنی دو ارب کے قریب ہے۔ سلامتی کونسل میں چھٹا مستقل ممبر مسلمانوں کو بنایا جائے۔ مسلمانوں کے ستاون ملک آگے بڑھیں‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے خادموں‘ جو ''خادم الحرمین الشریفین‘‘ کے لقب کے حامل ہیں‘ کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔ پاکستان جیسی ایٹمی پاور اپنی مضبوط فوج کے ساتھ جب پیچھے کھڑی ہو گی۔ ایران‘ ترکیہ اور انڈونیشیا جیسے مضبوط ممالک کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے تو مسلمان احمد عظیم‘ امین العالمین حضرت محمدﷺ کی سنت کو دوبارہ زندہ کریں گے‘ ان شاء اللہ۔ سارے جہان کو ساتھ لے کر کھڑے ہو جائیں۔ مشرق وسطیٰ کو امن کا گلستان بنا دیں۔ یروشلم اور القدس کی فضا فاختہ کی پُرامن پرواز دیکھے۔ غزہ کی سرزمین کی فضا میں فاختہ کے منہ میں زیتون کی شاخ دیکھے۔ لبنان اور مغربی کنارے کی فضائوں میں امن کی بلبل نغمہ گائے۔ سارا جہان اس کو سنتے ہوئے خوشی و مسرت کے گیت گائے۔ القدس شریف کہ جس کے نام ایلیا اور یروشلم بھی ہوا کرتا تھا‘ اس میں مسلم‘ مسیحی اور یہودی جو آباد ہیں‘ وہ حضرت عمر فاروقؓ کے معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے امن اور امانت کے ساتھ امن کے گیت گاتے ہوئے رہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ حمد کے تین حروف ہیں۔ امن کے بھی تین حروف ہیں۔ تینوں کا تعلق رحمت دوعالمﷺ کے محبت بھرے ناموں سے ہے۔ حضورﷺ نے تین شہر حاصل کیے۔ تینوں ہی امن کے ساتھ حاصل کیے۔ تینوں ہی مقدس ترین شہر ہیں۔ حضورﷺ نے اعلانِ نبوت سے پہلے مکہ شہر کو بھڑکنے والی جنگ سے امن کی وادی میں داخل کر دیا۔ اعلانِ نبوت کے بعد اہلِ مکہ نے ستایا تو آپﷺ نے اہلِ یثرب کو اپنا ہم مشرب بنایا۔ انہی کی دعوت پر آپﷺ وہاں تشریف لے گئے اور حکمرانی کے نبوی منبر پر تشریف فرما ہو گئے۔ آٹھ سال بعد دس ہزار کی فوجی قوت کو لے کر مکہ میں تشریف لائے تو قوت ہونے کے باوجود امن کے ساتھ حرم کی چابیاں لیں اور سب کو معاف کرنے کا اعلان فرما دیا۔ حضورﷺ نے اَسراء ومعراج کی رات القدس شریف میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ آپﷺ کے بعد حضرت عمر فاروقؓ مدینہ منورہ کے حکمران بنے‘ اسلامی افواج کے سالار حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے پروشلم کا محاصرہ کیا تو حضرت عمر فاروقؓ کے ہاتھ پر شہر کی چابیاں سب سے بڑے پادری‘ پیٹریارچ سوفرونیوس نے رکھیں۔ اللہ اللہ! یہ امن آج بھی ملے گا تو حضورﷺ کے خادموں کو آگے کر کے ملے گا۔ جناب جوبائیڈن صاحب! آگے بڑھئے۔ ایسا کر گزریے۔ سنت رسول اور اسم محمدﷺ کی برکت سے دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی اور ایک پرچم تلے کھڑی ہو جائے گی۔