ہر نیا دن پاکستانی سیاست میں ایک نئی کشمکش لاتا ہے۔ ہر روز نیا ہنگامہ‘ نئی امیدیں اور شام کو وہی پرانی مایوسی۔
اب تو ایسے سوال سننے کی عادت سی ہو گئی ہے کہ ہمارا کیا بنے گا‘ ملک کا کیا بنے گا‘ خان کب باہر آ رہا ہے؟ کبھی میں ان سوالات کو بڑا سنجیدہ لیتا تھا اور سنجیدگی سے اگلے بندے کو اپنا نقطۂ نظر سمجھانے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر کچھ برس گزرے اور یہی سوال ہر حکومت بارے پوچھا جانے لگا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو عوام کا مزاج ہے‘ جو ہر حکمران سے تنگ ہوتے ہیں۔ جو شخص وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھا ہو اس سے تنگ ہوتے ہیں اور جو جیل میں بیٹھا ہو یاجلاوطنی بھگت رہا ہو‘ اس سے بہتری کی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو عوام کو لگتا تھا کہ نواز شریف وزیراعظم بنیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو عوام کو لگا کہ نہیں! بینظیر بھٹو ہی ٹھیک تھیں‘ انہیں دوبارہ وزیراعظم بنایا جائے۔ اسی طرح نواز شریف جب دوسری دفعہ وزیراعظم بن گئے تو پھر وہی گردان شروع ہو گئی کہ یہ کب ہٹیں گے۔ جب نواز شریف جلا وطن ہوئے تو پھر وہی سوال کہ کیا خبر ہے کہ وہ پاکستان کب لوٹ رہے ہیں۔ یوں سوالات کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو وہی سوال کہ خان کب وزیراعظم بنے گا۔ خان بھی وزیراعظم بن گیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم رہا کہ کیا خبر ہے‘ خان کب ہٹ رہا ہے؟ خان ہٹ گیا تو اب جہاں جائیں پھر وہی سوال کہ کیا خبر ہے‘ خان جیل سے کب واپس آرہا ہے؟
قوم کو 'کیا خبر ہے؟‘ کا ایسا چسکا لگ چکا ہے کہ یہ کسی حکمران کو پانچ سال دینے کو تیار نہیں‘ چھ ماہ بعد ان کا صبر جواب دے جاتا ہے اور وہ پھر نئے یا پرانے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ یہ وہ شغل ہے جو اس قوم کا پسندیدہ ہے‘ اور مزے کی بات ہے کہ یہی عوام پھر سے انہی لوگوں کو اقتدار میں لانے کیلئے لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں جن کے جانے پر یہ خوش ہوتے ہیں اور چھ ماہ بعد پھر سے انہی کے خلاف جلوسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اب مجھے سمجھائیں میں کیا جواب دوں؟
میں شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو ایک دن میرا اپنے گاؤں جانا ہوا۔ گاؤں کی اکثریت خان کے خلاف تھی۔ مجھے دیکھا تو مجھ پر پل پڑے کہ آپ کھل کر بات نہیں کر رہے‘ خان نے تو برباد کر دیا ہے‘ کھاد مہنگی ہو گئی ہے‘ ہمارے خرچے پورے نہیں ہو رہے۔ باہر سے گندم منگوا کر 2200 روپے فی من ریٹ دیا جا رہا ہے اور ہمیں 1400 روپے پر ٹرخا دیا ہے۔ ہم کسان مارے گئے ہیں‘ تم ہماری بات نہیں کرتے‘ تم بھی خان کے ساتھ مل گئے ہو۔ غرضیکہ لوگ عمران خان سے کافی مایوس تھے۔ رہی سہی کسر پنجاب میں بزدار حکومت نے پوری کر دی۔ لوگ بہت نالاں تھے۔ میں نے عمران خان کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو وہ سب ناراض ہو گئے۔
اس دوران اسلام آباد واپس آیا تو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی۔ پھر شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد ایک شادی پر گاؤں گیا تو لوگوں نے دوبارہ مجھے گھیر لیا کہ جی بتائیں‘ اسلام آباد کی کیا خبر ہے۔ اس سے پہلے کہ میں منہ کھولتا وہ خودہی بول پڑے: شہباز شریف کب جارہا ہے‘ ہم بہت تنگ ہیں‘ اس حکومت نے تو ہمارا جینا حرام کر دیا ہے‘ تم نے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے۔ میں چپ چاپ ان کے چہرے دیکھتا رہا کہ کتنے خوش نصیب ہیں یہ سب‘ کہ جب چاہیں کسی کو کندھے سے اتار کر زمین پر پھینک دیں اور جب دل کرے کندھے پر بٹھا لیں۔ چھ ماہ پہلے جس عمران خان کا دفاع کرنے پر مجھ سے لڑ پڑے تھے‘ اب اُسی خان کے جانے پر شہباز شریف پر تبرا پڑھ رہے تھے۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ خان اگر دوبارہ حکومت میں آ گیا تو یہی لوگ پھر سے خان کے خلاف ہوں گے اور مجھے طعنہ دیں گے کہ میں نے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے۔
یہ مسئلہ صرف میرے گاؤں کا نہیں ہے‘ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے جنہیں ہر تین ماہ بعد نیا حکمران درکار ہوتا ہے۔ اس لیے آپ نوٹ کریں کہ جونہی نئی حکومت بنتی ہے اس کے تین ماہ بعد لوگ ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہاں بھئی سنائو کیا خبر ہے‘ فلاں کب آ رہا ہے اور یہ کب جا رہے ہیں؟ اگر اس ملک و قوم کا فیورٹ کھیل جاننا ہو تو وہ یہی سیاسی کھیل ہے جس میں کوئی کھلاڑی نہ ریٹائر ہوتا ہے اور نہ ہی تماشائی بور ہوتے ہیں۔ کم از کم پہلے وقفے تک تو وہ کھیل سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں‘ پھر انہیں نیا کھیل اور نیا تماشا درکار ہوتا ہے۔ وہی بات کہ کیا خبر ہے؟ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی آپ سے ملے گا‘ بہت عزت سے پیش آئے گا‘ آپ کو بتائے گا کہ وہ آپ کا بڑا فین ہے‘ آپ کے کالم پڑھتا یا ٹی وی شو دیکھتا ہے۔ پھر اُسی سوال سے گفتگو آگے بڑھائے گا جس سے آپ تنگ آئے ہوئے ہیں کہ کیا خبریں ہے؟ آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کا تبصرہ سننے کا خواہشمند ہے۔ آپ جلدی میں ہیں تو اس کا دل رکھنے کیلئے رک کر اس کے ساتھ سیاست پر بات کرتے ہیں لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ آپ کو سنانا شروع کر دے گا۔ وہ دراصل اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ جب دھیرے دھیرے مجھے یہ بات سمجھ آئی تو میں نے سیاسی گفتگو بند کر دی اور دوسروں کی باتیں سننے لگا۔ میرے دوست اکثر خفا ہو جاتے ہیں کہ تمہیں شوق ہے تعریف سننے کا لہٰذا تم اس بندے کو پورا وقت دیتے ہو تاکہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کبھی تعریف اچھی لگتی تھی‘ ہم بھی انسان ہیں‘ تعریف کس کو اچھی نہیں لگتی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ مشہوری اور نیک نامی یا خبطِ عظمت کا جنون اب کم پڑ گیا ہے۔ اب تو دل چاہتا ہے کہ چپکے سے نکل جائیں اور آپ کو کوئی نہ پہچان پائے۔ کافی مشہوری ہو گئی اور تعریف بھی۔ لیکن کیا کریں جب کوئی مہربان روک لے تو پھر اچھی طرح اس کی بات سن لینی چاہیے تاکہ اُسے یہ نہ لگے کہ بندے کا دماغ خراب ہے یا یہ مغرور ہے۔ میں صرف اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں کسی کو یہ نہ لگے کہ غرور بڑھ گیا ہے لہٰذا جتنا وقت ہو‘ اُس بندے کو پوری توجہ سے سنتا ہوں۔ دوست چڑ جاتے ہیں کہ ہم نے اپنی گپ شپ کرنی ہوتی ہے‘ لیکن میرا یہی جواب ہوتا ہے کہ عوام کی نبض کو محسوس کرنا بھی ہمارا کام ہے۔ ہم اپنی سناتے رہتے ہیں‘ کبھی دوسروں کی بھی سنیں۔ اور یقین کریں ہر بندے کو ہر دور کے وزیراعظم یا حکومت بارے مایوس ہی پایا۔ جس وزیراعظم کی وہ چھ ماہ پہلے تعریفیں کررہے ہوتے ہیں‘ چھ ماہ بعد اس کا وہ حشر کرتے ہیں کہ توبہ۔ اگر آپ کچھ کہنے کی کوشش کریں کہ کوئی بات نہیں‘ کچھ عرصہ حکومت کو دے دیں تو آپ کو اگر منہ پر نہیں تو سوشل میڈیا پر ضرور ''لفافہ صحافی‘‘ کہیں گے۔ انہیں لگتا ہے کہ جو سیاستدان انہیں پسند ہے ہمیں بھی وہی پسند ہونا چاہیے۔ اگر چھ ماہ بعد کوئی سیاستدان انہیں برا لگنا شروع ہوگیا ہے تو صحافیوں کو بھی وہ برا لگنا چاہیے‘ ورنہ صحافی بکے ہوئے ہیں۔
عوام کی رائے کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک سیریس لینا چاہیے۔ چھ ماہ بعد انہوں نے قلابازی کھانی ہوتی ہے‘ تب وہ اُلٹا آپ کو سنا دیں گے کہ آپ نے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے۔ آج کل سب کو خان کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ خان دوبارہ وزیراعظم بنے اور پھر دیکھتے ہیں کہ یہ قوم کتنے ماہ بعد مجھ سے پوچھتی ہے کہ جناب پھر کیا خبر ہے‘ خان کب جارہا ہے؟ آپ نے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے‘ لفافہ تو نہیں پکڑ لیا؟