جب عمران خان ماسکو کے دورے سے واپس آئے تو ان کے ساتھ دورے پر گئے صحافیوں میں سے اکثر حیران کن طور پر یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ جنرل (ر)فیض حمید مستقبل کے پوتن ہیں۔ جب ان میں سے کچھ کو کریدا تو پتا چلا کہ ان پر ماسکو کی ہوائوں کا بہت اثر ہوا ہے اور فیض حمید کے چاہنے والے انہیں اگلا پوتن سمجھتے ہیں ۔ وہ مسٹر پوتن کے جو منصوبے بتاتے تھے حیران کن لگتے تھے ‘ لیکن ان سب کو اتنا زیادہ اعتمادتھا کہ میرے جیسے لوگ جنہیں کچھ شکوک و شبہات ہوتے‘ وہ بھی چپ کر جاتے کہ کیا پتا کل کو وہ واقعی پوتن بن جائیں۔ ان دوستوں سے ان کی سوچ کی اس تبدیلی کی وجہ پوچھتا تو وہ فیض حمید کا موازنہ پوتن سے کرنے لگتے کہ دونوں کا بیک گراؤنڈ خفیہ ایجنسیوں سے ہے‘ اور دونوں اس فیلڈ میں ماہر تھے۔ اور یہ کہ جس طرح پوتن نے سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد روس کو بڑی محنت اور ذہانت سے دوبارہ ایک پاور بنا دیا‘ یہی کام فیض حمید کریں گے۔ ان دوستوں کو لگتا تھا کہ فیض حمید بہت ذہین اور کام کرنے والے جنرل ہیں بلکہ وہ پروجیکٹ عمران خان ‘ جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع اور نواز شریف حکومت کے خاتمے یا انہیں جیل بھجوانے کا سارا کریڈٹ بھی فیض حمید کو دیتے تھے۔ وہ فیض حمید کو جنرل باجوہ کا اصل دماغ قرار دیتے تھے‘ جو ایک ایسا سپائی ماسٹر تھا جس نے زرداری اور شریفوں کے تخت ہلا کر رکھ دیے۔ ان کے نزدیک فیض حمید جیسا کوئی جنرل پہلے نہیں آیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر اس ملک اور ریاست کو سپر پاور بنانا ہے تویہ کام صرف فیض حمید کرسکتا ہے۔
یہ سب باتیں کوئی افسانہ نہیں بلکہ میں نے خود ان صحافیوں سے سنی ہوئی ہیں جن کا فیض حمید سے ملنا جلنا تھا یا پھر وہ فیض حمید کے قریبی افسران سے رابطے میں تھے۔ جب میں پوچھتا کہ فیض حمید پوتن کیسے بنیں گے کیونکہ وہ تو جنرل ہیں‘ تو پھر اس کی جو توجیح دی جاتی ہے وہ دلچسپ تھی۔ وہ فیض حمید کو منصبِ صدارت پر بیٹھا دیکھتے تھے۔ مطلب ملک میں صدارتی نظام ہوگا اور فیض حمید ایوب خان‘ ضیاالحق یا پرویز مشرف کی طرح ریاست کے سربراہ ہوں گے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر ملک میں صدارتی نظام نہ بھی آیا تو اگلے وزیراعظم پھر عمران خان ہوں گے‘اور فیض حمید آرمی چیف اور ایک سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کو ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا جائے گا‘ پھر دیکھنا ملک کیسے ترقی کرتا ہے۔ فیض حمید پوتن کا دوسرا جنم ہیں۔ وہ آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی گھر نہیں جائیں گے اور مستقل پاورز لے کر بیٹھ جائیں گے۔ شاید اسی لیے پی ٹی آئی کے وزیر ٹاک شوز میں کہتے تھے کہ ہم دس سال کیلئے کہیں نہیں جارہے۔ یہ بات وہ چھپ کر نہیں کرتے تھے بلکہ ایک دو ٹی وی شوز میں میرے ساتھ ایک وفاقی وزیر موجود تھے‘ جن کے خلاف میں سکینڈلز فائل کررہا تھا کہ کیسے عمران خان کی حکومت میں وہ اپنے دوست کو 80ملین ڈالرز کا ایک ٹھیکہ لے کر دے چکے تھے اور اسلام آباد میں اسی دوست کے گھر رہتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ مفادات کا ٹکرائو نہیں تھا کہ ایک وزیر اپنے کاروباری دوست کے گھر رہتا تھا جو پی ٹی آئی حکومت سے 80ملین ڈالرز تک کے کنٹریکٹ پشاور میں لے چکا تھا۔ ان کا مقصد مجھے یہ باور کرانا تھا کہ میرے فائل کردہ سکینڈلز سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ یہ الگ بات ہے کہ جونہی عمران خان کی حکومت ختم ہوئی موصوف سب سے پہلے لاہور میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی نئی پارٹی کی وفاداری کا حلف لینے پہنچے ہوئے تھے۔ اتنی ہی دیر کا انقلاب تھا۔
تب میں اکثر دوستوں کو کہتا تھا کہ اگر کسی بندے کو رات انقلاب کا خواب آیا ہو تو اسے صبح اٹھ کر انقلاب کیلئے ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ اگر مجھے اس کے انقلاب سے اتفاق نہیں ہے تو بھی میں اس کیلئے مشکلیں کیوں پیدا کروں۔ ہاں اگر میرا اپنا دل یہ کرے کہ مجھے انقلاب لانا چاہیے تو میں ضرور کوشش کروں گا۔ اگر کسی شخص کی بات پر کوئی دوسرا بندہ یقین نہ کرے تو اس میں اُس شخص کا کیا قصور ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ہر انقلابی آئے روز دوسروں کو طعنے دیتا ہے کہ تم ڈر گئے ہو‘ تم انقلاب کیلئے کوشش نہیں کررہے۔ میں کبھی انقلاب کا حامی نہیں رہا‘ ہاں! قانونی طریقہ کار کے ذریعے تبدیلی کا حامی ضرور رہا ہوں۔ تبدیلی کے بغیر سماج ترقی نہیں کر پاتا۔ مگر میں نے پچھلے دو تین سو برسوں میں آنے والے انقلابات کے جو نتائج تاریخ کی کتابوں میں پڑھے ہیں‘ اس کے بعد اس لفظ سے مجھے چڑ ہے۔ انقلاب میں زیادہ لہو عام لوگوں کا بہتا ہے لیکن اقتدار اور حکمرانی پر قبضہ چند طاقتور لوگ کر لیتے ہیں اور اپنے پیشروؤں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوتے ہیں۔
مجھے اس موقع پر عظیم روسی ادیب ٹالسٹائی کی ایک کہانی یادآتی ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ 1862ء میں روسی زار نے لینڈ ریفامز کیں اور بڑے پیمانے پر زمینیں بے زمین کسانوں میں بانٹی گئیں‘ جو پہلے بڑے بڑے جاگیرداروں کی زمینوں پر کام کرتے تھے۔ ٹالسٹائی لکھتا ہے کہ جب یہ کسان خود زمینوں کے مالک بنے تو جو مظالم یہ اپنے کھیت مزدورں پر کرتے تھے‘ اس کے مقابلے میں وہ جاگیردار رحم دل لگتے تھے جنہوں نے ان پر ظلم کیا تھا۔ جونہی ان بے زمین کسانوں کو زمین ملی اور ان کو لگا کہ اب وہ خود زمیندار اور جاگیردار ہیں تو ان کے رویے بدلے اور انہوں نے ظلم و ستم کی نئی مثالیں قائم کیں۔ یہی کچھ اگر دیکھا جائے تو انقلابِ فرانس‘ انقلابِ روس اور انقلابِ ایران میں بھی ہوا۔ فرانس کے لوگ جس شہنشاہ لوئی سے آزادی چاہتے تھے انہیں علم نہ تھا کہ اس بادشاہ کے ظلم سے نکل کر وہ نپولین کے ہاتھوں میں پھنس جائیں گے‘ جس نے آگے بڑھ کر انقلاب کو ہائی جیک کیا اور پورے یورپ کو آگ لگا دی‘ جس میں لاکھوں یورپین اور فرانسیسی مارے گئے۔ خود وہ ایک جزیرے پر قید ہو کر تنہائی میں مرا۔ آخری دنوں میں اس کی بس یہی خواہش تھی کہ اسے بادشاہ کہا جائے اور نوکر اس کی یہ خواہش پوری کرتے تھے۔ یہی کام روس میں بالشویک انقلاب لانے والوں نے کیا۔ انہوں نے زار سمیت اس کے پورے خاندان کو اُڑا دیا اور کچھ عرصے بعد جو لوگ مل کر یہ انقلاب لائے تھے‘ وہ ایک دوسرے کو قتل کرانے کیلئے کرائے کے قاتل بھیج رہے تھے۔ جوزف سٹالن کے ہاتھوں ٹراٹسکی کا قتل اس کی بڑی مثال ہے۔ پھر سٹالن نے جو روس میں مخالفین کا قتلِ عام کیا وہ تاریخ کا بھیانک باب ہے۔ انقلاب کا مطلب فاشزم ہوتا ہے جہاں زندہ رہنے کا حق صرف ان لوگوں کو ہے جو آپ کی فاشسٹ فلاسفی کو فالو کرتے ہیں۔ صدام حسین اور کرنل قذافی بھی انقلاب لائے تھے پھر ان سب کا کیا انجام ہوا؟ جو لوگ دوسروں کا لہو بہا کر پاور میں آتے ہیں‘ یہ نا ممکن ہے کہ وہ خود بھی اس تشدد کا شکار نہ ہوں جو انہوں نے دوسروں کیلئے روا رکھا۔
جب میں اپنے اُن دوستوں سے پوچھتا تھا کہ کیا تم خود اس پاکستانی پوتن سے محفوظ رہ سکو گے؟ وہ ہنس کر کہتے کہ بھلا ہمیں کسی نے کیا کہنا ہے‘ ہم تو پوتن کا ہراول دستہ ہیں۔ میں ہمیشہ کہتا کہ اگر آپ کا پاکستانی مسٹر پوتن واقعی اصلی اور کھرا انقلابی ہے تو تسلی رکھیں سب سے پہلے آپ لوگوں کو ہی لٹکائے گا۔ یقینا لوگ ہنسیں گے لیکن مسٹر پوتن بننے کیلئے اپنے اردگرد کے انقلابیوں کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے ورنہ وہی لوگ انقلاب کا رخ آپ کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ سٹالن کو پتا تھا کہ اگر روس پر حکمرانی کرنی ہے تو انقلاب کے بانی ٹراٹسکی کو قتل کرانا ضروری ہے‘ اور اس نے وہی کیا۔
جن انقلابیوں کو دکھ ہے کہ فیض حمید مسٹر پوتن نہ بن سکے وہ خوش نصیب ہیں۔ اپنے سر کا صدقہ دیں۔ کچھ روز خیرات کیا کریں۔