"RKC" (space) message & send to 7575

خان یہ باریک راز نہ سمجھ سکا

عمران خان اور بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ٹُو میں سترہ سترہ برس سزا سنا دی گئی ہے۔ وجہ وہ قیمتی جیولری سیٹ بنا جو سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے عمران خان کو اس وقت دیا تھا جب 2021ء میں وہ بطور وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے۔ عمران خان پر الزام تھا کہ انہوں نے وہ قیمتی سیٹ توشہ خانے سے بہت کم پیسوں میں لے لیا تھا جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا‘ اس لیے اس مقدمے میں انہیں 17سال سزا کے علاوہ سولہ کروڑ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔
مجھے ہمیشہ سے توشہ خانے میں دلچسپی رہی ہے۔ میں جنرل مشرف کے دور سے حکمرانوں‘ وزیروں‘ بیوروکریٹس اور دیگر اہم لوگوں کو بیرون ملک ملنے والے تحائف کی تفصیلات اور سکینڈلز مسلسل فائل کرتا رہا ہوں۔ جس طرح توشہ خانے سے ہر صدر‘ وزیراعظم اور سول و ملٹری بیوروکریسی قیمتی تحائف محض ٹوکن ادائیگی کر کے لے گئے‘ ان کی تفصیلات اتنی ہوشربا ہیں کہ عوام کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ میں نے ہر حکمران اور ہر حکومتی دور کی تحائف کی لٹ مار کی کہانیاں لکھی ہیں۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کسی شخص نے توشہ خانے میں سب سے زیادہ لٹ مچائی تو میرے ذہن میں شوکت عزیز کا نام آتا ہے‘ جو پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیراعظم رہے۔ انہوں نے نو برس کے دوران بیرونِ ملک کے سینکڑوں دورے کیے اور سب سے زیادہ 1126گفٹس وصول کیے‘ جن کی مالیت اُس وقت پچیس کروڑ لگائی گئی تھی۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ یا ماہر موجود نہیں جو کابینہ ڈویژن کو بیرونی ممالک سے ملنے والے تحائف کی اصل مالیت کا اندازہ لگا کر دے جس کی بنیاد پر کُل قیمت کا اندازہ ہو سکے۔ کابینہ ڈویژن کے حکام اسلام آباد میں عام دکانداروں سے اندازہ لگوا کر وزیراعظم یا وزیر کو بتاتے تھے کہ یہ تحفہ اتنے کا ہے‘ آپ اس کا 10 فیصد دے دیں‘ 90 فیصد آپ کا ہوا۔ یوں وہ چند ہزار روپے دے کر تحائف گھر لے جاتے۔
شوکت عزیز کے بعد جنرل مشرف کو سب سے زیادہ تحائف ملے بلکہ ہو سکتا ہے شوکت عزیز سے زیادہ ملے ہوں کیونکہ 2004ء کے بعد جنرل مشرف کے تحائف کا ریکارڈ کابینہ ڈویژن کے پاس موجود نہ تھا۔ سب حیران ہوئے کہ کیا جنرل مشرف نے 2004ء کے بعد بیرونی دورے بند کر دیے تھے یا میزبان کنجوس ہو گئے تھے کہ انہوں نے تحائف دینے بند کر دیے؟ ایسا کچھ نہیں تھا دراصل جنرل مشرف نے 2004ء کے بعد تحائف رپورٹ کرنا بند کر دیے تھے۔ انہوں نے اپنے سٹاف کو ہدایات دے رکھی تھیں کہ اب جو بھی تحائف آئیں وہ جہاز سے سیدھے آرمی ہاؤس پہنچائے جائیں۔ کابینہ ڈویژن کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیا آیا ہے۔ جنرل مشرف کو تحفہ کی کل لاگت کا 10 فیصد دینا بھی مہنگا پڑ رہا تھا۔
شوکت عزیز نے جو لُٹ مچائی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اَن گنت جیولری سیٹ‘ ہیرے جواہرات‘ درجنوں رولیکس گھڑیاں۔ جب شہزادہ چارلس پاکستان آیا تھا تو اس نے مسز شوکت عزیز کو ایک ہینڈ بیگ بطور تحفہ دیا تھا جس کی کابینہ ڈویژن سے صرف تین سو روپے قیمت لگوائی گئی۔ نیپال کے گورنر نے دو سکارف کا تحفہ دیا تو 25روپے فی سکارف اس کی قیمت لگائی گئی۔ اس سے اندازہ کریں کہ باقی تحائف کی کیا قیمت لگائی جاتی ہو گی۔ شوکت عزیز نے تو جراب اور بنیان تک نہیں چھوڑے۔ وہ 25کروڑ روپے مالیت (جو کم از کم تھی) کے گفٹس پاکستان سے جاتے وقت اپنے صندوقوں میں بھر کر لندن لے گئے۔ مشرف کے وزیروں اور سٹاف افسران کو بھی مہنگے گفٹس ملتے رہے۔ سعودی عرب سب سے زیادہ گفٹس پاکستانی حکمرانوں کو دیتے ہیں۔ سعودیوں نے جنرل مشرف کی بیگم کو 70 لاکھ روپے کا جیولری باکس دیا۔ اندازہ کریں کہ یہ 70 لاکھ بھی توشہ خانہ والی قیمت تھی جبکہ اصل قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ اسی طرح جمالی صاحب ہوں‘چودھری شجاعت حسین‘ یوسف رضا گیلانی‘ آصف زرداری اور دیگر سب کو ہیرے جواہرات سے بھرے جیولری باکس اور مہنگے تحائف ملتے رہے۔ نواز شریف کو سعودیوں نے پاکستان واپس بھیجا تو ساتھ مہنگی گاڑیاں بھی دیں جو توشہ خانے میں جمع ہونی چاہئیں تھیں۔ صدر زرداری نے دبئی سے قیمتی گاڑیوں کو بطور تحفہ ظاہر کیا اور اس پر رعایت لی۔ یوسف رضا گیلانی پر ترکش ہار کا کیس سامنے آیا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ نواز شریف‘ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر توشہ خانے کے رولز تبدیل کرنے اور ناجائز فائدے اٹھانے پر مقدمات قائم ہوئے۔ راجہ پرویز اشرف‘ شاہد خاقان عباسی بھی توشہ خانے سے تحائف لے جاتے رہے۔ عمران خان اپنی ہر اپنی تقریر میں یوسف رضا گیلانی کے ترکش ہار پر ہاتھ صاف کرنے کا ذکر کرتے تھے۔ جب عمران خان وزیراعظم بنے تب نواز شریف‘ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانے میں بے ضابطگیوں کے مقدمات قائم تھے۔ خان نے بطور وزیراعظم پہلا بیرونی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا جہاں سعودیوں نے انہیں حسب روایت بہت مہنگے گفٹ دیے جو بعد میں دبئی میں کروڑوں میں بیچے گئے۔ جو مہنگے تحائف عمران خان کو سعودی پرنس نے دیے اس سے پہلے کسی پاکستانی سربراہ کو شاید نہیں دیے گئے ہوں گے۔ عمران خان کو علم تھا کہ ان سے پہلے والے وزیراعظم اور صدر توشہ خانہ سکینڈل کے ابھی تک مقدمات بھگت رہے ہیں بلکہ وہ تو خود ہر ٹی وی انٹرویو اور تقریر میں یاد دلاتے تھے کہ پاکستانی سیاسی اشرافیہ کیسے لوٹ کر کھا گئی ہے۔ ثبوت کے طور پر وہ نواز شریف‘ آصف زرداری اور گیلانی صاحب کا ذکر کرتے تھے۔ جب عمران خان کو علم تھا کہ توشہ خانہ ہر حکمران کے گلے کا پھندا بنتا ہے اور وہ خود توشہ خانہ میں لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف نعرے مارنے میں شریک رہے تھے تو ان کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ عمران خان کیلئے کیایہ موقع تھا کہ ہیرے جواہرات اور رولیکس گھڑیوں کی چمک کا اسی طرح شکار ہو جاتے جیسے جنرل مشرف‘ شوکت عزیز‘ آصف زرداری‘ یوسف رضا گیلانی‘ نواز شریف‘ چودھری شجاعت حسین اور شاہد خاقان عباسی ہوئے تھے یا پھر اس لٹ مار کا حصہ دار بننے سے انکار کر دیتے؟ دنیا میں سب سے مشکل کام Temptation کے خلاف مزاحمت کرنا ہوتا ہے۔ وہ ایک کمزور لمحہ ہوتا ہے جب یا تو آپ اس کا شکار ہو جاتے ہیں یا فاتح بن کر ابھرتے ہیں۔ عمران خان بھی اس چمک کا شکار ہوئے۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں تھا کہ میں نے قانونی طور پر رقم ادا کر کے وہ تحائف رکھ لیے تھے جیسے پہلے حکمران رکھ لیتے تھے۔ ہمارے جیسوں کا یہی تو اعتراض تھا کہ آپ کا نعرہ تھا کہ میں زرداری یا شریف نہیں ہوں‘ اس لیے آپ نے تو ان سے مختلف ہونا تھا۔
جہاں تک توشہ خانہ قانون کی بات ہے تو وہ بائی لاز خود وزیراعظم بناتا ہے اور اس سے فائدے لیتا ہے اور اسے لیگل قرار دے دیتا ہے۔ عمران خان نے بھی اپنے بنائے قانون سے فائدہ لیا۔ بشریٰ بیگم نے بھی وہی روٹ لیا جو جنرل مشرف نے لیا تھا‘ انکی ایک آڈیو لیک میں وہ اپنے سٹاف پر شاؤٹ کر رہی تھیں جس نے ملٹری سیکرٹری کی طرف سے بنی گالہ بھیجے تحائف کی تصویریں لے لی تھیں۔ وہ تحائف اصولی طور پر پہلے کابینہ ڈویژن میں جانے چاہئیں تھے جہاں ان کی قیمت لگوائی جاتی پھر بشریٰ صاحبہ کو بھجوائے جاتے ‘لیکن وہ بغیر کسی ریکارڈ کے بنی گالہ بھیجے گئے۔ خان کے حامیوں کی یہ دلیل بوگس ہے کہ ان سے پہلے حکمران بھی تحائف لے رہے تھے۔ میرے جیسوں کا یہی اعتراض تھا کہ آپ تو خود کو زرداری‘ نواز اور گیلانی سے الگ سمجھتے تھے‘ پھر آپ نے انکا روٹ کیوں اختیار کیا؟ آپ نے تو ان توشہ خانہ قوانین کا خاتمہ کرنا تھا جس سے نواز‘ زرداری نے فائدہ اٹھایا نہ کہ ان سے خود فائدہ اٹھانا تھا۔ یہ باریک راز نہ خان سمجھ سکا نہ ان کا فین کلب سمجھتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں