"RKC" (space) message & send to 7575

32 سال پہلے کا کراچی

کافی دنوں بعد میجر (ر) عامر کا وائس نوٹ ملا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ سمارٹ یا جدید ٹچ فون سے بہت دور تھے۔ بیس سال پہلے کا نوکیا کا ایک بٹنوں والا فون استعمال کرتے تھے۔ انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا یا وٹس ایپ سے دور رہتے تھے۔ کہتے تھے: رئوف بھائی! ہم پرانی نسل کے لوگ ان ''خرافات‘‘ سے دور ہیں۔ انہیں ای میل تک کا بھی علم نہ تھا۔ ایک بار کہنے لگے: میری چھوٹی بیٹی میرا مذاق اڑاتی تھی کہ آپ کہاں سے آئی ایس آئی کے میجر تھے‘ جس کے کریڈٹ پر جاسوسی کے بڑے بڑے کارنامے سننے کو ملتے ہیں۔ آپ کو تو سمارٹ فون تک ہینڈل کرنا نہیں آتا۔ بتانے لگے کہ میں نے اپنی بیٹی سے کہا: میں جس دور میں آئی ایس آئی میں تھا اس وقت کے جدید تقاضوں اور ماڈرن آلات کو سمجھ کر ان سے کام لیا کرتا تھا۔ آج بھی اگر اس کا حصہ ہوتا تو یہ سب کچھ سیکھ لیتا۔ خیر بچوں کے طعنوں کا ان پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے سمارٹ فون‘ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا لہٰذا اب وہ سمارٹ فون استعمال کرنے لگے ہیں اور دھیرے دھیرے سب کچھ سیکھ چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر جو کام انہوں نے سیکھا وہ وَٹس ایپ پر وائس نوٹ بھیجنا ہے‘ لہٰذا اب فون کالز سے زیادہ رابطہ وائس نوٹس پر ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کا فون اب زیادہ تر ان کے پوتے پوتیوں یا نواسوں کے پاس رہتا ہے اور وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں کہ کون فون پہلے استعمال کرے گا۔
کچھ برس پہلے تک میرا بھی یہی حال تھا کہ جدید ٹیکنالوجی سے خود کو دور رکھا ہوا تھا کہ یہ نئی نسل کی چیزیں ہیں۔ ہم شاید ان چیزوں کے لیے نہیں بنے یا پرانے ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی ہم ٹاٹ سکولوں سے پڑھے لکھوں کے دماغ میں سائنس اور ٹیکنالوجی جلدی نہیں بیٹھتی۔ میں تو ان سب سے کوسوں دور رہا ہوں۔ سیدھا سادہ کام ہو‘ جس پر دماغ نہ کھپانا پڑے کیونکہ کھپا بھی لوں تو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ کوئی بھی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ انٹرنیٹ‘ وائی فائی‘ کلپ ڈائون لوڈ‘ کراپنگ‘یا کسی ایپ کا ایشو آتا تو اپنے بچوں کو کہتا کہ یہ چیک کرو۔ وہ میرا فون لے کر اسے ٹھیک کر دیتے‘ یوں کافی عرصہ تک میرا کام چلتا رہا کہ جب بچوں کو سب آتا ہے تو مجھے سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ بعد میں نے محسوس کیا کہ بچے شاید دل میں عزت اور پیار کے باوجود مجھے جدید دنیا میں چٹا اَن پڑھ اور نالائق سمجھتے ہیں‘ جسے ٹیکنالوجی کی چند بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں اور اپنے تئیں سیانا بن کر ہمیں باتیں کرتا رہتا ہے۔ مجھے باپ کا عہدہ خطرے میں محسوس ہوا کہ میں تو اپنے بچوں کی آنکھوں میں نالائق ہوں‘ ٹاٹ سکول کا پڑھا ہوا جو آرٹی فیشل انٹیلی جنس ایج کے دور میں انہیں باتیں سناتا ہے۔ یوں دھیرے دھیرے میری باتوں کا ان پر اثر کم ہونے لگا۔ بات تو سن لیتے لیکن آخر پر کہہ دیتے کہ بابا آپ کو کیا پتا ان چیزوں کا۔ اس دن کے بعد سے میں نے اپنے بچوں کی مدد لینا بند کر دی اور خود سب کچھ سیکھنے کی طرف قدم بڑھا دیا۔ کوئی ایشو ہوا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ذرا بتانا کہ یہ کیسے حل کرنا ہے۔ بچوں نے کہنا: بابا فون ہمیں دیں ہم کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا: نہیں! مجھے بتائو کہ اسے کیسے ٹھیک کرنا ہے‘ آپ صرف بتائو‘ ٹھیک میں خود کروں گا۔ بیٹا اصرار کرتا کہ آپ کو دیر سے سمجھ آئے گی‘ میں جلدی سے ٹھیک کر دیتا ہوں۔ میں جواب دیتا: ناں سوہنڑا! مجھے سمجھائو اور بتائو‘ میں خود کروں گا۔ بادل نخواستہ بیٹا مجھے بتاتا جاتا اور میں کرتا جاتا۔ بیٹا نہ ہوتا تو میں نے گوگل اور یوٹیوب سے وہ مسئلہ سرچ کر کے وہاں سے سیکھ کر فون پر اپلائی کر دیتا۔
ایک دن کچھ دوست گھر پر آئے ہوئے تھے‘ دل کیا کہ ٹی وی پر پرانے انڈین گانے سنیں۔ میں نے موبائل فون کو ٹی وی کے ساتھ لنک کیا اور یوٹیوب سے گانے لگا دیے‘ جو ٹی وی سکرین پر چلنے لگے۔ دوست میری قابلیت پر حیران ہوئے تو جواب دیا: یہ سب بیٹے سے سیکھا ہے۔ اب میں اپنی ضرورت کے سب کام کر لیتا ہوں ورنہ AI‘ گوگل‘ یوٹیوب یا چیٹ جی پی ٹی سے مدد لے لیتا ہوں‘ وہ سب سمجھا دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر‘ میرے بچے بھی اب مجھ سے متاثر ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ ہمارا باپ اتنا نالائق یا نکما نہیں۔ اس سے مجھے خود کو جو اعتماد ملا ہے اس کا تو جواب نہیں۔ پہلے میں خود کو دماغی طور پر بوڑھا اور بیکار سمجھتا تھا کہ یہ دور اب ہمارا نہیں رہا مگر اب میں دوبارہ خود کو جوان اور اس نئے بدلتے معاشرے کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کرنے لگا ہوں۔ مجھے اب سمجھ آ رہی ہے کہ ہم لوگ اگر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہونے والی جدید تبدیلیوں کو سمجھتے اور ان کے ساتھ جڑتے جائیں تو فریش رہتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے فون کے ہر ماہ نئے نئے سوفٹ ویئر اَپ ڈیٹس آتے ہیں اور ہم انہیں ڈائون لوڈ کر کے فون کو نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور فون دوبارہ سے نیا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہم لوگ بھی اپنا سافٹ ویئر مسلسل اپ ڈیٹ کرتے رہیں تو کبھی خود کو بوڑھا یا بور نہ محسوس کریں‘ نہ ہی بڑھاپے میں تنہائی کا شکار ہوں۔ ہم بوڑھے اس وقت ہوتے ہیں جب ہم عمر کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی اور نئے دور کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ اب ہماری عمر اِن کاموں کیلئے نہیں رہ گئی۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہر عمر ہر کام کیلئے ہوتی ہے۔
خیر‘ بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں تک پہنچ گئی۔ بات ہورہی تھی میجر عامر کی‘ جنہوں نے مجھے ایک وائس نوٹ بھیجا۔ وہ اس وقت کراچی میں ہیں جہاں ٹی وی اینکر انیق احمد کے بیٹے کی شادی تھی۔ انیق احمد کے ساتھ میجر صاحب کا بڑا پرانا تعلق ہے۔ میجر صاحب نئے یا پرانے‘ سب تعلقات کی فکر کرتے اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ان سے تعلق بیس دن کا ہو یا بیس سال کا‘ سب کی اہمیت برابر ہے اور روایتی پشتون ہونے کے ناتے وہ سب کیلئے ہر وقت دستیاب اور قربان بھی ہیں۔ وہ شادی میں شرکت کیلئے اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ کراچی چل پڑے۔ بیٹی نے ایک پرائیوٹ ایئرلائن سے یہ کہہ کر بکنگ کرائی کہ وہ بہت اچھی ہے۔ اب جہاز سے لے کر کراچی ایئرپورٹ اور باہر تک کی جو روداد میجر عامر نے وائس نوٹ میں بھیجی ہے وہ سننے کے لائق ہے۔ میجر صاحب کا موڈ اس وقت ہی خراب ہو گیا جب جہاز نے اڑان بھری اور جہاز کا عملہ کچھ کھانے پینے کو دینے کے بجائے ٹرالی پر بسکٹ اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں سجا کر لے آیا کہ بھوک لگی ہے تو خرید لو۔ میجر صاحب نے بیگم صاحبہ کو کہا کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم میاں بیوی طورخم کی بس پر بیٹھ گئے ہیں اوربس میں کوئی کھانے پینے کی چیزیں سواریوں کو بیچ رہا ہے۔ بتیس سال پہلے پی آئی اے پر کراچی جاتے تھے تو جہاز کی کیا شان اور کیا سروس ہوتی تھی۔ اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ فلائٹ میں بسکٹ یا کھانا بیچا جا رہے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ سے نکل کر شہر کی طرف روانہ ہوئے تو ان پر شدید ڈپریشن طاری ہو گیا کہ یہ وہی کراچی ہے جو انہوں نے بتیس سال پہلے دیکھا تھا۔ ہر طرف گند‘ کچرا اور بے ہنگم حالات۔ وائس نوٹ کے آخر میں ان کی درد بھری آواز ابھری کہ اب تو جہاں بھی جاتے ہیں‘ اس ملک کے حوالے سے کوئی نہ کوئی دکھ سامنے کھڑا ملتا ہے۔ کہنے لگے: کراچی ایسا برباد ہو چکا ہے کہ کیا بتائیں۔ بتیس سال پہلے کیسا کراچی تھا اور آج کیسا بن چکا ہے۔ ہم نے اپنے ملک‘ شہروں اور پی آئی اے کے ساتھ کیا کر دیا ہے۔ کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں۔ میجر صاحب کا درد بھرا وائس نوٹ سنتے ہوئے منیر نیازی کا وہ شعر یاد آ گیا:
واپس نہ جا وہاں کہ تیرے شہر میں منیر
جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں