"RKC" (space) message & send to 7575

ہمارا خان اب حیران کیوں ہے؟

حیران ہونے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے اور وہ عمر عبور کرنے کے بعد آپ کیلئے کوئی بات حیران کن نہیں رہ جاتی۔ پھر سب کچھ ایک جیسا ہی لگتا ہے‘ کچھ عجیب وغریب نہیں لگتا۔ وہ کہتے ہیں نا‘ حیرانی بس پہلی بار ہی ہوتی ہے‘ دوسری بار وہ نارمل بات ہو جاتی ہے اور آپ محض ایک نظر ڈال کر گزر جاتے ہیں‘ جب تک کہ کوئی اور حیران کن چیز سامنے نہ آ جائے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ہم سازش کا لفظ ہمیشہ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ہمارا ذہن کسی خاص بات‘ نکتے یا ایشو کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ جہاں ہمارا ذہن رکتا ہے‘ وہیں سے سازش جنم لینا شروع کر دیتی ہے۔ اس سازش اور حیرانی کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔
مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی میں ہمارا ایک دوست تھا جو ہر بات پر حیران ہوتا تھا۔ اس کی حیرانی اتنی بڑھ جاتی کہ ایک دن میں نے تنگ آکر اس کے نام کے ساتھ ''حیران‘‘ کا لاحقہ لگا دیا۔ اکثر یار دوست اس کے نام کے بجائے یہی کہتے کہ وہ ہمارا ''حیران‘‘ کدھر ہے۔ وہ دوست اب بھی ملتا ہے تو اس کو کئی باتوں یا ایشوز پر حیران پاتا ہوں‘ اس پر الٹا میں حیران ہو جاتا ہوں کہ آخر یہ حیرانی ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی‘ ہم بڑے کیوں نہیں ہو جاتے‘ سمجھدار کیوں نہیں بن جاتے۔ پھر سوچتا ہوں کہ حیرانی ختم ہو جائے تو انسان کا ارتقائی سفر رک جائے گا۔ انسان کی حیرانی ہی ہمیں یہاں تک لائی ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ حیرانی اتنی ضروری ہے تو پھر میں آج حیران کیوں نہیں ہوں؟ اس کی وجہ دو خبریں ہیں‘ جن پر مجھے ذرا حیرانی نہیں ہوئی۔ ایک خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں کسی ایم این اے کے پیسے ہال میں گر گئے تو سٹاف نے وہ پیسے اٹھا کر سپیکر ایاز صادق کو دے دیے کہ آپ ممبران سے پوچھ لیں کہ کس کے پیسے گرے ہیں۔ سپیکر ایاز صادق نے مائیک پر اعلان کیا کہ کسی کے پیسے گرے ہیں تو بتا دیں۔ اس پر بارہ ارکانِ اسمبلی نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ ہمارے پیسے گرے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو لگے کہ یہ کون سی بڑی بات ہے‘ 336 کے ایوان میں اگر بارہ لوگوں نے کہا کہ پیسے ہمارے ہیں تو کون سے قیامت آ گئی۔ ویسے تو ہائوس میں کبھی اراکین پورے نہیں ہوتے‘ مشکل سے کورم پورا ہوتا ہے تاکہ سیشن چلتا رہے۔ یہ الگ بات کہ اس ہائوس میں اراکین کی حاضری بائیو میٹرک سے نہیں لگتی‘ تاکہ کچھ غیر حاضر ارکان جعلی طریقے سے اپنی حاضری لگوا کر پانچ‘ دس ہزار روپے فی سیشن الائونس لے سکیں۔ جی ہاں! چند ہزار روپے کیلئے ایوان میں جعلی حاضریاں لگتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ جو رقم گری تھی‘ وہ کتنی تھی لیکن یہ طے ہے کہ چند ہزار کا الائونس لینے کیلئے اگر زیادہ تر اراکین جعلی حاضریاں لگواتے ہیں تو بھلا وہ ان پیسوں کیلئے ہاتھ کیوں نہ کھڑا کرتے؟ انہی کے بارے میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ترقیاتی فنڈز میں سے تیس فیصد تک کمیشن تو یہ اراکین کھا جاتے ہیں‘ لہٰذا چند ہزار روپوں کیلئے بارہ ارکانِ اسمبلی کے ہاتھ کھڑا کرنے پر حیرانی کیسی۔
دوسری خبر یہ ہے کہ عمران خان کو غدار اور سکیورٹی رِسک قرار دیے جانے پر پی ٹی آئی والے فاطمہ جناح کی مثال پیش کر رہے ہیں کہ انہیں بھی ایوب خان دور میں غدار کہا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ غدار‘ غدار پاکستان کا پرانا سیاسی کھیل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی سکیورٹی رِسک قرار پائے تھے‘ بینظیر بھٹو کو بھی سکیورٹی رِسک سمجھا گیا۔ جب انہوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو پاکستان بلایا اور دونوں ملکوں کے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کی تو ان کی یہ کوشش جنرل اسلم بیگ کی قیادت میں ناکام بنا دی گئی تھی۔ سابق بھارتی وزیراعظم اے کے گجرال نے اپنی خود نوشت میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس کے مطابق جب بینظیر بھٹو راجیو گاندھی کے قتل کے بعد نئی دہلی افسوس کرنے گئیں تو ان کی ملاقات گجرال صاحب سے بھی ہوئی۔ بینظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں تو گجرال اس وقت بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے بینظیر بھٹو سے گلہ کیا کہ آپ نے اپنے وزیر خارجہ یعقوب خان کو یہ دھمکی دے کر بھارت بھیجا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایٹم بم کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ بینظیر بھٹو حیرانی میں ڈوب گئیں اور کہنے لگیں کہ کوئی فاتر العقل شخص ہی اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے بھارت کو ایٹم بم کی دھمکی بھیجے گا۔ ان کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ یعقوب خان کو جنرل اسلم بیگ نے یہ ہدایات دی تھیں جو بینظیر بھٹو کے نام سے بھارتی وزیر خارجہ تک پہنچائی گئیں۔ یہی حال نواز شریف کا ہوا! جب واجپائی لاہور آئے تو چند ماہ بعد جنرل پرویز مشرف کارگل پر چڑھ دوڑے۔ بعد ازاں نواز شریف نے انہیں برطرف کیا تو پرویز مشرف نے انہیں گرفتار کر کے دہشت گردی کے الزام میں چودہ سال قید کی سزا دلوا دی کہ میرا طیارہ اغوا کرا رہے تھے۔ بعد میں ہمارے دوست سہیل وڑائچ نے ایک کلاسیک کتاب لکھی ''غدار کون؟‘‘۔ اب عمران خان کے حامیوں کو شکایت ہے کہ ان کے لیڈر کو یہ ٹائٹل دیا جا رہا ہے۔ آج کل وفاقی وزیر احسن اقبال کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی بھرپور وکالت کرتے پائے جا رہے ہیں‘ جنہیں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں پاکستان کا غدار قرار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ غدار غدار کا کھیل وہ سب خود بھی کھیلتے رہے ہیں‘ جو آج اس کا شکار ہیں۔
اگر بھٹو صاحب سکیورٹی رِسک قرار دے کر ایک کیس میں پھانسی لگا دیے گئے تو وہ بھی بلوچ اور پختون قوم پرستوں کے ساتھ یہی کچھ کرتے رہے تھے۔ بلوچستان اور سرحد (خیبر پختونخوا) کی حکومتیں برطرف کی گئیں۔ شیخ مجیب کے بارے بھی میں بھٹو کی یہی رائے تھی۔ بھٹو ہی نے عطا اللہ مینگل اور دیگر کو جیل میں ڈالا تھا۔ وہ سب بھٹو صاحب کے نزدیک سکیورٹی رِسک تھے۔ نواز شریف بھی بینظیر بھٹو کے خلاف یہی نعرہ لے کر نکلے تھے کہ بھٹو خاندان سکیورٹی رِسک ہے۔ پھر انہی نواز شریف کے خلاف یہ نعرہ عمران خان نے لگایا ۔ اُس وقت عمران خان جنرل پرویز مشرف کے پولنگ ایجنٹ تھے‘ جب وہ نواز شریف کو غدار ڈکلیئر کر کے چودہ برس کی سزا سنا چکے تھے۔ آنے والے برسوں میں جنرل پاشا‘ جنرل ظہیر الاسلام کے فیض کی خاطر وہ نواز شریف کیلئے مودی کا یار اور غدار کے نعرے لگواتے رہے۔ یہ الگ بات کہ وزیراعظم بننے کے بعد خود عمران خان بار بار یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ وہ مودی کو فون کرتے ہیں تو وہ ان کا فون نہیں اٹھاتا۔ آج جب عمران خان خود غدار کے الزام کا سامنا کر رہے ہیں تو ان کی پارٹی گلہ کر رہی ہے کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا آیا ہے کہ جو بھی مقتدرہ کے خلاف کھڑا ہوتا ہے‘ اسے غدار قرار دے دیا جاتا ہے‘ لہٰذا آج جب عمران خان بھی اس قطار میں کھڑے ہو گئے ہیں تو اس میں بھلا حیرانی کی کیا بات ہے۔ ہاں! حیرانی کی بات یہ ہے کہ اب بھی عمران خان اپنے مخالفین کو غدار قرار دیتے ذرا جھجک نہیں کرتے۔ وہ جنرل باجوہ کو بھی میر جعفر اور میر صادق کہتے رہے ہیں۔ ہر وہ بندہ جو عمران خان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتا یا ان سے وفاداری کے تحت اپنے پورے خاندان کو ان کی ذات پر قربان نہیں کر دیتا وہ ان کے نزدیک غدار ہے۔ مزے کی بات ہے کہ جس دن پریس کانفرنس میں انہیں سکیورٹی رِسک قرار دیا گیا اس سے دو دن پہلے وہ اپنی پارٹی کے چھ ایم این ایز کو این ڈی یو میں کورسز میں شرکت کرنے پر میر صادق اور میر جعفر کا لقب دے کر غدار ڈکلیئر کر چکے تھے۔ میں حیران ہوں کہ ہمارا لاڈلا خان خود کو غدار کہے جانے پر حیران کیوں ہے۔ اپنے ناپسندیدہ افراد کیلئے ان کے تو موسٹ فیورٹ الفاظ ہی یہ تین ہیں: میر جعفر‘ میر صادق اور غدار۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں