اگر عمران خان اور مقتدرہ کی لڑائی کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ لڑائی اقتدار اور اختیارات کی ہے۔ عمران کو اقتدار چاہیے تو مقتدرہ کو اختیار۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
میں ماضی میں بھی لکھ چکا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات لینے کے کھیل میں ہمارے اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان جو لڑائی پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد شروع ہوئی تھی‘ وہ اب خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ مراحل تو ماضی میں بھی خطرناک رہے ہیں‘ جن میں سیاستدانوں کی جان تک چلی گئی‘ یا بات جلاوطنی تک جا پہنچی۔ بھٹو صاحب اور جنرل ضیا میں یہی کچھ ہوا تھا اور بھٹو صاحب پھانسی لگ گئے۔ وجہ وہی اختیارات اور اقتدار کا ایشو تھا۔ جنرل ضیا کے بعد یہی صورتحال نواز شریف اور جنرل مشرف کے درمیان پیدا ہوئی۔ سیاستدان اگر اقتدار کیلئے ہر حربہ آزمانے پر تلے رہتے تو جرنیل بھی مزید اختیارات کیلئے سپیس مانگتے جاتے۔ اگر یاد ہو تو جنرل جہانگیر کرامت اسی وجہ سے 1998ء میں گھر چلے گئے تھے کہ انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل مانگ لی تھی جس میں فوجی قیادت کی بات سنی یا مانی جائے۔ مقتدرہ کو محسوس ہو رہا تھا کہ نواز شریف کے دور میں انکی سپیس کم ہو گئی یا ان کی بات کی اہمیت نہیں تھی‘ یوں ٹکراؤ ہوا کیونکہ جنرل جہانگیر کرامت اختیارات چاہتے تھے مگر انہیں گھر جانا پڑا حالانکہ جب نواز شریف نے انہیں بلایا تھا تو وہ پوری وضاحت پیش کرتے بلکہ انہیں قائل کرتے کہ سکیورٹی کونسل کی ضرورت کیوں ہے۔ الٹا وہ استعفیٰ دے گئے۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ وقتی طور پر اگر سویلین قیادت نے اپنی بات منوائی اور جنرل جہانگیر کرامت کو گھر بھیجا تو بھی مقتدرہ میں یہ سوچ ختم نہیں ہوئی بلکہ انکے بعد آنیوالے آرمی چیفس نے اپنے سابق چیف کی بات کو عملی جامہ پہنایا اور نیشنل سکیورٹی کونسل کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ وہی نواز شریف جو فوج کے ان اختیارات کے خلاف تھے‘ وہی پچھلے دنوں اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈال رہے تھے جس کے تحت سی ڈی ایف کے تحت نئی پاورز مقتدرہ کو دی گئی ہیں۔ جنرل جہانگیر کرامت سے ایک تجویز پر استعفیٰ لیا گیا‘ اب اس سے آگے بڑھ کر بہت کچھ دے دیا گیا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کا مسئلہ رہا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کیساتھ بیٹھ کر ڈیل کرنے کے بجائے مقتدرہ کی مدد سے ایک دوسرے کو فکس کیا اور کرتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف 1988ء سے 2002ء تک لڑتے رہے۔ ایک دوسرے پر مقدمے کرتے اور جیلوں میں ڈالتے رہے۔ کبھی مقتدرہ نواز شریف کیساتھ مل کر بینظیر بھٹو کو برطرف کراتی تھی تو کبھی بینظیر بھٹو یہی کام نواز شریف کیخلاف کرتی رہیں۔ بینظیر بھٹو کی باری جنرل اسلم بیگ تھے تو نواز شریف کی برطرفی کی دفعہ جنرل عبدالوحید کاکڑ۔ دو جرنیل لیکن دونوں مختلف مواقع پر مختلف سیاستدانوں کے خلاف کھڑے تھے۔ اگرچہ جنرل کاکڑ کو اس بات کا کریڈٹ دینا ہوگا کہ وہ سیاسی جنرل نہیں تھے‘ نہ انہیں اختیارات درکار تھے۔ وہ ایک صورتحال میں پھنس گئے جب نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان اختیارات کی لڑائی شروع ہوئی اور بینظیر بھٹو کو موقع ملا کہ وہ نواز شریف سے1990ء میں اپنی حکومت توڑنے کا بدلہ لیں۔ بینظیر بھٹو کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ نواز شریف کی اس پیشکش کا فائدہ اٹھاتیں کہ مل کر چلتے ہیں۔ انہوں نے صدر غلام اسحاق خان کیخلاف اتحاد کیلئے حمایت مانگی تھی‘ اسکے بدلے وہ بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف مقدمات ختم کرنے اور دیگر رعایتیں دینے پر تیار تھے‘ لیکن بینظیر بھٹو کو لگا کہ اگر وہ نواز شریف کی حمایت کرتی ہیں تو انہیں اقتدار میں فوراً واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔ نواز شریف کو مزید دو سال وزیراعظم برداشت کرنا ہو گا جبکہ صدر غلام اسحاق کیساتھ مل کر نواز شریف کی چھٹی کرانے سے ایک تو انتقام پورا ہو گا‘ اوپر سے حکومت مل جائے گی۔ بی بی نے لانگ ٹرم کے بجائے انتقام اور اقتدار کو ترجیح دی۔ بینظیر بھٹو کو یہ بات سمجھنے میں دس سال لگے کہ انہیں 1993ء میں نواز شریف کی بات مان لینی چاہیے تھی؛ چنانچہ وہ آصف زرداری کیساتھ نواز شریف سے ملنے جدہ گئیں جو اس وقت وہاں جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ اندازہ کریں کہ پاکستانی سیاستدان کن حالات سے گزر کر ایک دوسرے سے صلح کرتے ہیں۔ جو کام 1993ء میں ہو سکتا تھا وہ دس سال بعد ہوا۔ اس وقت بینظیر بھٹو دبئی میں جلاوطن تھیں اورجلاوطنی کی وجہمارچ/اپریل 1999ء میں نواز شریف حکومت کے بنائے گئے مقدمات تھے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو اگر صلح کا خیال آیا تو وہ بھی جلاوطنی میں آیا۔ پھر لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے گئے۔ پہلے نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے سبق سیکھے اور اب آصف زرداری اور شریفوں کے درمیان معاہدے ہوئے تو مقتدرہ کو فکر ہوئی کہ اگر سیاستدان اکٹھے ہوتے ہیں تو انکے اختیارات خطرے میں پڑ جائیں گے‘ یوں درمیان میں عمران خان کو لانچ کیا گیا۔ اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے خان کی حمایت شروع کی۔ اُن کی پارٹی کھڑی کرنے کیلئے چند تگڑے کاروباریوں سے چندہ دلوایا گیا‘ بقول چوہدری پرویز الٰہی اُن کی پارٹی کے بندے توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کرانے والے جنرل شجاع پاشا تھے۔ جنرل پاشا گئے تو جنرل ظہیرالاسلام نے معاملہ آگے بڑھایا اور عمران خان جلوس لے کر اسلام آباد پہنچے۔ اب اس میں کوئی راز نہیں رہا کہ جنرل ظہیر ہی سب سپورٹ دے رہے تھے بلکہ انہوں نے تو ایک کاروباری شخصیت کو نواز شریف کے پاس بھی بھیجا تھا کہ انہیں کہو استعفیٰ دے دیں۔ وہ تو مارشل لاء لگانے کے حق میں تھے لیکن جنرل راحیل شریف نہیں مانے‘ بلکہ بعض کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ‘ جو تب کور کمانڈر تھے‘ انہوں نے بھی ایک اجلاس میں مخالفت کی تھی اور شاید بعد میں یہی وجہ ان کے نواز شریف کے ہاتھوں آرمی چیف بننے کی تھی۔ یہ الگ کہانی ہے۔ جنرل ظہیر الاسلام کے نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو لانے کے پرانے خواب کی تعبیر جنرل باجوہ نے پوری کی۔ یوں عمران خان کو آگے لایا گیا اور اسے کھل کر سپورٹ دی گئی۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ان جرنیلوں یا میڈیا کی سپورٹ کے بغیر ابھرا تھا تو وہ بھول جاتے ہیں کہ جب خان نے 1996ء میں پارٹی لانچ کی اور 1997ء میں الیکشن لڑا تو اس سے پہلے وہ ورلڈ کپ بھی جیت چکے تھے اور کینسر ہسپتال بھی بنا چکے تھے مگر پارٹی ایک سیٹ بھی نہ جیت سکی تھی بلکہ اپنی سیٹ بھی نہ جیت سکے۔ اس کے بعد 2002ء کے الیکشن میں صرف اپنی سیٹ میانوالی سے جیتی اور یہ بھی سنا ہے کہ مشرف نے کچھ مدد کی کہ چلیں خان ان کا وردی کے ساتھ صدارتی ریفرنڈم میں سپورٹر اور ایک طرح سے پولنگ ایجنٹ بنا رہا تھا۔ عمران خان بھی مشرف کے دشمن 2002ء میں اس وقت بنے جب انہیں وزیراعظم نہیں بنایا گیا۔ میں لندن میں تھا جب عمران خان نواز شریف کو کہنے آئے تھے کہ آپ پاکستان واپس آئیں اور اکٹھے مشرف کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ بہرحال جنرل باجوہ اگر تین سالہ مدتِ ملازمت میں توسیع کے چکر میں نہ پڑتے تو حالات بہت مختلف ہو سکتے تھے۔ جنرل فیض حمید پر ہر قیمت پر آرمی چیف بننے کا جنون سوار نہ ہوتا تو بھی شاید حالات کچھ اور ہوتے۔ عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو بھی آج ہماری دنیا مختلف ہوتی۔
سیاستدانوں اور مقتدرہ کے درمیان زیادہ سے زیادہ اختیارات اور اقتدار کی لڑائی نے یہ حالت کر دی ہے کہ ایک دوسرے کو ذہنی مریض اور غدار کہا جا رہا ہے۔ ملکی تاریخ کا ایک ہی سبق ہے کہ جب جب مقتدرہ نے زیادہ سے زیادہ اختیارات کا لالچ کیا یا سیاستدانوں نے اقتدار کیلئے اپنی روح تک کا سودا کیا‘ دونوں نے ہی بھاری قیمت ادا کی۔ اب کی دفعہ دیکھتے ہیں نقصان کس کا زیادہ ہوتا ہے‘ مقتدرہ کا یا سیاستدانوں کا۔ میرا خیال ہے دونوں کا ہو گا۔