پارلیمنٹ ایک دلچسپ جگہ ہے‘ جہاں اکثریتی ارکان نہ ہائوس میں آتے ہیں نہ کمیٹی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں لیکن قسمت کا کھیل دیکھیے کہ اس کے باوجود ان کو چھ سات لاکھ روپے تنخواہ‘ مفت ہوائی ٹکٹ‘ بمعہ خاندان سرکاری پاسپورٹ‘ جس پر پچاس ساٹھ ممالک میں آن آرائیول ویزہ مل جاتا ہے‘ مفت میڈیکل‘ سیشن کا روزانہ الائونس‘ قائمہ کمیٹی اجلاس کا الگ الائونس‘ عالمی دورے اور ان دوروں میں ٹی اے ڈی اے جیسی سہولتیں ملتی ہیں۔ بھلے آپ سیشن میں نہ جائیں‘ کوئی نہ کوئی ممبر دوست آپ کے غیرحاضر ہوتے ہوئے بھی حاضری رجسٹرڈ پر آپ کی حاضری لگا دے گا تاکہ آپ دس ہزار الائونس سے محروم نہ ہوں۔ کمیٹی اجلاس کے الائونس کی انہیں اتنی فکر ہوتی ہے کہ ایک دفعہ ایک کمیٹی اجلاس میں زُوم لنک پر چار ایم این ایز بحرین سے کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے‘ اپنے نام بتائے تاکہ اسمبلی سٹاف سن لے‘ ان کی حاضری لگ جائے اور انہیں میٹنگ الائونس مل جائے۔ ایک کمیٹی اجلاس کی بات ہے کہ بیرونِ ملک سے ایک ممبر ایئرپورٹ کے راستے میں تھے‘ انہوں نے وہیں سے زوم لنک پر جوائن کیا اور سارا راستہ خاموشی سے کیمرے میں دیکھتے رہے۔ ہم اس کیمرے کی وجہ سے اُس ملک کے خوبصورت مناظر کا نظارہ کرتے رہے۔ وجہ وہی تھی کہ الائونس نہ مارا جائے۔ ایک ممبر عراق میں تھے‘ وہیں سے کچھ دیر زوم لنک پر رہے‘ جب اندازہ ہوا کہ حاضری لگ گئی ہے تو کہا کہ اچھا! اب میں چلتا ہوں۔ ان سب واقعات کا میں عینی شاہد ہوں۔ میں اُس وقت ان اجلاسوں میں موجود تھا جب زُوم لنک پر یہ حضرات چند منٹوں کیلئے جوائن کرتے رہے اور پھر یہ کہہ کر آف ایئر ہو جاتے کہ فلاں جگہ جانا ہے یا فلائٹ پکڑنی ہے۔ یہ سب میرا آنکھوں دیکھا ہے۔ جب پارلیمنٹ ہائوس سے سینکڑوں میل دور‘ اپنے گائوں یا حلقے میں بیٹھ کر پانچ دس ہزار کیلئے جعلی حاضریاں لگوائی جا رہی ہوں تو پھر اندازہ کیا سکتا ہے کہ ہم کس سطح کی لیڈرشپ پارلیمنٹ میں بھیج رہے ہیں۔ اب کوئی یہ نہ کہے کہ عمران خان کے دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت بھی یہ بہت ہوتا تھا۔ وہ بھی نواز شریف کی طرح چھ چھ ماہ پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے‘ جیسے آج کل شہباز شریف بھی نہیں جاتے۔ جب وزیراعظم خود پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لیتا تو پھر ممبران بھی دلچسپی کھو دیتے ہیں اور یوں پارلیمنٹ ایک بے کار فورم بن کر رہ جاتا ہے‘ جس پر تین چار ارب روپے کا خرچہ ہوتا ہے۔ البتہ اپنی تنخواہ‘ مراعات یا الائونسز لینا کوئی نہیں بھولتا‘ چاہے پارلیمنٹ جائے یا نہ جائے۔ اس معاملے میں سب متحد ہے۔
اس وقت مجھے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے توسط سے چیئرمین سی ڈی اے کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ وہ کم از کم پورے اسلام آباد کیساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ اس وقت پورا اسلام آباد کچرے اور گندگی سے بھرا ہوا ہے‘شرمیلا فاروقی صاحبہ نے پارلیمنٹ لاجز میں صفائی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ایک کمینی سی خوشی ہوئی اور دل شاد ہوا کہ اب ہمارے حکمران اور اراکین اسمبلی بھی اس بدترین صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ شرمیلا فاروقی نے چیئرمین سی ڈی اے کو کہا کہ اس وقت جتنی بری حالت صفائی اور سکیورٹی کی پارلیمنٹ لاجز میں ہے‘ وہ تو اس پر حیران ہیں کہ ممبران وہاں کیسے رہتے ہیں۔ وہ نئی نئی وہاں شفٹ ہوئی ہیں اور حیران رہ گئیں کہ یہ معیار ہے پارلیمنٹ لاجز کا‘ جہاں ہر طرف گند ہے‘ صفائی نام کی کوئی چیز نہیں۔ کھڑکیاں دروازے ٹوٹے ہوئے ہیں‘ لفٹس خراب ہیں۔ ہر طرف آوارہ گرد لوگ نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو ان لوگوں کو دیکھ کر ڈر گئیں۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ فلاں کے مہمان ہیں۔ یہ پارلیمنٹرینز کی رہائش گاہ ہے مگر عجیب حالات ہیں۔ شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ اگر ان جیسی دبنگ خاتون وہاں اس طرح کا ہجوم دیکھ کر ڈر گئی تو آپ اندازہ کریں کہ باقی خواتین ممبران کا کیا حال ہوتا ہو گا۔
اسی طرح کی ایک کمینی خوشی اس وقت ہوئی جب پیپلز پارٹی کے ایم این اے نبیل گبول نے چیئرمین سی ڈی اے سے کہا کہ آپ من موجی انسان ہیں‘ آپ کا موڈ ہو تو فون اٹھا لیتے ہیں‘ میں نے تو تین چار دفعہ فون کیا مگر اٹھایا ہی نہیں گیا۔ اس بات پر سی ڈی اے چیئرمین یقینا داد کے مستحق ہیں کہ اگر وہ اسلام آباد کے شہریوں کو خاطر میں نہیں لاتے تو پروا وہ لیاری سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے نبیل گبول کی بھی نہیں کرتے۔ کم از کم وہ اس معاملے میں سب کیساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ بہت جارحانہ انداز میں ایشوز اٹھاتے ہیں۔ وہ ان ممبران میں سے ہیں جو تیاری کے ساتھ کمیٹی اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ وزیر ہوں یا بابوز‘ حتیٰ کہ اپنے ساتھی کمیٹی ممبران کے ساتھ بھی وہ کوئی رعایت نہیں کرتے۔ انہوں نے بھی چیئرمین سی ڈی اے اور آئی جی پولیس اسلام آباد پر طنز کے خاصے تیر برسائے لیکن داد دیں چیئرمین سی ڈی اے کو کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آغا رفیع اللہ نے ہی ایک بہت سنجیدہ ایشو داخلہ کمیٹی میں اٹھایا تھا کہ ٹھیکیدار پارلیمنٹ لاجز ورکرز کو سرکاری اجرت سے کم پیسے دے رہا ہے۔ اس وقت وفاق میں کم از کم اجرت 37 ہزار ہے لیکن وہاں کا ٹھیکیدار‘ جسے سی ڈی اے نے کنڑیکٹ دے رکھا ہے‘ وہ آدھے پیسے خود رکھ لیتا ہے اور ورکرز کو بیس‘ پچیس ہزار تنخواہ مل رہی ہے۔ سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ وہ تو ٹھیکیدار کو پورے پیسے دے رہے ہیں‘ یعنی ٹھیکیدار جانے اور ورکرز جانیں‘ ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ سوچتا ہوں کہ سی ڈی اے چیئرمین کی تنخواہ‘ جو چار لاکھ روپے ہے‘ اگر انہیں اکائونٹنٹ جنرل کا کلرک یا سی ڈی اے کا ڈائریکٹر فنانس دو لاکھ روپے دے تو کیا وہ قبول کر لیں گے؟ جو بات اپنے لیے برداشت نہیں کی جا سکتی‘ وہ سی ڈی اے کیسے ان ورکرز اور مزدورں کے بارے میں برداشت کر رہا ہے کہ ٹھیکیدار سرکار سے تو پوری تنخواہ لے لیکن آدھی خود رکھ لے۔ سی ڈی اے چیئرمین اسلام آباد کمشنر کا عہدہ بھی رکھتا ہے۔ یہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورے شہر میں چیک کرے کہ ورکرز کو کم از کم تنخواہ دی جا رہی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں دی جا رہی تو لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ان مالکان کے خلاف کارروائی کرے۔ لیکن وہی بات کہ جس تن لاگے سو تن جانے۔
ایک اور لطیفہ سن لیں۔ سی ڈی اے حکام نے بڑے فخر سے بتایا کہ وہ بلیو ایریا میں نئی فوڈ سٹریٹ کھولنے لگے ہیں۔ ان افسران کی سوچ اور وژن کا اندازہ کریں کہ بلیو ایریا اس وقت باقی شہر کی طرح بدترین حالت میں ہے‘ صفائی کا کوئی تصور تک نہیں۔ گاڑی پارکنگ چھوڑیں‘ وہاں اب پیدل چلنے کی بھی جگہ نہیں رہی۔ جگہ ہے نہیں لیکن وہاں اب نئی فوڈ سٹریٹ بنے گی۔ یہ بابوز قصداً ایسے منصوبے بناتے ہیں‘ اپنی چونچیں گیلی کرتے ہیں اور پھر اگلی منزل کو نکل جاتے ہیں‘ جو بقول خواجہ آصف آج کل پرتگال ہے‘ جہاں سرکاری بابوز شہریت اور جائیدادیں لے رہے ہیں۔ ہمارے شہروں کے حسن کو برباد کر کے اب یہ پرتگال کے حسن سے لطف اندوز ہوں گے۔ حیران ہوتا ہوں کہ یہ سب جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو ان کا دل نہیں کرتا کہ ہمارے شہر بھی بارسلونا‘ پیرس‘ روم‘ لندن اور واشنگٹن کی طرح خوبصورت ہوں؟ اگر کوئی غیر ملکی سیاح اسلام آباد کی سیر کو نکلے تو جناح سپر سے آبپارہ‘ ایف ٹین‘ جی ٹین سب مارکیٹوں میں گند‘ کچرا یا ٹوٹے پھوٹے فٹ پاتھ اور بے دریغ درختوں کی کٹائی دیکھ کر کیا سوچے گا؟ سی ڈی اے افسران یہ بات کیوں نہیں سوچتے؟ وہ پرتگال کا ضرور سوچیں لیکن جس سونے کی چڑیا سے یہ سب بہاریں ہیں‘ ذرا اس کا بھی خیال کریں۔ یہاں سوال بنتا ہے کہ حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ممبران کمیٹی میں کیا کرتے ہیں؟ نواز لیگ کے ایک ممبر ہیں‘ جو پرانے پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ نیشنل پولیس فائونڈیشن سکینڈل میں بھی ان کا نام آیا۔2011ء میں سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے نے پکڑا‘ پھر سیٹلمنٹ ہوئی اور اب بھی رئیل اسٹیٹ کا کام کرتے ہیں۔ سو اندازہ لگا سکتے ہیں وہ سی ڈی اے سے کیا چاہتے ہوں گے۔