اللہ کی دنیا میں اس وقت دو میدان ایسے ہیں جو جدید ترین ہیں۔ ان میدانوں کی سائنس آج کے زمانے کی ''اوجِ ثریا‘‘ پر ہے‘ یعنی کمال کی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ پہلا میدان سرن لیبارٹری کا ہے اور آج کالم میں یہی زیر بحث ہے۔ یہ لیبارٹری فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں ایٹم سے چھوٹے ذرات الیکٹران‘ پروٹان اور نیوٹران سے بھی چھوٹے ذرات کو دریافت کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں ''ڈبلیو بوزون‘‘ (W Boson) نامی ذرہ دریافت کیا گیا ہے۔ یہ ذرہ سرن لیبارٹری کےDetector میں ظاہر تو ہوتا ہے مگر فوراً غائب ہو جاتا ہے۔ جس ذرے میں یہ منتقل ہوتا ہے اس کا نام نیوٹرینو (Neutrino) ہے۔ نیوٹرینو کا حال بھی یہ ہے کہ وہ بنتا ہے اور ڈِٹیکٹر سے غائب ہو جاتا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ ڈارک میٹر سے مل کر بنا ہو۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ایک الگ سائنس ہے‘ جس پر سرن ایل ایچ سی یعنی Large Hadron Collider میں ریسرچ جاری ہے۔
ڈبلیو بوزون کی دریافت کو عالمی سطح پر ایک بڑی سائنسی پیشترفت کہا جا رہا ہے۔ اس سے یہ پتا چلے گا کہ ہماری مادی دنیا میں اس ذرے کا کردار کیا ہے؟ ہماری کائنات کی بناوٹ میں اس ذرے کا کیا حصہ ہے اور کیسا ہے؟ ہم اہلِ پاکستان کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سائنسدان بھی سرن لیبارٹری کا حصہ ہیں۔ موجودہ جو دریافت ہے‘ اس میں لیبارٹری کے 100 فٹ نیچے‘ جہاں مذکورہ ریسرچ کا رزلٹ آیا‘ وہاں پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا ہے۔ یہ اس اعزاز میں کہ وہاں ہمارے پاکستان کے جواں سال سائنسدانوں جناب بلال کیانی‘ انصر اقبال اور محمد احمد کا بھرپور حصہ اور کردار رہا ہے۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز کی ایسی کامیابیوں اور کامرانیوں کو میڈیا میں نمایاں کرنے کا کلچر ہمارے ہاں ابھی پیدا نہیں ہوا۔ ہماری اسمبلیوں میں دھمکیوں‘ لڑائی مارکٹائی اور گالم گلوچ کا کلچر ہے۔ میڈیا اسی کے چسکے لیتا اور اسے پھیلاتا ہے۔ تعلیم اور سماجی بہتری پر گفتگو اور عرق ریزی کے ساتھ معاشرے کی بھلائی اور بہتری کی تجاویز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ ملک اور معاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں معاش کی بنیاد سائنسی ہو۔
الیکٹران بھی ایک ذرہ ہے جب یہ دریافت ہوا تھا تو اسی سے الیکٹریسٹی یعنی بجلی وجود میں آئی تھی۔ آج ہمارے گھروں میں الیکٹرک کا جو سامان ہے‘ وہ پنکھا ہو یا اے سی‘ مسجد کا لائوڈ سپیکر ہو یا فریج‘ واشنگ مشین ہو یا استری‘ الغرض یہ سب اسی ذرے کی دریافت کے مرہونِ منت ہیں۔ اب تو الیکٹرک کاریں‘ موٹر سائیکلیں‘ ریل گاڑیاں بھی مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔ ہوائی جہاز تک الیکٹرک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سب ایک ذرے کی وجہ سے ہے‘ جس کا نام الیکٹران ہے۔ ہمارا موبائل بھی اسی سے چارج ہوتا ہے تو ہمارا نظام زندگی چل رہا ہے۔ آج جو ذرات دریافت ہو رہے ہیں‘ یہ بھی ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ جب ہگز بوزون (Higgs boson) دریافت ہوا تو اسے ''خدائی ذرہ‘‘ (The God Particle) کہا گیا۔ پھر نیوٹرینو اور دیگر کئی ذرات دریافت ہوئے‘ اب ڈبلیو بوزون دریافت ہوا ہے۔ دیکھیے آگے چل کر نیوٹران کی طرح کون سا ذرہ دریافت ہوتا ہے جو ہماری زندگیوں میں الیکٹران سے کہیں آگے بڑھ کر ایسا کردار ادا کرے کہ ہم الیکٹران سے بننے اور چلنے والی مصنوعات کو اس طرح بھول جائیں کہ وہ مستقبل میں فرسودہ قرار پائیں اور نئی ٹیکنالوجی جسے آج کی نوخیز نسل دیکھے‘ وہ ترقی کی ایسی معراج ہو کہ سائنس کا ایک جدید باب روشن ہو جائے۔
ہم اپنے جسم پر غور کریں کہ قرآنِ مجید بار بار انسان کو اپنی تخلیق پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مُور (Keith L. Moore) کی ایک کتاب میرے سامنے آئی جس کا نام The Developing Human ہے۔ اس کتاب کے اب تک دس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہاں پھر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ہمارے ہاں کتابوں کی اہمیت بہت حد تک ختم ہو چکی ہے اور تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ دنیا میں اخبارات بھی خوب چھپتے ہیں اور کتابیں بھی خوب بکتی ہیں۔ حالانکہ سمارٹ فون کی ٹیکنالوجی اُدھر ہی سے ہمارے پاس آئی ہے مگر اس کے باوجود ان کا کتاب سے مضبوط تعلق ہے۔ قلم اور کتاب کے ذریعے علم محفوظ رہتا ہے‘ یہ ایک لازوال حقیقت ہے۔ کتاب پر لکھا ہیک نہیں ہو سکتا‘ انٹرنیٹ پر موجود ہر شے ہیک ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی تو آخری الہامی کتاب کے نزول کا آغاز ''اقراء‘‘ سے نہیں کیا۔ قلم کا ذکر ایسے تو نہیں فرمایا۔ آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں فرمایا: (اس رب کے نام سے پڑھیے) جس نے (انسان کو) قلم کے ذریعے سے (علم) سکھایا۔ اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا‘‘ (العلق: 4 تا 5)۔ حضور نبی کریمﷺ آخری رسول ہیں۔ آپﷺ پر آنے والا الہام قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔ جی ہاں! انٹرنیٹ سے فائدہ ضرور اٹھائیں مگر قلم اور کتاب کو فراموش نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری نسلیں ہاتھ میں قلم پکڑنا ہی بھول جائیں‘ لکھنا تو بعد کی بات ہے۔
ڈاکٹر کیتھ مور کی کتاب بتاتی ہے کہ انسان جس خلیے سے بنا ہے‘ اس کا ڈی این اے تمام زندہ مخلوقات سے الگ‘ منفرد اور ممتاز ہے۔ یہی بات قرآن مجید کی ''سورۃ التین‘‘ میں بیان ہوئی ہے کہ ''ہم نے انسان کو اَحسن تقویم میں پیدا کیا ہے‘‘۔ مرد اور عورت کے دو خلیات جب آپس میں ملتے ہیں تو قرآن انہیں ''نطفہ امشاج‘‘ قرار دیتا ہے۔ انگریزی میں اسے Zygote کہا جاتا ہے۔ مرد کے خلیے میں بھی 23 کروموسومز ہوتے ہیں اور عورت کے خلیے میں بھی 23 کروموسومز ہوتے ہیں۔ یہ سب مل کر جب Zygote بنتے ہیں‘ تو ماں باپ ہی نہیں‘ ماں کی نسلوں اور باپ کی اوپر کی نسلوں کی تمام خصوصیات وراثتی طور پر زائیگوٹ میں جمع ہو جاتی ہیں۔ قرآن مجید کی ایک سورہ مبارکہ ہے جس کا نام ''سورۃ المؤمنون‘‘ ہے۔ اس سورت کی پہلی ہی آیت کا آغاز ہوتا ہے تو اس طرح کہ ''ایمان لانے والے کامیاب ہو گئے‘‘۔ غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس سورت کا نمبر 23واں ہے اور اس سورت میں جہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ شروع ہوتا ہے‘ اس آیت کا نمبر 13 ہے۔ اس آیت کے پہلے لفظ ''ثم‘‘ سے الفاظ گننا شروع کریں تو اگلی آیت نمبر 14 کے لفظ ''خلقاً اٰخر‘‘ تک 23 الفاظ بنتے ہیں۔ تخلیق کے الفاظ جب میں نے شمار کیے تو وہ بھی 23 الفاظ بنے۔ ان دونوں کو جمع کیا جائے تو 46 بنتے ہیں‘ یعنی جتنے انسانی جسم میں کروموسوم ہوتے ہیں۔ میں صدقے قربان جائوں‘ آج کے دور کی میڈیکل سائنس خوردبین کے ذریعے یہ بتا سکی جو حضور کریمﷺ نے چودہ سو سال قبل بتا دیا۔ حضورﷺ کو کس نے بتایا‘ اللہ علیم وخبیر نے بتایا جو انسان اور کائنات کا خالق ومالک ہے۔
میرے دوست محترم قاری عمر جٹھول مجھے حوصلہ دیتے رہتے ہیں کہ موجودہ خلفشار ختم ہونے کو ہے۔ پاک فوج کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے بعد اب جنرل عاصم ملک آئی ایس آئی کے نئے چیف بن گئے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر وزیراعظم پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس میں خود ان کی حافظ نعیم الرحمن‘ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر بتاتی ہیں کہ پاکستان جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ملک ہے‘ جو ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور ہم سب اہلِ وطن کو پاک وطن کا پاسبان بنائے‘ آمین!