''پاک سرزمین شادباد‘‘۔ پاک وطن کے قومی ترانے کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے۔ یاد رہے! یہاں پاک سے مراد پاکستان ہے‘ پاکستان کو اختصار کے ساتھ ''پاک‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اس لفظ کو عربی میں لکھیں تو یہ ''طیبہ‘‘ بن جاتا ہے۔ امام احمد بن شعیب النسائی رحمۃ اللہ علیہ اپنی حدیث کی کتاب سنن نسائی میں ایک حدیث شریف لائے ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے‘ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ''میں (شبِ معراج) براق پر سوار ہو گیا۔ جبرائیل علیہ السلام میرے ہمراہ تھے۔ میں (مکہ سے) چل پڑا تو (راستے میں ایک جگہ) جناب جبرائیل نے مجھ سے کہا: (براق سے) اتریے اور (شکرانے کے طور پر) نماز پڑھ لیجئے۔ میں نے نماز پڑھ لی تو مجھے پوچھنے لگے: کیا آپﷺ کو معلوم ہے کہ آپﷺ نے کس جگہ نماز ادا فرمائی؟ اور پھر (میرے جواب دینے سے قبل خود ہی) مجھے بتایا۔ آپؐ نے طیبہ (پاک سرزمین) میں نماز پڑھی ہے‘ آپؐ اس (طیبہ یعنی مدینہ کی پاک سرزمین) کی جانب ہجرت کرکے جانے والے ہیں...‘‘۔ (سنن نسائی: 451)
قارئین کرام! مولانا عبدالمالک مجاہد کے معروف بین الاقوامی ادارے ''دارالسلام‘‘ نے اپنے محققین کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کی سند ''حسن‘‘ درجے کی ہے۔ یہ ایک طویل حدیث ہے‘ جس کا میں نے ابتدائی حصہ نقل کیا ہے جو میرے آج کے کالم سے متعلق ہے۔ اس حصے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بعض علماء نے اس کا ضعف بیان کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث شریف کی مذکورہ سند حسن ہے۔ معراج شریف کا پہلا حصہ‘ جسے اسراء بھی کہا جاتا ہے‘ یعنی مکہ سے القدس تک کا سفر‘ حضورﷺ نے یہ سفر طے کیا‘ یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ جی ہاں! حضرت جبرائیل علیہ السلام نے راستے میں براق کو روکا اور حضور ﷺ نے شکرانہ کی نماز ادا فرمائی کہ مکہ میں مشکل دن ختم ہونے کی نوید ہے۔ یثرب کا شہر حضورﷺ کے مبارک قدموں کو جونہی بوسہ دے گا تو طیبہ بن جائے گا یعنی ''مدینۃ الرسول‘‘ بنتے ہوئے پاک سرزمین بن جائے گا۔لوگو! اسی مبارک نسبت سے میرے دیس‘ پاک وطن کے ترانے کا آغاز ہوتا ہے۔ ''پاک سر زمین شاد باد‘‘۔ 12ربیع الاول کے مبارک دن پشاور شہر میں حضور نبی کریمﷺ کی سیرت کے موضوع پر تقریب کا انعقاد ہوتا ہے‘ صوبے کے وزیراعلیٰ بھی موجود ہیں۔ یہاں افغانستان کے ناظم الامور ''محب اللہ شاکر‘‘ اور انکے ساتھیوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ ترانہ شروع ہوتا ہے تو تمام لوگ احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خوبصورت دھن کیساتھ ''پاک سرزمین شاد باد‘‘ کا جملہ مذکورہ پس منظر کیساتھ دلوں میں موجود اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت کے جام کو چھلکاتا ہے مگر وہ بندے جو دیندار بھی ہیں‘ سفارتکار بھی ہیں‘ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے ہیں۔
ناظم الامور کے نام میں لفظ ''شاکر‘‘ بھی آتا ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ''قدر دانی کرنے والا‘‘ ہے۔ میں سوچوں میں پڑ گیا کہ محب اللہ شاکر نے تو ہم اہلِ پاکستان اور میرے پاک وطن کی ناقدری کر دی ہے‘ اس لحاظ سے کہ ہم نے چالیس سال تک قدردانی کے ساتھ ان کی مہمان نوازی کی‘ اب بھی کر رہے ہیں مگر یہ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ ان کو کرکٹ کا کھیل ہم نے سکھایا۔ اسے کھیلنے کے لیے بھارت‘ یورپ یا امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں جائیں تو ان کے ترانے کا احترام کریں‘ کھڑے ہو جائیں مگر میرے پاک وطن کے ترانے کا احترام کیوں نہیں۔ اسلامی ہمسائیگی‘ سفارتی اور مہمانی کے آداب کا تقاضا تھا کہ وہ میزبانوں کی قدردانی کرتے مگر ان لوگوں نے ہمارے دلوں کے آئینوں کو سرعام چکنا چور کر دیا‘ آخر کیوں؟
ہمارے پاک وطن کے ترانے کا آخری جملہ ''سایۂ خدائے ذوالجلال‘‘ ہے۔ مطلب یہ کہ جہاں ترانہ پڑھا جا رہا ہے‘ یہاں موجود سب لوگوں کے سروں پر خدائے ذوالجلال کی رحمت اور فضل وکرم کا سایہ ہو۔ یہ جملہ تو اسلامی یکجہتی کا جملہ تھا‘ یہ جملہ تو فارسی زبان میں ہے۔ کابل میں فارسی بولی جاتی ہے‘ سرکاری زبان کے طور پر پشتو اور فارسی دونوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہماری زبان تو اردو ہے‘ ہم نے دو ہمسایوں ایران اور افغانستان کی سرکاری زبان سے آشنا ترانہ بنایا ہے۔ اس کا آغاز طیبہ کی نسبت سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام اللہ ذوالجلال کی صفتِ جلال سے ہوتا ہے۔ تقریب کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ مل کر چلیں گے تو اسلامی قوت وجلال میں اضافہ ہو گا۔ اضافہ کرنے والا وہ مولا ''ذوالجلال‘‘ ہے جو اپنے پیارے حبیبﷺ کو طیبہ میں لاکر آپﷺ کی جہادی سیرت پاک کو جلالی تمغہ عطا فرماتا ہے۔ محترم محب اللہ شاکر! جناب والا! ذرا ٹھہریں‘ سوچیں اور غور فرمائیں۔ آپ نے کہیں پاک افغان یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی نادانستہ کوشش تو نہیں کر ڈالی۔ میزبانوں کی توہین تو نہیں کر ڈالی‘ ذرا سوچئے اور ضرور سوچئے!
جس عظیم پُررحمت اور سراپا حسنِ اخلاق ہستی حضور کریمﷺ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں آپ تشریف لائے‘ ان کا اخلاق یہ ہے کہ آپؐ نے حدیبیہ میں بت پرستوں کے اعتراض پر معاہدۂ صلح پر سے ''رسول اللہ‘‘ کے الفاظ ہی مٹا دیے تھے کہ امن ہونا چاہیے‘ باقی ''رسول اللہ‘‘ کی حقیقت تو عنقریب واضح ہو جائے گی اور حضرت بلالؓ کی زبان سے کعبہ کی چھت پر گونجے گی۔ جی ہاں! یہ ہے میرے حضورﷺ کا اخلاق۔ سراپا رحمت اور حسن خلق عظیم۔ رسول کریمﷺ نے قیصرِ روم ہرقل کو جب خط لکھا تو اس کا لقب بھی ساتھ لکھا۔ مکتوب کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا تھا: ''من محمد عبداللہ و رسولہ الیٰ ہرقل عظیم الروم‘‘۔ (صحیح بخاری: 7)۔ یعنی ہرقل کو عظیم لکھا۔ صدقے‘ قربان جائوں حضورﷺ کی سنت مبارکہ پر کہ بین الاقوامی معاملات کی بھی تعلیم دی کہ کس طرح اے میری امت کے حکمرانو! تم نے ادب واحترام اور سفارتی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہے۔ آہ! رسول کریمﷺ کی پاک اور مقدس سیرت کی تقریب ہی میں سیرتِ مبارکہ کے پیغام کو نظرانداز کرنے کا پیام دیا گیا۔ کیا پیام دیا آپ نے اہلِ جہان کو؟
لوگو! بارہ ربیع الاول کو لبنان اور شام میں پیغام رساں الیکٹرانک ڈیوائس ''پیجر‘‘ کو دھماکوں سے پھاڑا گیا۔ لبنان اور شام کے ڈاکٹرز‘ جو ہسپتال کے آپریشن تھیڑ میں جیمر کی وجہ سے فون نہیں استعمال کر سکتے‘ ''پیجر‘‘ پر پیغام رسانی کر لیتے ہیں۔ وہ ڈاکٹرز‘ پروفیسرز‘ اہلِ علم مارے گئے۔ بیسیوں شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس سے اگلے روز واکی ٹاکی میں دھماکے ہوئے۔ یعنی رابطے کے جو ذرائع ہیں‘ جو ہر انسان کے پاس موجود ہوتے ہیں‘ دشمن نے انہی کو جان لیوا آلہ بنا دیا۔ آنسو بہانے کی بات ہے کہ اسرائیل نے 1996ء میں فلسطین کے ایک کمانڈر کو اس طرح شہید کیا کہ ایک کال آنے پر کمانڈر یحییٰ عیاش نے موبائل فون کان سے لگایا تو اسرائیل‘ جو ٹیکنالوجی میں دنیا بھر میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے‘ نے اس فون کی بیٹری کو اس طرح کمانڈ دے کر گرم کیا کہ وہ بم بن کر پھٹ گئی اور جناب یحییٰ کا سر ایک جانب سے اُڑ گیا۔ وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اس واقعہ کو آج 30 سال ہونے جا رہے ہیں‘ ہم نے کیا سبق سیکھا کہ آج بھی یہی موبائل دل کے پاس جیب میں رکھ کر لیڈر بنے پھرتے ہیں۔ یہ جیب میں پھٹا تو دل گیا۔ کان کے پاس پھٹا تو دماغ گیا۔ یہ ہے ہماری اوقات اور دعوے اور نعرے دیکھو تو کان پھٹنے اور دل ٹکڑے ہونے کے قریب ہوتا ہے۔ خود ہم نے چند سال قبل موبائل کو‘ جو فرش پر پڑا تھا‘ اپنی آنکھوں کے سامنے جلتے دیکھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی بیٹری کو آگ لگ گئی اور سارا موبائل جل گیا۔ گمان یہی ہے کہ اس کی بیٹری پھول کر جل اٹھی وگرنہ میری کیا اوقات ہے۔ مسکین آدمی ہوں۔ خطرہ تو بڑے لوگوں کو ہوتا ہے۔ ابھی محترم اسماعیل ہنیہ اور لبنان میں فواد شُکر کو موبائل فون سے شہید کیا گیا۔ آہ! ہم اپنی ٹیکنالوجی بنانے کے بجائے جگ ہنسائی والے کام کر رہے ہیں۔ اے اللہ ذوالجلال ہم پر رحم فرما‘ ہمیں ہدایت دے دے۔ پاک سرزمین شاد باد‘ سایۂ خدائے ذوالجلال!