پی ٹی آئی کی احتجاجی کال غالب، ڈائیلاگ پر پارٹی تقسیم
(تجزیہ:سلمان غنی) سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی کی احتجاجی کال غالب ہے مگر وہ خود ابھی تک احتجاج اور ڈائیلاگ میں تقسیم نظر آ رہی ہے ، پی ٹی آئی کی احتجاجی تیاریوں سے زیادہ حکومت اور سکیورٹی ادارے احتجاجی کیفیت سے نمٹنے کیلئے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں رینجرز کی طلبی کا اقدام امن بارے حکومتی سنجیدگی کو ظاہر کر رہا ہے ۔دوسری جانب پی ٹی آئی ابھی تک احتجاجی کال اور تیاریوں بارے یکسو نظر نہیں آ رہی اور اسکے حلقے حتمی اعلان کے منتظر ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے پس پردہ ڈائیلاگ عمل بارے آج کا دن آخری ہے کیا یہ نتیجہ خیز ہوگا، فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ خود تحریک انصاف کے حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ آج کچھ حتمی نہیں ہوسکتا ہے ، ممکن ہے نتیجہ خیزی جمعہ تک سامنے آئے ۔ احتجاج کی کال تو اس اعلان کے ساتھ دی گئی تھی کہ ‘‘مرو یا ماردو’’اور اس کا مقصد کارکنوں اور ذمہ داروں کو متحرک کرنا تھا کال کے نتیجہ میں نئی سازش تو نظر نہیں آئی البتہ اس بار فرق یہ ہے کہ بشریٰ بی بی خود احتجاجی انتظامات میں شریک ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلی ارکان کو ہدف دیکرکہا گیا ہے کہ انکے ساتھ لوگ آنے چاہئیں ورنہ رکنیت خطرے میں پڑسکتی ہے ۔ کال کے باوجود ابھی تک خود پارٹی میں انتشار کی کیفیت غالب ہے ،بعض ذمہ داراران یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کال بھرپور تیاری سے دینی چاہیے تھی ۔
دوسری جانب پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور وزیراعلیٰ پختونخوا گنڈا پور کی سرگرمیاں ڈائیلاگ عمل اور اڈیالہ جیل میں ملاقاتیں یہ بتاتی نظر آ رہی ہیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی میں کچھ چل رہا ہے اور بعض یقین دہانیوں پر24 نومبرکی کال منسوخ ہوسکتی ہے اوریہ اختیار بانی پی ٹی آئی نے اپنے پاس رکھا ہے اور وہ کسی موثر یقین دہانی کے بغیر کال ملتوی نہیں کرینگے ۔اس سارے عمل میں حکومت کہاں نظر آ رہی ہے اس بارے حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی طے پائے گا اسکا اعلان حکومت ہی کرے گی۔ صورتحال میں ایک خبر نمایاں ہو رہی ہے کہ پی ٹی آئی بھی احتجاج سے زیادہ ریلیف میں دلچسپی رکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر یا اسلام آباد میں ہنگامی صورتحال طاری کرکے کچھ نہیں مل سکتا بلکہ یہ انکے گلے پڑ سکتا ہے کیونکہ حالیہ قانون سازی کے بعد حکومت کمزور نہیں مضبوط نظر آ رہی ہے ۔علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کے میدان میں آنے سے کسی حد تک کارکنوں کو رہنمائی تو ملی ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ منظم احتجاج کی قیادت کرسکیں گی۔ پی ٹی آئی کے پاس آپشن کم ہیں اور فی الحال اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ احتجاج کی دھمکی کیش کروا کر فیصلہ سازوں سے کچھ نہ کچھ حاصل کرسکے اور اس کیلئے احتجاج ملتوی کرنے کا اعلان کرنا ہوگا۔