بات شارجہ کے کتاب میلے سے ہوتی ہوئی متحدہ عرب امارات میں بڑھتے ہوئے پاکستانی گداگروں کے طفیل پاکستانیوں کیلئے امارتی ویزوں کی بندش تک پہنچی۔ ایک قاری نے کہا کہ پاکستانی قوم کو کتاب بینی سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تو بھلا سرکار کیا کر سکتی ہے؟ اس کے جواب میں کہنے کیلئے بہت کچھ ہے لیکن فی الوقت صرف شارجہ کتاب میلے کے حوالے سے ہی بات کریں تو بھلا آج سے چار چھ عشرے پہلے کون یہ کہہ سکتا تھا کہ اس لق ودق ریگستان میں ایسی بلند وبالا عمارات سر اٹھائیں گی۔ اس بے آب و گیاہ صحرا میں سبزے کا سمندر ٹھاٹھیں مارے گا اور بدوؤں میں کتاب کا شوق پروان چڑھے گا مگر ہماری آنکھیں یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ اونٹ چرانے والوں کے دیس میں اب ہوائی ٹیکسی کی آمد آمد ہے۔ ہم سے افرادی قوت اور تکنیکی افراد لے کر چھوٹے چھوٹے ادارے شروع کرنے والے آسمان کی بلندی کو چھو رہے ہیں۔ پاکستانی ٹیلی فون کمپنی پی ٹی سی ایل سے انجینئرز مستعار لینے والی اتصالات آج پی ٹی سی ایل کی مالک ہے۔ پی آئی اے سے پائلٹ اور ماہرینِ ہوا بازی ادھار لے کر اپنی کمپنی شروع کرنے والوں کی ایئر لائن آج دنیا کی پہلی چار‘ چھ ایئر لائنز میں شمار ہو رہی ہے اور پی آئی اے کا یہ عالم ہے کہ جو ایئر لائن کبھی دنیا بھر میں اپنی کارکردگی اور معیار کے باعث ایک خاص مقام کی حامل تھی آج اسے ڈھنگ کا خریدار بھی میسر نہیں۔یہ سب کچھ میں نے یا آپ نے نہیں کیا۔ اس میں حکومتی نااہلی‘ قانون کی کسمپرسی‘ اداروں میں سیاسی مداخلت‘ سفارشی بھرتیوں اور افسروں کی بدنیتی اور بے ایمانی کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ بدوؤں نے ادارے‘ کاروبار اور انتظامی معاملات میں نہ سفارش کلچر کو جگہ دی اور نہ ہی نااہل افراد کو اداروں پر مسلط کیا‘ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
حکومتی ترجیحات قوم کیلئے راستہ متعین کرتی ہیں۔ ہجوم کو ترتیب دینے کا کام ریاست کرتی ہے۔ حکومت کی توجہ لائبریریوں پر ہو گی تو معاشرہ کتاب دوست ہوگا اور حکومتی ترجیح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر ہو گی تو ہڈحرام اور کام چور معاشرہ پروان چڑھے گا۔ میں نے تین چار سال قبل تک اسلام آباد میں ہونے والے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والے سالانہ قومی کتاب میلے کا ذکر کیا تھا۔ میں بذات خود ان کتاب میلوں میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر ملتان سے اسلام آباد آتا رہا ہوں اور ان بھرپور قسم کے کتاب میلوں سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ خصوصی رعایت پر دستیاب کتابوں کی اچھی خاصی تعداد خرید کر لاتا رہا ہوں۔ اور صرف مجھ پر ہی کیا موقوف‘ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے شرکا ان تین روزہ کتاب میلوں میں اپنی فیملی سمیت کتابوں کے درمیان وقت گزار کر نہ صرف کتاب کلچر کے فروغ میں حصہ دار بنے بلکہ انہوں نے بلامبالغہ کروڑوں روپے کی کتابیں خرید کر کتاب بین ہونے کا ثبوت بھی دیا۔
اس قسم کی سرگرمیوں سے ایک ماحول پروان چڑھتا ہے۔ بچے اپنے والدین کے ساتھ آکر اپنی پسند کی کتاب خریدتے ہیں۔ گھر جا کر ان کو پڑھتے ہیں۔ کتاب بینی سے پیدا ہونے والا لطف ان کو مزید کتب خریدنے پر اکساتا ہے اور اس طرح ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ کتاب کے ساتھ دوستی کے رشتے کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔ کتاب دوست اور کتب بین حضرات آسمان سے نہیں آتے‘ اسی زمین کے باسی ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی صورت کتاب کی طرف اسی طرح آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ عادات آہستہ آہستہ پختہ ہوتی ہیں اور پھر آپ کی زندگی کا لازمہ بن جاتی ہیں۔ اس قسم کے میلے ٹھیلے آپ کی تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی میں نئی عادات اور دلچسپی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ دنیا بھر میں لگنے والے کتاب میلے‘ لائبریریاں‘ کتب کی دکانیں اور گھروں میں آنے والے رسائل و جرائد ہمیں قلم وقرطاس سے جوڑتے ہیں۔دنیا بھر میں ڈیجیٹل ادب فروغ پا رہا ہے لیکن اس کے باوجود روایتی کتاب کی اہمیت اپنی جگہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ کتاب کا وجود بھی برقرار ہے اور کم از کم مجھے اپنی زندگی میں کاغذ والی کتاب کے معدوم یا ناپید ہونے کا قطعاً کوئی خوف نہیں اور مجھے یہ یقین اسی قسم کے کتاب میلوں میں جا کر کتاب کی فروخت اور اس سے محبت کرنے والوں کا ہجوم دیکھ کر ہوتا ہے۔ لاہور ایکسپو سنٹر میں کئی بار ان کتاب میلوں میں شرکت کا موقع ملا۔ اسی طرح دوستوں نے بتایا کہ کراچی میں لگنے والا کتاب میلہ بھی اپنی جگہ پر خاصے کی شے ہے۔ ان شاء اللہ یہ عاجز اگلی بار کراچی کے کتاب میلے میں بھی شرکت کرے گا کہ ایسے میلوں میں محض شرکت بھی ان کی رونق کو بڑھاتی ہے اور یہ رونق جو شروع میں آپ کو صرف دل لگی لگتی ہے‘ بعد میں آپ کی کتاب دوستی میں بدل جاتی ہے۔
اردو کو اگر دنیا کی دیگر زبانوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خاصے نمایاں مقام کی حامل ہے۔ بھارت میں بہت سے علاقوں میں بولی تو اردو جاتی ہے مگر صرف رسم الخط کی وجہ سے یہ ''ہندوا‘‘ دی گئی ہے اور دیوناگری رسم الخط کے باعث نہ ہم اسے پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں۔ یہی حال اب بھارت میں اردو رسم الخط کا ہے۔ تاہم اگر ہم اردو اور ہندی کو علیحدہ دو زبانیں قرار دیتے ہوئے اردو کا جائزہ لیں تو دنیا بھر میں بولنے اور سمجھنے والے 25کروڑ کے لگ بھگ افراد اس زبان سے وابستہ ہیں اور یہ دنیا کی دسویں بڑی زبان ہے۔ حتیٰ کہ اگر صرف متحدہ عرب امارات میں اردو بولنے اور پڑھنے والے افراد کا جائزہ لیں تو اس چھوٹے سے خطے میں 15لاکھ سے زائد تعداد کے ساتھ پاکستانی دوسری سب سے بڑی قومیت ہیں۔ تاہم شارجہ کتاب میلے میں پاکستان کی جانب سے کتابوں کی نمائندگی شرمناک حد تک کم تھی۔بھارت کی جانب سے نہ صرف سرکاری سطح پر دو تین ڈسپلے سٹالز لگے ہوئے تھے بلکہ بھارت سے تعلق رکھنے والے پبلشرز کی جانب سے کم از کم 40‘ 45 سٹالز لگے ہوئے تھے۔ 20کے لگ بھگ ہندی اور انگریزی کے سٹالز تھے جبکہ ملیالم کے بھی 20سٹالز تھے اور تامل زبان کے دو سٹالز تھے۔ ہماری طرف سے سرکاری سطح پر تعارفی سٹال تو رہا ایک طرف‘ اردو زبان کا محض ایک چھوٹا سا سٹال تھا جو ایک نان پبلشر بندے نے اپنے طور پر لگایا تھا یہاں کتابوں کی غالب تعداد جہلم کے بک کارنر والوں کی تھی۔
گزشتہ کتاب میلے میں بھی یہی حال تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان کے دو تین بڑے پبلشرز سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ کتابوں کو شارجہ لے کر جانا ہے۔ ان کی ترسیل کا خرچہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے بعد وہاں کتاب بیچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہوائی جہاز کے ذریعے کتاب لے جانے پر فی کلوگرام کے حساب سے اتنا کرایہ لگ جاتا ہے کہ کتاب کی اپنی قیمت پیچھے رہ جاتی ہے۔ اوپر سے کتاب میلے کی انتظامیہ کی طرف سے بندش ہے کہ آپ کتابیں کم از کم 25فیصد رعایتی نرخوں پر فروخت کریں گے‘ پھر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو کتابیں بچ جاتی ہیں ان کو دوبارہ واپس پاکستان لانے پر بھی اتنا ہی خرچہ پڑ جاتا ہے۔ یہ سارا معاملہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''دھیلے دی بڈھی تے ٹکہ سر منڈوائی‘‘ یعنی ایک پیسے کی بڑھیا کی حجامت کا خرچ دو پیسے ہو۔
اگر قومی ایئر لائن ڈاکٹر ذاکر نائیک کے سامان کا کرایہ آدھا کرنے کی پیشکش کر سکتی ہے تو کیا وہ شارجہ کتاب میلے کیلئے پاکستانی پبلشرز کو خاص رعایت نہیں دے سکتی؟ یہ رعایت پبلشرز پر احسان نہیں ہوگا بلکہ یہ قومی زبان کی عالمی سطح پر ہونے والے اس بک فیئر میں نمائندگی ہو گی۔ ہماری کتابیں اس کتاب میلے میں ملکی تعارف کیساتھ ساتھ امیج بلڈنگ کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہیں‘ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ فریضہ سرانجام دینا ہے وہ ذاتی امیج بلڈنگ کے علاوہ اور کسی بات پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ یہ کسی ایک فرد یا گروہ کی بات نہیں‘ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔