یہ کسی حکیم نے بتایا ہے؟

ان پانچ برسوں میں بعض فوڈ سٹور بند ہو گئے‘ کچھ نئے کھلے اور زیادہ تر نے اپنا قبلہ درست کیا۔ مقصدصحت کے اصولوں یا رجحانات کی پیروی کرنا تھا۔ اصول صحت کے اہلکار وضع کرتے ہیں اور رجحانات عام لوگ‘ بلا شبہ ان کو خوراک کے ماہرین یا ڈاکٹروں کی تائید و حمایت حا صل ہوتی ہے یا وہ سنی سنائی باتوں پر اعتبار کرتے ہیں۔ مثلاً گلو ٹن‘ آج ہر شخص گلوٹن فری چیزوں کو ترجیح دیتا ہے کل تک اس عنصر کا نام بھی سننے میں نہیں آیا تھا۔
پاکستان میں مہنگائی کی ایک نئی لہر کا سنتے ہیں۔ اس صورت حال کی ذمہ دار حکومت کو سمجھا جاتا ہے جب کہ ملک میں صارفین کی کوئی منظم تحریک نہیں ہے۔ نمک‘ چینی اور ڈبل روٹی کا استعمال کم کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ صارفین ضروری معلومات سے لیس ہوں۔ ڈاکٹر آپ کو بتائیں گے کہ زیادہ مقدار میں سوڈیم اور شکر کا استعمال مضر صحت ہے اور گلوٹن کے بغیر روٹی گتے کی طرح بدذائقہ ہوگی مگر پیٹ کی کئی بیماریوں سے محفوظ رکھے گی۔
گلوٹن ‘ تمباکو کی طرح ایک قدیم اجزائے خوراک میں سے ہے اور ہم یہ بھول بھی گئے ہیں کہ یہ عنصر ہم نے خود کھانے کی اشیا کا حصہ بنایا تھا۔ منہ کا مزہ بد لنے یا کھانے کی اشیا کو ذخیرہ کرنے کی مدت بڑھانے ( شیلف لائف) کی غرض سے۔ قدرت نے ہر بیماری کی 
دوا تجویز کی ہے‘ اپنے پھل پھول میں اور انسان اپنی اصل کی جانب لوٹ رہا ہے۔ بیگم وقار انبالوی نے یہاں طبعی عمر پا کر رحلت کی۔ انہوں نے ایلوپیتھک یا دیسی دوا کبھی استعمال نہیں کی اور اب ان کی صاحبزادی پودوں پر مبنی ( plant based) خوراک اور یوگا جیسی ورزشوں کا پرچار کرتی ہیں۔ گوشت اور انڈہ حیوانات ( animal based) سے آتا ہے۔ دنیا میں ان کے خلاف ایک تحریک عرصہ سے چل رہی ہے اور کامیاب ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ آرگینک اور نان جی ایم او اشیائے خوردنی خریدتے ہیں حالانکہ کسی'' حکیم ‘‘نے انہیں ایسا مشورہ نہیں دیا۔
ہر آرگینک شئے آرگینک یا قدرتی ہے اور اسی طرح جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ہر چیز جی ایم او ہے۔ جینیات کا علم نیا ہے مگر خوراک کی صنعت میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سائنسدانوں نے انسان کا جینیا تی نقشہ بنایا ہے جس میں انسان کو ایک درجن سے زیادہ جینز(genes) کا مجموعہ قرار دیا گیا تھا۔ ہر چند کہ سائنسدانوں کا مقصد ایک انسانِ کامل پیدا کرنا تھا جو بیماریوں سے پاک ہو مگراخلاقی ماہرین نے اس کارروائی کو قدرت کے عمل میں مداخلت جان کر اس کی مخالفت کی اور خوراک والوں نے اس کا رخ اپنی صنعت کی جانب موڑ لیا۔ اسے بھی قدرتی عمل میں مداخلت سے تعبیر کیا جا رہا اورجی ایم او کے خلاف ایک تحریک کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔
یہاں ایک فوڈ سٹور نے اپنی دکانوں پر دو یا چار آئل (rack) مہیا کئے جہاں NON-GMO اور Organic اشیا رکھی ہیں‘ جو کھانے پینے کی ان اشیا کی اصل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔چونکہ اس ملک میں عام لوگ اداروں پر اعتماد اور اعتبار کرتے ہیں اور لیبل پڑھ کر چیز خریدتے ہیں‘ اس لئے نان جی ایم او اور آرگینک چیزوں کی زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اشیا ساز اول تو لیبل لگاتے نہیں اور اگر لگاتے ہیں تو گمراہ کن۔
ہمارے گھر کے پاس ایک نیا سٹور کھلا ہے جس میں تمام چیزیں آرگینیک رکھی گئی ہیں۔ وہاں سے سبزی ترکاری اور گوشت سے لے کر چائے اور جوس تک ہر شئے نان جی ایم او اور آرگینک خریدی جا سکتی ہیں۔ عام پاکستانی‘ جو کسی رشتے دار کی بدولت امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں‘ بالعموم ٹیکسی چلاتے یا لون تیل کی دکان کھولتے ہیں کیونکہ ان کاموں میں کسی سابق تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ کیا جانیں کہ نان جی ایم اویا آرگینک کس بلا کا نام ہے؛ تاہم ان کی امریکی اولاد ان چیزوں کو سمجھتی ہے اور جز وقتی وہ کاروبار سنبھال لیتی ہے۔ جی ایم او کی بحث میں مخالفین کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے مگر وہ مرنے مارنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
سبزیاں اور پھل سارا سال ان سٹوروں پر دستیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا تجارتی خسارہ چاراعشاریہ پانچ کھرب (ٹریلین) ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ لاطینو اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کی آبادی بڑھنے سے آم کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک دفعہ ایک لاطینو کو قطار میں انتظارکے دوران چھلکے سمیت ایک عدد آم کو کھاتے دیکھا گیا۔ جنوبی ایشیا کے لوگ میکسیکو کے موسم کا انتظار کرتے ہیں جو میراتھون کے نام سے میٹھا آم بھیجتا ہے۔ پاکستان میں مالٹا اور آم بکثرت پائے جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً سفیر کے ہاتھوں افتتاح کا فیتہ کٹنے کے باوجود ان میوہ جات کی سستے داموں فروخت کا انتظام نہیں ہوا۔ جنوبی امریکہ کے بیشتر ملکوں میں امریکی سرمایہ کار کی موجودگی کے سبب نان جی ایم او پھل اور سبزیوں کا دستیاب ہونا ممکن ہے اور یہ مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی کا رونا عام ہے مگر گرانی ابھی امریکہ کی حد کو نہیں چھوتی۔ یہاں قیمتوں کو قابو میں رکھنا آ سان ہے۔ اول‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ یہاں صارفین کے گروہ منظم ہیں جو ہمہ وقت منڈی میں مداخلت کے لئے تیار رہتے ہیں۔ دوم سٹوروں میں کاروباری مقابلے کا اہتمام ہے۔ سوم ریفریجریٹرکا بڑھا ہوا استعمال اور چہارم حکومت کے اداروں پر انحصار کیا جا سکتا ہے جو اشیائے خوردنی کے معیار اور دام کا نفاذ کرتے ہیں اور بالعموم کسی دکاندار سے رشوت یا کمشن نہیں لیتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں