جنگل میں مور ناچا

ایک لڑکا تھا جو پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور شام ہونے پر کبھی چینیز اور کبھی پاک ٹی ہاؤس کے چکر لگاتا تھا۔ کھانے پینے کی یہ دونوں جگہیں دو بھائیوں کو الاٹ ہوئی تھیں اور وہ دونوں اس نوجوان کی میزبانی کے لئے بے تاب رہتے تھے۔ چینیز کے مالک حمید صاحب اور ٹی ہاؤس کے الاٹی سراج صاحب‘ دونوں سگے بھائی تھے اور چند سال پہلے ہی یو پی سے لاہور میں وارد ہوئے تھے۔ دونوں بھائی اپنے مہمان کے دادا حاجی سید سجاد حسین کو جانتے تھے‘ جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ مل کر سیاسی حوالوں سے کام کیا تھا۔ ان دنوں چینیز میں حمید نظامی‘ چراغ حسن حسرت‘ شورش کاشمیری‘ ملک اسلم حیات اور عبداللہ بٹ جیسے نامور لوگوں کا بسیرا رہتا تھا اور ٹی ہاؤس انتظار حسین‘ احمد مشتاق‘ ناصر کاظمی اور منیر نیازی وغیرہ کو پناہ دیتا تھا۔
ساجد حسین 1974ء میں بی فارمیسی کرکے امریکہ چلے آئے‘ ڈاکٹر بنے‘ نیوکلیائی میڈیسن میں تخصص حاصل کیا اور بفلو نیو یارک کے ایک ہسپتال سے ریٹائر ہو کر آج کل بالٹی مور کے علاقے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں فارمیسی کے گریجویٹس‘ ڈاکٹر اور دوسرے پیشہ وروں کے لئے امریکی ویزا کی سہولت عام تھی۔ رفتہ رفتہ انہوں نے سب رشتے داروں کو امریکہ بلا لیا۔ ان کے دس بہن بھائی تھے۔ والدین‘ اور بھائی بہنوں کی اولاد شامل کرکے کُل ایک سو افراد تھے‘ جو ڈاکٹر سید ساجد حسین کے کفیل تھے۔ وہ سب کے سب پڑھ لکھ کر بالٹی مور اور واشنگٹن کی راہداری میں آباد ہو گئے مگر خود چونکہ زیادہ پڑھے لکھے تھے اور امریکہ میں بچے پالنے کے اخراجات اور صعوبتوں سے واقف تھے‘ اس لئے اپنی اولاد کے معاملے میں محتاط رہے اور ان کا ایک بچہ ڈاکٹر بھی بنا‘ جس نے ایک بڑا سا گھر خریدا اور والدین کو اس میں ساتھ رہنے پر اصرار کیا۔ ڈاکٹر ساجد حسین کے لئے یہ دوسری ہجرت تھی۔ پہلی ہندوستان سے پاکستان اور دوسری پاکستان سے دوسرے ملکوں کی طرف۔ ایک اور صاحب جو لاکھوں دوسرے کنبوں کے ساتھ ان دو ہجرتوں سے گزرے‘ ابوالحسن نغمی ہیں۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ امریکہ آنے والے ان کے رشتے داروں کی تعداد 68 ہو گئی ہے اور ''یہ داستان ابھی جاری ہے‘‘۔ نیو یارک میں ایک ڈاکٹر کی شریک حیات اپنے رشتے داروں کی تائید کرتے ہوئے بولیں: جنگل میں مور ناچا‘ کس نے دیکھا؟
ڈاکٹر سید ساجد حسین اُس بھارتی صوبے یا ریا ست میں پیدا ہوئے تھے‘ جہاں ہر مسلمان بچہ قائد اعظم کی مسلم لیگ کا سپاہی تھا‘ جس کی آبادی آج ملک کی تمام ریاستوں سے زیادہ ہے‘ اور جہاں گائے خرید کر لانے پر قتل کر دیا جاتا ہے‘ اور جہاں گوشت فروخت کرنے والی دکانوں کو آگ لگا دی جاتی ہیں۔ جب حسین کی توجہ ان واقعات اور معاملات کی طرف مبذول کرائی گئی اور اس پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر ان واقعات پر تبصرے سے احتراز کیا کہ یو پی میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں‘ کس کس کی بات کی جائے۔ ان کا خاندان اور دوسرے ہزاروں کنبے بٹوارے کے بعد یو پی میں بار بار رونما ہونے والے ایسے ہی واقعات سے بیزار ہو کر نقل وطن پر مجبور ہوئے تھے۔ وہ کسی سکون کی جگہ کی تلاش میں تھے۔
امریکہ میں ساجد حسین کا دوسرا بڑا معرکہ 1997 میں سامنے آیا۔ کانگرس میں یہ بل زیر غور تھا کہ چین کو سب سے زیادہ عزیز قوموں (Favourite nations) کا درجہ نہ دیا جائے کیونکہ وہ ''اس خطے کے کچھ آوارہ ملکوں کو جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی مہیا کرتا ہے‘‘۔ پاکستانی امریکیوں نے اس مسودہء قانون کو شکست فاش دی یعنی ناکام بنا دیا اور اس طرح چین امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار بن گیا۔ بفلو سے کانگرس میں بل پیکسن نے ایک خط کے ذریعے ساجد کا اس سلسلے میں کام کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
ساجد حسین کو سیاست کا شوق‘ دادا الحاج سید سجاد حسین شاہ پوری سے ورثے میں ملا تھا؛ چنانچہ روٹی روزگار کے انتظامات سے کچھ فراغت پانے کے بعد وہ مغربی نیو یارک (سٹیٹ) کی پاکستانی امریکن ایسوسی ایشن(PAA) کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل ہو گئے اور امریکیوں کو پاکستان کے کلچر سے روشناس کرانا شروع کر دیا۔ 1985 میں پریسلر امنڈمنٹ (ترمیم) سامنے آ گئی جس کا مقصد پاکستان کو بیشتر اقتصادی امداد اور فوجی تعاون سے محروم کرنا تھا تاوقتیکہ صدر (امریکہ) اس مضمون کا سالانہ سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کرتے کہ ''پاکستان کے پاس کوئی نیوکلیئر ڈیوائس نہیں ہے اور یہ کہ مجوزہ امریکی معاونت دھماکہ خیز جوہری آلہ پاس رکھنے کا پاکستانی خطرہ نمایاں طور پر کم کر دے گی‘‘۔ یہ افغانستان میں روس کے خلاف خفیہ جنگ کا زمانہ تھا اور پاکستان خاموشی سے ایٹم بم بنا رہا تھا جبکہ امریکی صدر چپ چاپ سرٹیفکیٹ جاری کر رہا تھا کیونکہ پی اے اے اور دوسری امریکی پاکستانی جماعتیں اپنا دباؤ بڑھا رہی تھیں۔
ساجد کے والد کو سیاست سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ایک بین الاقوامی فرم کی فیصل آباد شاخ کے منیجر تھے۔ ان کا انتقال بالٹی مور کے علاقے میں ہوا۔ دادا سجاد حسین شاہپوری‘ جو کلکتہ میں تھے اور برٹش آرمی کو گوشت سپلائی کرنے کے ٹھیکیدار تھے‘ سیاست کے لئے کچھ وقت نکال لیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ''میری خدمات کا آغاز تحریکِ خلافت سے ہوا۔ مارواڑیوں کے سرما ئے سے آل انڈیا کاؤ پروٹیکشن سوسا ئٹی قائم ہوئی تھی جس کا مقصد گاؤ کشی کو قانوناً اور اخلاقاً بند کرانا تھا‘‘۔ یہ ہندوستان میں ایک مقبول عام نعرہ ہے جو نریندر مودی کے اقتدار میں آنے اور ایک گیروی چوغے میں ملبوس شخص کو اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنانے پر آج بھی پورے بھارت میں گونج رہا ہے ہر چند کہ بھارت بیف برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ ''بوجوہ اس سوسائٹی کو مجھ پر بڑا اعتماد تھا‘‘۔ آج بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور ملک کی سب سے زیادہ گنجان آباد ریاست کی کابینہ میں کام کرنے والے مسلمان مل جائیں گے۔ وہ تو زمانہ ہی کچھ اور تھا اور ہندی مسلمان بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں بڑی اقلیت کو اکثریت کے طور طریقے اختیار کرنے چاہئیں لیکن محمد علی جناح نے کانگرس سے الگ ہو کر تحریکِ خلافت کو بھی رد کر دیا تھا۔ اول ان کو معلوم تھا کہ اتا ترک نے اس نظریے کو مسترد کر دیا ہے۔ دوم آخری خلیفہ عبدالحمید نے افغان باشندے مُلا جلال الدین کو پروپیگنڈے کے لئے استنبول (قسطنطنیہ) سے ہندوستان بھیجا ہے‘ اور سوم وہ کانگرسی مسلمانوں میں جڑ پکڑ رہا ہے اور گاندھی جی اور کئی دوسرے لیڈر اسے اقلیت اور اکثریت کے درمیان ایک پل کا درجہ دیتے ہیں۔
خلافت کو بحال کیا جائے یا ترکی کے کمانڈر انچیف کی طرح اسے ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا جائے؟ ہندوستان کی محکوم آبادی میں اختلاف تھا۔ اس کی عکاسی اُس زمانے کے لوک گیتوں میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً پنجاب کی عورتیں گایا کرتی تھیں: غازی مصطفی پاشا کمال وے تیریاں دور بلائیاں۔ تینوں روندے سمرنا دے بال وے تیریاں دور بلائیاں‘ اور یو پی کی خواتین الاپتی تھیں: آنکھوں میں آنسو بھر کر بی اماں بولیں ''جان بیٹا خلافت پہ دینا‘‘۔ بی اماں مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی کی والدہ صاحبہ کو کہا جاتا تھا۔ اتاترک اور باقی دنیا کے بیشتر لوگوں نے پہلی ترجیح پر عمل کیا اور پہلی جنگ عظیم ختم ہونے پر خلافت کہیں دکھائی نہیں دی؛ البتہ مشرقِ وسطیٰ میں خلفشار پیدا ہونے کے بعد بغدادی نے گڑے مردے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جس کی حمایت و مخالفت مسلک میں بٹی ہوئی مسلم آبادی نے کی۔ 1923 کے بعد ترکیہ میں ایک اور بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ایک استصوابِ رائے کے نتیجے میں ملک کے صدر رجب طیب اردوان وسیع تر اختیارات کے مالک بن گئے ہیں۔ اس طرح ملک میں51 فیصد کے ووٹ پر پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام نافذ ہو گیا ہے جو امریکہ سے قریب ترین ہے‘ ہر چند ترکیہ اور امریکہ میں تعلقات کی گرمجوشی وہ نہیں جو اردوان کی آمد سے پہلے تھی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں