جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں‘ جہاں پیدا
پاکستان اگر امریکہ کو الوداع نہ کہے گا تو امریکہ پاکستان کو چھوڑ دے گا۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے۔
اب یہ آشکار ہے کہ غلطیوں پر نہیں‘ اسد عمر اپنے اصولی موقف کی وجہ سے نکالے گئے۔ آئی ایم ایف کی قاتلِ عوام شرائط تسلیم کرنے پر وہ آمادہ نہ تھے۔ نجکاری پہ موصوف کا طرزِ احساس ناقابل فہم ہے۔ اس معاشرے میں‘ جہاں اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں‘ بہترین کاوشیں بھی کرپشن محدود نہ کر سکیں۔ سرکاری اداروں کو فعال کرنے میں ناکام رہیں‘ وہ خوابوں کی بہشت بناتے رہے۔ کتنا بے شمار پیسہ برباد۔ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ شیخ رشید نے وزیراعظم کی ناک کے نیچے چوبیس نئی ریل گاڑیاں چلا دی ہیں۔ سولہ اور چلائیں گے۔ ہر نئی مسافر ٹرین کا مطلب ہے‘ کروڑوں کا مزید خسارہ۔ آئندہ سال کا نیامیزانیہ مرتب ہوگا تو پتہ چلے گا کہ مانگے تانگے کی معیشت پر کتنے ارب کا بوجھ اور آن پڑا۔
ازل سے اصول چلا آتا ہے کہ کاروبار میں حکومت کا عمل دخل کم سے کم ہونا چاہئے۔ اسے منڈی کو ہموار رکھنا چاہئے۔ پیداواری عمل کو بہتر بنانا چاہئے۔ امن اور عدل کی ضمانت‘ سیاسی استحکام اور پورے محصولات حاصل کرنے کا اہتمام۔ سیاسی اور سماجی ادارے‘ مگر معاشرے کی ساخت کے مطابق بنتے ہیں۔ بے شک ہنگامی مفادات بھی مگراس کی تاریخ‘ تمدن‘ روایات اور ماضی کو فراموش کر کے ہر گز نہیں۔
ایرانی قوم کو ہی لیجئے‘ ان کے اپنے انداز اور اطوار ہیں۔ ادراک کیے بغیر‘ معاملات تہران کے ساتھ نمٹائے نہیںجا سکتے۔ ایک انگریزی اخبار نے شہ سرخی جمائی: پاکستانی سرزمین ایران کے خلاف برتی گئی۔وزیراعظم نے یہ کہاتھا: دونوں ممالک کی دھرتی استعمال کی گئی۔ جنداللہ آخر کیا تھی؟ عبدالمالک ریگی کون تھا‘ جو 2013ء کے اوائل میں ایران کے حوالے کیا گیا۔ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پھیلتے ہوئے مدارس کس کے ہیں؟ کس کیلئے وہ نرم گوشہ رکھتے اور کون سے ممالک ان کی مدد کرتے ہیں؟
پاکستانی فوجیوں کے قتل سے سینے چھلنی ہیں۔ کون صاحبِ دل ہے جو خون کے آنسو نہ رویا ہو گا۔ ایران کے ولایت فقہیہ نے مگر جب پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کو فوراً ہی چلتا کیا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ ایرانی قیادت نے جب اعلان کیا کہ کسی دوسرے ملک کو فائدہ اٹھانے اور مراسم بگاڑنے کی اجازت نہیں ہوگی؟
تلخ حقائق تاریخ کے دامن میں چھپے ہوتے ہیں۔ ایک طرف یہ کہ پہلی جنگ خلیج میں‘ پاکستان نے اسلحہ سے لدی گاڑیاں ایران بھیجیں۔ عین حالتِ جنگ میں اس کے ہوابازوں کو تربیت دی۔ دوسری طرف صدر کارٹر کے دور میں‘ امریکی سفارت کاروں کے اٹھائے جانے کی منصوبہ بندی میں‘ تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے بعض اہلکار شریک تھے۔
جنرل محمد ضیاء الحق کو بے تکان گالی دی جاتی ہے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ ان نزاکتوں کا خوب وہ ادراک رکھتے تھے۔ چیزیں الجھنے لگیں تو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن کو خفیہ طور پر امام خمینی کی خدمت میں بھیجا۔ بات چیت کامیاب رہی ۔رخصت ہونے کا وقت آیا تو آیت اللہ خمینی نے پاکستانی سفیر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
مذہبی فرقہ پرستوں کی بات دوسری ہے۔ ان کے دلوں میں صدیوں سے جمے تعصبات دھوئے نہیں جا سکتے۔ خمینی وہی ہیں‘ جنہوں نے فتویٰ دیا کہ اہلِ ایران اہلِ سنت کے طریق پہ حج کر سکتے ہیں۔ انہی کے انداز میں نماز بھی پڑھ سکتے ہیں۔آسانی سے ملّا کا علاج ممکن نہیں۔ پاکستان میں وہ بارسوخ ہیں۔ ریاست کی ترجیحات اور مفاد کو ٹھوکر پہ رکھتے ہیں۔ ایران میں وہ اقتدار کا حصہ ہیں اور ان کے دلوں کا میل دور نہیں ہوتا۔ افغانستان میں ان سے بھی زیادہ سخت گیر طالبان کی حکومت پاکستانی دہشت گردوں کو پناہ دیتی رہی۔
ہم بھول گئے کہ جنرل محمد ضیاء الحق نے حضرت امام خمینی کو پیرس سے تہران پہنچانے کے لئے پاکستانی طیارے کی پیشکش کی تھی۔ فراموش کر دیا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت میں 31 ممالک کی اسلامی تحریکوں کا وفد انقلابی لیڈر سے ملا تھا۔ ہر طرح کے تعاون کی پیشکش کی تھی۔
بعض عرب ممالک کو ہمارے یہ فیصلے خوش نہ آئے۔پاکستان میں فرقہ پرستوں کی انہوں نے پرورش کی۔ ان کے پیچھے انکل سام کھڑا تھا۔ بھارت نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ سب جانتے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں مگر نام لینے کا یارا کسی کو نہیں۔
ان لوگوں کا ذکر یہ ناچیز کرتا رہا۔ ایک بڑے اخبار کے دفتر میں‘ کبھی جس سے وابستہ رہا‘ ایک دن مجھے بتایا گیا ''پانی سر سے گزر چکا‘‘۔
جو معاشرے بنیادی مفادات اور اصولوں پہ مصلحت پسندی اور بزدلی اپنا لیں‘ ایک کے بعد دوسرے مرض میں مبتلا نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا؟ جی ہاں! اب مجھے ماننا چاہئے کہ جنرل ضیاء الحق نے ان کے بارے میں نرمی اختیار کی۔ ابھی تک نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ مدارس اور مساجد کی نگرانی کرنا ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ ان کی آزادی محدود کردی جائے بلکہ اس لئے کہ جمود کو توڑا جائے اور منفی رجحانات کا سدباب کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن ایسے لوگوں کو علما کا لیڈر تسلیم نہیں ماناجا سکتا۔ دوسری قیادت کو سامنے لانا ہوگا‘ جو ریاست اور نجی اداروں کے تعلق کا فہم رکھتی ہو۔
خدا کی پناہ اکیسویں صدی ہے اور ہم فرقوں میں بٹے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے: ہم نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ہمارا اصرار ہے کہ ہم دیوبندی‘ وہابی‘ شیعہ اور بریلوی ہیں۔
1930ء کے خطبہ الہ آباد میں اقبالؔ نے کہا تھا: آزاد وطن جب تم پالو تو عرب ملوکیت کے اثرات سے بچنا۔ ہم انہی کے نخچیرہو گئے... اور وہ امریکہ بہادر کے۔
امریکہ سے مراسم کی پہلی سی نوعیت برقرار نہیں رہ سکتی۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چین نے 6بلین ڈالر کا قرض سود کے بغیر دیا ہے۔ 19 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا۔ تیرہ ارب ڈالر کے قرضے سوا ہیں۔ آئی ایم ایف الخالد ٹینک اور جے ایف 17 تھنڈر کے بارے میں سوالات کرتا ہے۔ پوچھتا ہے کہ چین کا کتنا روپیہ آپ کو ادا کرنا ہے؟چین کے ساتھ سودے بازی میں اگر حماقتیں سرزد ہوئیں‘ اگر کچھ نرخ بالا ہوئے‘ تو اس کا ذمہ دار شریف خاندان ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ہماری سول سروس‘ حتیٰ کہ وردی والوں میں امریکی رسوخ کار فرماہے۔ سول اور فوجی افسر وہاں تربیت پاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مرعوب لوٹتے ہیں۔ اڑھائی برس ہونے کو آئے‘آئی بی کا ایک وفد امریکہ کے دورے پر تھا۔ انہیں پھانسنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کہ آئی ایس آئی کے بارے میں وہ معلومات فراہم کیا کریں۔ سال گزشتہ صدر ٹرمپ نے پاکستانی افسروں کی تربیت کے لئے مختص رقوم منجمد کرنے کا اعلان کیا تو خود ان کی اسٹیبلشمنٹ چیخ اٹھی۔ کیا کرتے ہو بھائی‘ کیا کرتے ہو۔
امریکہ میں سول اور فوجی افسروں کی تربیت کا سلسلہ اب تمام ہونا چاہیے۔
ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان سے باعزت واپسی میں ان کی مدد کریں۔ ہماری استعداد اس باب میں لامحدود نہیں‘ مگر جو کچھ بن پڑے کر ڈالنا چاہیے۔ مزید برآں معاملات کو شفاف رکھنا چاہیے۔
ماضی سے پنڈچھڑانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بھی مگر یاد رہے کہ فرد ہو یا قوم طاقتور پہ نفسیاتی انحصار اپاہج بنا کے رکھ دیتا ہے۔مکمل آزادی معاش کی خود کفالی سے ہوتی ہے۔ سوا تین کروڑ کا ملائیشیا کمپیوٹر کے ایک پرزے Integrated Circuit ‘ (آئی سی) کی برآمد سے 32 بلین ڈالر سالانہ کماتا ہے۔ ہم کل بیس بائیس بلین ڈالر۔ہم اعلیٰ ترین معیار کا ایٹم بم اور میزائل بنانے والے‘ اس میدان میں ناکام کیوں ہیں؟ پاکستانی لیڈروں سے مہاتیر محمد کا سوال یہی ہے۔
آزادی یا غلامی کا انحصار آدمی کے طرزِ احساس پہ ہوتا ہے۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں‘ جہاں پیدا