"SAC" (space) message & send to 7575

کتاب دوستی کا کلچر

ہم دیانت داری سے ملک میں علمی، فکری اور نظریاتی مسائل کا جائزہ لیں تو کتاب سے دشمنی یا لاتعلقی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مطالعہ میں کمی کا رجحان ہمارے یہاں خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ مختلف فورمز پر لوگوں کے فکری مباحث کا جائزہ لیں تو اکثر جہالت اور کم علمی کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ماضی میں کم وسائل کے باوجود لوگ مطالعہ کو بڑی اہمیت دیتے تھے ۔ صرف سکولوں اور کالجوں کی نصابی کتب ہی نہیں ، غیر نصابی کتب کے مطالعہ کا شوق بھی جنون کی حد تک ہوتا تھا۔ لوگ جیب خرچ میں سے ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت کرکے کتابیں خریدا کرتے تھے ۔ جہاں وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوتا، لائبریروں کا رخ کرکے شوق پورا کرتے۔لیکن پھر نظریاتی اور فکری قحط نے لوگوں کو کتابو ں اور لائبریروں سے دور کرکے انھیں ہوٹلوں اور ریستورانوں تک محدود کردیا ۔وہ کھانے پینے پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں ، لیکن مطالعے کو کہا جائے تو کتابوں کے مہنگا ہونے کی شکایت کرتے ہیں ۔اصل مسئلہ کتابو ں کی بڑھتی ہوئی قیمت کا نہیں ،لوگوں کی ترجیحات کا ہے۔ جب قوموں کی ترجیحات میں مطالعہ شامل نہ ہو تو معاشرہ قحط الرجال اور فکری بانجھ پن کا شکار ہوجاتاہے ۔عجیب بات ہے کہ ہم دنیا کامقابلہ تو کرنا چاہتے ہیں ،لیکن عقل وشعور کو اجاگر کرنے والی کتاب سے دشمنی کی حد تک دور ہیں۔ماضی میں والدین اور اساتذہ خود بھی کتابیں پڑھا کرتے تھے اور بچوں کو بھی اس کی ترغیب دی جاتی تھی ۔ بہت سے گھروں میں تو لوگوں نے باقاعدہ چھوٹی سی لائبریری بنائی ہوتی تھی۔ بعض گھروں میں افرادِ خانہ باقاعدہ مختلف کتابوںکے مطالعہ کے بعد اس پر اجتماعی طور پر گفتگو بھی کیا کرتے تھے ،مگر اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے ۔ مطالعے کا شوق بڑھانے میں ایک بڑا کردار لائبریروں کا ہوتا ہے۔ہمارے بچپن میں محلوں کی سطح پر لائبریریاں یا دارالمطالعہ ہوا کرتے تھے ، جنھیں دوآنہ لائبریریوں کا نام دیا جاتا تھا۔سکول اور کالج کے بعد ہم ان لائبریروں سے استفادہ کیا کرتے تھے ، لیکن اب محلوں کی یہ لائبریریاں ختم ہوگئی ہیں۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں ’’ سٹڈی سرکل‘‘ کی بڑی اہمیت ہوتی تھی ۔ دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگ ’’ سٹڈی سرکل‘‘ کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ ہم اس طرح کی محفلوں میں اپنی اہمیت منوانے کے لیے پہلے سے طے شدہ کتب کا مطالعہ کرکے بحث ومباحثہ میں حصہ لیاکرتے تھے ۔دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی لڑائی نے بھی لوگوں میں مطالعہ کے شوق کو اجاگر کیا۔ لیکن آج ہمارے نوجوان طالب علم نے اپنے مطالعے کو محض نصابی کتابوں تک محدود کردیا ہے ۔بچوں پر نصابی کتب کا اس قدر بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ وہ محض امتحان پاس کرنے کو ہی علم سمجھتا ہے۔ والدین بھی نصابی کتاب سے ہٹ کر کوئی کتاب پڑھنے کی تلقین نہیں کرتے۔ نصابی کتب کا تعلق محض امتحان کی کامیابی سے ہوتا ہے ، جبکہ غیر نصابی کتب بچوں یا قارئین میں تنقیدی سوچ کو ابھارتی ہیں۔والدین اور اساتذہ ہی کیا ، مطالعہ یا علم دوستی حکومت کی ترجیحات میں بھی کسی شمار میں نہیں ۔حکمران سڑکوں، پلوں ، بڑے بڑے پلازوں اور بلٹ ٹرین وغیرہ ہی کو ترقی سمجھتے ہیں۔ لائبریریوں کا قیام ان کا مسئلہ نہیں اور جہاں لائبریریاں موجود ہیں ، وہاں نئی کتب کے خریدنے کے لیے وسائل مختص نہیں کیے جاتے ۔جب حکومت جی ڈی پی کادو یا ڈھائی فیصد بجٹ تعلیم پر خرچ کرے گی تو کتاب کلچر کیسے آگے بڑھ سکے گا۔ سیاست دانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ سڑک بنانے کو ووٹ کے حصول کا ذریعہ اور لائبریریوں کے قیام کو وقت اور وسائل کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مقامی حکومتوں کے نظام میں لائبریریوں کا قیام بھی ایک اہم ذمہ داری ہے ۔لاہور میں قائد اعظم لائبریری کے سوا باقی سب کی حالت خاصی مخدوش ہے ۔چھوٹے اضلاع میں قائم لائبریریوں کی حالت زار پر تو صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے ۔ ماضی میں بعض مخیر حضرات بھی لائبریریوں کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، لیکن اب ان کی اولادوں کے نزدیک یہ کام کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔گیلپ کی ایک تحقیق کے مطابق پڑھے لکھے لوگوں میں صرف 39فیصد مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی ادارے کی تحقیق ہے کہ 42فیصد مذہبی، 32فیصد معلوماتی، 26فیصد فکشن اور7فیصد شاعری پڑھی جاتی ہے۔ایک فکری مغالطہ یہ بھی پھیلایا جارہا ہے کہ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے کتاب پڑھنے کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔یہ بات مکمل طور پر ٹھیک نہیں ۔کتاب کی اہمیت کل بھی تھی اور آج بھی ہے ۔دنیا بھر میں انٹر نیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ٖپھیلائو کے باوجود وہاں کی لائبریریاں آباد اور روشن ہیں ۔اگر ہیری پوٹر کی کتا ب کا پہلا ایڈیشن 30لاکھ کی تعدادمیں چھپتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کتاب کی اہمیت آج بھی باقی ہے ، شرط صرف یہ ہے کہ کتاب اچھی ہونی چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی کتاب دوستی کے فروغ میں اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔ بعض نجی چینلز نے اس حوالے سے پروگرام شروع کیے ، لیکن اشتہارات کی کمی کے باعث بند کرنا پڑے۔ صرف پاکستان ٹیلی ویژن اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ خدمات انجام دے رہا ہے۔ المیہ ہے کہ ہمارے یہاں تحقیق کا کام ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔ یونیورسٹیاں اور کالجز میں تحقیق کے حوالے سے قابل ذکر کام بہت کم ہورہا ہے ۔ جو تحقیق ہورہی ہے وہ بھی اس معیار کی نہیں ،جسے دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یورپ یا دیگر ممالک نے ہم پر حکمرانی کی ہے یا کررہی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ مطالعہ کے رجحان میں مسلسل اضافہ بھی ہے ۔وہاں ریاست اور حکومت کے ساتھ ساتھ نجی سطح پر بھی مطالعے کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ کتاب کلچر کے رجحان کو ’’ کتاب میلہ ‘‘ فروغ دیتا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی کتاب میلے کا اہتمام کرتی ہے ۔ پچھلے دنوں قائداعظم پبلک لائبریری نے بھی کتاب میلہ کا انعقاد کیا ۔اس کلچر کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔کتاب میلوں کو صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے ، بلکہ اس کا دائرہ کار چھوٹے شہروں تک پھیلایا جائے ۔جب تک شہروں میں موجود لائبریریوں کو ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز نہیں بنایا جائے گا ، لائبریریاں بے آباد ہی رہیں گی۔ ہمارے سیاستدان کی موجودہ کھیپ سب کچھ کرتی ہے سوائے کتاب پڑھنے کے۔ کیا وہ لائبربریوں کو فروغ دے سکیں گے ؟ اس حوالے سے ایک بڑی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔کیونکہ کتاب دوستی پر سرمایہ کاری کرکے ہی ہم عقل ، فہم اور دلیل کے چراغ روشن کرسکتے ہیں،وگرنہ اسی طرح جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے اور نتیجہ سوائے رسوائی کے کچھ نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں