پاکستان کے جمہوری نظام کے بغور مطالعے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ دنیا کا بہترین نظام ہے۔ کاغذوں کی حد تک ہر کام کے لیے الگ ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کے لیے پُرکشش عمارت موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے کا سربراہ اور پورا عملہ بھی تعینات ہے‘ تاہم عملی طور پر بہت کم ادارے فعال ہیں۔ جب ان اداروں کا ذکر ہوتا ہے توکچھ ایسے اداروں کے نام بھی سامنے آتے ہیں جن کے بارے میں سُن کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں ان اداروں کا بھی کوئی وجود ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) ایک اہم آئینی ادارہ ہے۔ آئین کے تحت تشکیل دی گئی یہ کونسل وفاق اور اس کی اکائیوں یعنی صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور وسائل کے بارے میں پیدا ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 153کے تحت عمل میں آنے والی اس کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا اور ان کے باہمی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ کونسل وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل معاملات پر پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کروانے کے عمل کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔ سی سی آئی وفاق اور صوبوں کے درمیان ان معاملات پر پیدا ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھی ایک فورم مہیا کرتی ہے۔ کونسل پانی کے نظام اور آبی ذخائر میں مداخلت سے متعلق شکایات کا ازالہ بھی کرتی ہے۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل سے جڑے صوبائی تنازعات مثلاً صوبوں میں ہائیڈرو یا تھرمل پاور سٹیشن بنانے اور صوبوں کے درمیان بجلی کی ترسیلی لائنیں بچھانے جیسے امور بھی سی سی آئی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ سی سی آئی کا قیام ملک کے وفاقی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم قدم تھا۔ اس نے صوبوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کیا جہاں وہ اپنے اختلافات کو حل کر سکتے اور ملکی مفاد میں کام کر سکتے ہیں۔ سی سی آئی کے قیام سے پہلے پاکستان میں بین الصوبائی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ طریقہ کار نہیں تھا جس کی وجہ سے اکثر تنازعات پر کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی۔ مشترکہ مفادات کونسل نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پُرامن اور جمہوری طریقہ کار فراہم کیا۔ سی سی آئی نے ملک کے وفاقی نظام کو مضبوط بنانے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ‘ تاہم جب وفاق اور صوبے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے تو اختلافات کھل کر سامنے آتے ہیں‘ بالعموم صوبے وفاق سے شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صوبوں کی طرف سے اکثر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ وفاق ان کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کرتا اور وسائل کی تقسیم میں ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ بعض صوبوں کا خیال ہے کہ وہ زیادہ وسائل پیدا کرتے ہیں لیکن انہیں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کم فنڈز ملتے ہیں۔ اس سے صوبوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ترقی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور وفاق سے مسلسل صوبے کے بقایا جات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا نے وفاق سے کن شعبوں کے بقایا جات لینے ہیں‘ وزیراعلیٰ متعدد بار اعداد و شمار کے ساتھ اس کا اظہار کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وفاق کے ذمہ خیبرپختونخوا کے 300ارب روپے واجب الادا ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو صوبے کو اس کا حق ملنا چاہیے لیکن اگر اس دعوے میں صداقت نہیں تب بھی وضاحت کی جانی چاہیے تاکہ پوری حقیقت قوم کے سامنے آسکے۔وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور وفاق سے اگلے دو ماہ میں 50ارب روپے ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اُن کے بقول وہ دیگر صوبوں کی نسبت احسن طریقے سے آئینی و جمہوری تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں اور بقایا جات کے دعوے کے باوجود آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق 96ارب روپے وفاق کو دیں گے۔
علی امین گنڈا پور کے اندازِ سیاست سے لاکھ اختلاف سہی لیکن صوبے کے کئی مسائل وفاق کی عدم توجہی کے باعث شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ 2018ء میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے وقت مالیاتی معاملات ایک اہم چیلنج تھے۔ اس انضمام سے پہلے فاٹا کو براہِ راست وفاقی حکومت کے ذریعے مالیاتی امداد فراہم کی جاتی تھی۔ چونکہ فاٹا نسبتاً پسماندہ علاقہ ہے اس لیے اسے ترقیاتی منصوبوں اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے وفاق سے خطیر رقم ملتی تھی‘ تاہم انضمام کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اس انضمام کے بعد مالیاتی ذمہ داریاں کیسے تقسیم ہوں گی اور واجبات کی ادائیگی کا کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ انضمام کے وقت طے پایا کہ وفاقی حکومت ضم شدہ اضلاع کی تعمیر و ترقی اور انفراسٹرکچر کیلئے صوبے کو اگلے پانچ برس کے دوران 500ارب دے گی۔ وفاقی حکومت نے سالانہ بنیادوں پر 100ارب روپے فراہم کرنے تھے لیکن اس مد میں صوبے کو مجموعی طور پر ابھی تک صرف 100 ارب روپے ہی مل سکے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ضم شدہ اضلاع کو ٹیکس میں جو استثنا دیا گیا تھا‘ اسے بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے فنانس ایکٹ 2023ء کے تحت سابقہ قبائلی علاقوں کے لیے ڈیوٹیز اور ٹیکسز سے استثنا میں رواں سال 30جون تک ایک سال کی توسیع دی تھی۔ حکومت کا آنے والے بجٹ میں اس استثنا کو مزید بڑھانے کا ارادہ نہیں۔ اس اقدام سے ضم شدہ اضلاع کے عوام پر 45 ارب روپے ٹیکس کا بوجھ پڑے گا۔ وفاق کی جانب سے فنڈز کا اجرا نہ ہونے کے باعث قبائلی اضلاع کے عوام بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں‘ حالانکہ انضمام کے وقت ان سے کہا گیا تھا کہ انہیں باقی شہریوں کے برابر سہولیات دستیاب ہوں گی۔
خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا مسئلہ طویل لوڈشیڈنگ ہے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں 24گھنٹوں میں صرف دو‘ تین گھنٹے ہی بجلی دستیاب ہوتی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب علی امین گنڈا پور صوبے کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے‘ کم از کم صوبے کے عوام ان کی ہاں میں ہاں ضرور ملاتے ہیں۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے وسائل سے پیدا ہونے والی بجلی وفاق کو سستے داموں مہیا کی جا رہی ہے جبکہ وہ مہنگی بجلی سے بھی محروم ہیں۔ ان شکایات کو بروقت اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبوں کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کرنا اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل نہ کرنا بڑے سانحات کو جنم دیتا ہے۔ آزاد کشمیر میں جو غلطی کی گئی اسے صوبوں میں نہ دہرایا جائے۔ آزاد کشمیر کے عوام ایک سال تک اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے رہے مگر حکومتی سطح پر اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا بالآخر یہ احتجاج سنگین شکل اختیار کر گیا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے آزاد کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مسائل کو حل کیا جائے ورنہ وہ بھی احتجاج پر مجبور ہوں گے۔ ہم وفاق پر چڑھائی یا ٹکراؤ کے حق میں ہیں نہ ہی ماضی میں ایسے احتجاجوں کے مثبت نتائج سامنے ہیں‘ واپڈا پاور ہاؤس پر قبضے کے دعوے وزیراعلیٰ کے منصب کے خلاف ہیں۔ وفاق اور صوبے کے درمیان معاملات کو حل کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے۔
بادی النظر میں دیکھا تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مطالبات درست معلوم ہوتے ہیں جنہیں متعلقہ فورم‘ مشترکہ مفادات کونسل میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملہ سنگینی اختیار کر جائے وفاق کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر صوبوں کی بات سننی چاہیے۔