اب تو یوں لگتا ہے ہمارے سے سب حساب چکائے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے ٹکور ہو رہی ہے اورکسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسے میں کرنا کیا ہے۔ بس یہی فکر لاحق ہے کہ خیرات کہاں سے آئے گی‘ کشکول میں کچھ ڈلنے کی توقع کہاں سے کی جائے‘ خرچے کہاں سے پورے ہوں گے‘ قرض کی ادائیگیاں کیسے کریں گے۔ لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جن کا سرکس لگا ہوا ہے‘ اس ملک کے بدحال عوام کو ٹیکہ لگائی جا رہے ہیں۔ حالات کی دہائی دینے والے تو بہت ہیں لیکن وہ بھی پہنچے ہوئے طبقات ہیں جن کی عیاشیاں لگی ہوئی ہیں۔ سچ مانیے تو کہنا پڑے گا کہ جیب میں کچھ ہو توعیاشیاں کرنے کیلئے یہ سب سے اچھا ملک ہے کیونکہ پوچھنے والا یہاں کوئی نہیں۔ پوچھ گچھ ہوتی ہے تو انہی عوام کی جن کی دُہائیاں آسمان تک پہنچ رہی ہیں۔ یہ تو آپ نے سڑکوں پر دیکھا ہوگا کہ ٹریفک والے کچھ تھوڑی سی بھی اچھی گاڑی ہو تو اسے نہیں روکتے۔ روکے جاتے ہیں زیادہ تر تو موٹرسائیکل والے۔ ہر چوراہے پر اب یہ قومی منظر بن چکا ہے کہ دو تین موٹر سائیکل والے ٹریفک پولیس کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں۔ انہی کا چالان ہوتا ہے‘ بڑوں کے چالان کا رواج یہاں نہ تھا‘ نہ ہے۔
ہم جیسے گزارا کر بھی رہے ہیں ٹامک ٹوئیوں پر۔ یہ جو دبئی لیکس آئی ہیں جن میں پاکستانیوں کی دبئی میں پراپرٹیوں کا ذکر ہے‘ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی قوم کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن قوم کو سمجھ نہیں آ رہی کہ 1992ء سے لے کر 2018ء تک فارن ایکسچینج کا ملک سے باہر بھیجنا قانونی طور پر جائز تھا‘ یعنی قانون اس کی اجازت دیتا تھا۔ ان رائج قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے وارے نیارے طبقات نے ملک سے پیسہ اٹھایا اور دبئی میں انویسٹ کیا۔ یہ آزادی کہاں سے آئی تھی اور کس کے ہاتھوں وارے نیارے طبقات کو ملی تھی؟ یہ میاں نواز شریف کی پہلی حکومت نے کیا تھا‘ یعنی لوٹ مار کے قانونی راستے بنائے گئے تھے اور جنہوں نے یہ راستے کھولے انہی نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ یہ اور بات ہے کہ کسی نے انکم ٹیکس ریٹرنوں میں کسی پراپرٹی کو ڈکلیئر کیا یا نہیں۔ یہاں تو ڈکلیئر کرنے کے بعد ایسے طریقے ہیں کہ واجبی سا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان سے دولت کی ترسیل کا راستہ کھولا گیا‘ آپ فارن ایکسچینج باہر لے جا سکتے تھے اورکوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
اب قوم حیران ہو رہی ہے کہ اتنے اربوں ڈالروں کی پراپرٹیاں کیسے بن گئیں۔ بے چارے عوام کو کون سمجھائے کہ ہمارے معصوم حکمرانوں نے یہ سب آسانیاں پیدا کی تھیں۔ اور ان معصوم حکمرانوں نے ایسی مثالیں قائم کیں کہ امیر طبقات میں یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ اگر آپ کی پراپرٹی دبئی میں نہیں ہے توآپ سوشل لحاظ سے کسی حساب کتاب میں نہیں ہیں۔ دبئی میں جائیدادیں تو ایک طرف رہیں لیکن پاکستان کے ہونہار عوام کو کون سمجھائے کہ قومی لوٹ مار کا سلسلہ‘ جس کی وجہ سے پاکستان کی یہ حالت ہو گئی ہے‘ پچھلے 40‘ 45سال سے جاری و ساری ہے۔ جائز طریقوں سے اتنی دولت کہاں اکٹھی ہوتی ہے‘ یہ تو سب ناجائز طریقوں کی مہربانی ہے۔ ناجائز طریقوں سے پاکستان کی دولت باہر منتقل ہوتی رہی اور باہر پراپرٹیاں بنتی رہیں۔ پھر جو ہم معصوم ٹھہرے‘ پوچھتے ہیں کہ فلاں پراپرٹی کی منی ٹریل کیا ہے؟ یاد ہے نا جب پانامہ لیکس منظرعام پر آئی تھیں تو لندن پراپرٹیوں کے بارے میں پوچھا جاتا تھا کہ منی ٹریل کہاں ہے؟ قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور لایعنی تاویلوں کے بعد قوم نے یہ استدعا سنی کہ جناب یہ ہے منی ٹریل۔ اورآج تک ان کے ڈھنڈورچی اور طبلہ نواز کہتے نہیں تھکتے کہ ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی‘ یہ تو دودھ کے دھلے ہوئے تھے اور انہیں کیا کیا تہمتیں جھیلنی پڑیں۔ اور وہ جو اسلا م آباد کے بڑے گھر کے مکین ہیں‘ ان کی داستانیں بھی سنی جائیں تو بے اختیار ہنرمندیوں پر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
اور وہ جو ہمارے قیدی نمبر فلانے ہیں‘ ان کا سب سے بڑا گناہ یہ گنوایا جاتا ہے کہ ہر ایک کو چور چورکیوں کہتے پھرتے ہو۔ ہمارے جو دانا و دانشور ہیں‘ نصیحت کرتے ہیں کہ قومی مفاہمت ہونی چاہیے‘ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا اور جوکچھ اس ملک کے ہونہار عوام کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ ذکر کریں تو طبیعتیں اُچاٹ ہو جاتی ہیں اور جب ایسا ہو تو قومی ماحول خراب ہو جاتا ہے اور قومی ماحول خراب ہو تو سیاسی استحکام نہیں رہتا۔ لہٰذا قوم کے اولین مفاد میں یہ ہے کہ چور چورکہنا بند کر دو اور جنہوں نے 40‘ 45سال کی یہ داستانِ عشق رقم کی ہے ان کے سامنے کھڑے ہوکر مسکراتے رہو اور دو دو ہاتھ سے ان سے مصافحہ کرو۔ یہ ہوئی قومی مفاہمت۔ اور جو فارم 47کے مستفید ہیں وہ اسی قسم کی مفاہمت کی نصیحت کرتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کے وہ کیا تاریخی الفاظ ہیں‘ مٹی پاؤ؟ اصل سیاسی مفاہمت یہ ہے کہ ہر چیز پر مٹی پاؤ۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ جو ہمارے کرتے دھرتے ہیں ان کی صلاحیتوں کو داد دینی چاہیے۔ فارم 47والا ٹولہ قوم پر مسلط ہوا ہے تو وہ بھی کس انداز سے۔ کچھ ہو نہیں رہا‘ قومی پہیے آگے کی طرف نہیں چل رہے لیکن ظاہری حرکت تیز تر ہے۔ کبھی نوید سنائی جاتی ہے کہ فلاں فلاں ترکیبیں استعمال کرنے کے بعد زرعی انقلاب بس آتا ہی ہے۔ کبھی سنائی جاتی ہے کہ فلاں ادارے کے بننے کے بعد ڈھیر ساری سرمایہ کاری بس آ ہی رہی ہے۔ اگلے روز یوٹیوب پر ایک پوڈ کاسٹ دیکھ رہا تھا جس میں سوال پوچھنے والا اگلے سے پوچھتا ہے کہ ان کونسلوں کے بننے کے بعد انویسٹمنٹ کتنی آ چکی ہے۔ جواب دینے والا کہتا ہے کہ صفر/ سناٹا۔ کیا خوبصورت جملہ ہے صفر/سناٹا‘ سن کے میں جھوم گیا۔ ہر طرف یہی نتیجہ ہے۔ انہی صاحب نے یہ بھی کہا کہ پچھلے کئی سالوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ ہمارے مہربان سعودی عرب والوں نے تیل ریفائنری کی مد میں اتنے بلین ڈالر انویسٹ کرنے ہیں۔ اتنے سال بیت چکے ہیں اس ریفائنری کا اسی انداز میں سنتے آ رہے ہیں۔ موجودہ ولی عہد کے دور میں سعودی عرب وہاں وہاں انویسٹ کر رہا ہے کہ ہم پاکستانی ایسی باتوں کو سمجھ بھی نہ سکیں۔ ان کا دھیان کہیں اور ہے‘ ان کی ترجیحات اور قسم کی ہیں۔ ہمیں تو میں کیا کہوں کن نظروں سے وہ لوگ دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ آس لگائے بیٹھے ہیں اور اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے؟
لیکن ہمارے حسنِ ذوق کی بھی داد دیجیے۔ پاکستان کے ساتھ وہ ہو رہا ہے جو تاریخ کی کتابوں میں آسانی سے نہ ملے لیکن ہماری موجیں جاری ہیں۔ کیا کہنے ہماری ہر دلعزیز سی ایم پنجاب کی خوبیوں کے کہ ایک روز پولیس کانسٹیبلان کی نہایت ہی عمدہ اور دلکش یونیفارم پہنے پولس پلٹنوں کی سلامی لیتی ہیں اور اگلے روز ایلیٹ فورس کی یونیفارم پہنے میڈیا میں تھرتھلی مچا دیتی ہیں۔ پھر ہاتھ میں گلاک پستول اٹھائے فائرنگ کی پوزیشن لیتی ہیں اور سب مشین گن بھی اپنے نازک کندھوں کے ساتھ لگاتی ہیں اور پنجاب کے ہونہار آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور تعریفی جھلکتی نظروں سے ایسے مناظر کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں گڈ گورننس۔ ہماری موجیں لگی ہوئی ہیں اورکوئی جلتا ہے تو جلتا رہے۔
لیکن سچ پوچھیے تو میاں نواز شریف پر اب کچھ ترس آنے لگا ہے۔ چھوٹے بھائی صاحب وزیراعظم ہیں‘ ہونہار دختر سی ایم پنجاب ہیں لیکن من کو چین نہیں آ رہا۔ دل میں ارمان کھائے جا رہا ہے کہ سب چیزیں ٹھیک ہیں لیکن میرے پلے کیا آیا؟ دل کو تسلی دینے کیلئے (ن) لیگی صدارت پر حسرت بھری نظریں جمی ہوئی ہیں‘ اس میں دیر نہ کی جائے‘ میاں صاحب کی تندرستی کا سوال ہے۔