ملک سے آئے روز ایسے ایسے سانحات اور واقعات رپورٹ ہورہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آخر ہمارے معاشرے میں نفرت اور غصہ اتنا کیوں بڑھ گیا ہے۔ یا شاید یہ سب بہت پہلے سے ہو رہا تھا مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے زیادہ نمایاں ہو رہا ہے۔ نجانے ظلم کا یہ سلسلہ کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا۔ جنگوں کی صورت میں مرد و خواتین دونوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں لیکن گھریلو تنازعات میں زیادہ تر خاتون ہی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں خواتین گھریلو تشدد کا شکار بنتی ہیں اور انہیں اس ظلم کے خلاف بولنے بھی نہیں دیا جاتا۔ اُن کی یہ خاموشی آگے چل کر ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ حال ہی میں ملک میں گھریلو تشدد کے چند ایک ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ لوگ سن کر حیران رہ گئے ہیں۔ شوبز انڈسٹری کو خیرباد کہہ کر شادی کرنے والی زینب جمیل بظاہر ایک خوشحال زندگی گزار رہی تھیں لیکن اصل میں گھریلو تشدد کا شکار تھیں۔ شوبز کو خیرباد کہنے کے بعد وہ ایک سیلون چلا کر اپنے بچوں کی کفالت میں مصروف تھیں۔ تاہم چند ماہ قبل وہ اُس وقت اچانک خبروں کی زینت بنیں جب اپنے ہی سیلون کے باہر انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اللہ نے ان کی زندگی دراز کی ہوئی تھی‘ ان کی جان تو بچ گئی لیکن ان کا جسم گولیوں سے چھلنی ہو گیا۔ چھ گولیاں لگنے کے باوجود زندہ بچ جانا ایک کرشمہ ہے۔ بعد ازاں زینب نے اپنے بیان میں کہا کہ اُن پر یہ حملہ ان کے شوہر نے کرایا تھا۔ انہوں نے زخموں سے چور‘ ہسپتال سے ایک وڈیو جاری کی جس میں حکومت سے مدد کی اپیل کی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اربابِ اختیار اقتدار کی راہداریوں میں گم ہیں‘ ان تک عوام کی آواز ہی نہیں جاتی۔ اب جب وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی ہیں تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں خود پر ہونے والے مظالم سے پردہ اٹھایا ہے لیکن تاحال ان کے کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
اسی طرح حالیہ عرصے میں سوشل میڈیا پر ملک کی ایک معروف ٹی وی اینکر عائشہ جہانزیب کی تشدد زدہ تصاویر دیکھ کر سب دنگ رہ گئے تھے۔ وہ اپنے ہنستے مسکراتے چہرے کے پیچھے اتنے غم چھپائے ہوئے تھیں‘ یہ بات کسی کو معلوم ہی نہیں تھی۔ ویسے بھی‘خواتین پر سماجی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ گھریلو تشدد پر بھی خوموش رہیں۔ ان کی یہ خاموشی گھریلو تشدد کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ان کے پہلے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ اس لیے بھی ان پر خاموش رہنے کا دباؤ ہوگا‘ لیکن جب ان کی تشدد زدہ چہرے کی تصاویر سامنے آئیں تو سبھی نے تاسف کا اظہار کیا۔ انہوں نے خواتین صحافیوں سے شکوہ بھی کیا کہ میڈیا کمیونٹی خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف خاموش کیوں ہے‘ تاہم سب نے انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔ پھر اچانک یہ خبر آئی کہ ان کی اپنے شوہر کے ساتھ صلح ہوگئی ہے‘ تاہم انہوں نے اس کی تردید کی ہے اور کہا کہ وہ اپنے شوہر سے خلع لی رہی ہیں۔ البتہ بچوں کی وجہ سے وہ کورٹ کچہری کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتیں۔
دیکھا جائے تو ان دونوں کیسز میں خواتین کو تاحال انصاف نہیں ملا۔ دونوں پاکستان کی معروف شخصیات ہیں۔ اگر ملک کی معروف خواتین کے ساتھ بھی ریاست کھڑی نہیں ہوتی تو عام خواتین کا کیا ہوتا ہوگا؟ ان کے پاس تو کسی قسم کی سپورٹ نہیں ہوتی‘ ان پر کتنا دباؤ ہوتا ہو گا۔ اول تو خواتین ان مظالم کے خلاف بولتی نہیں اور بول پڑیں تو وِکٹم بلیمنگ شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ خواتین ہی پر سارا الزام ڈال دیتے ہیں‘ مردوں کے کردار پر کوئی بات نہیں کرتا۔لوگ طرح طرح کی تاویلیں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں کہ ضرور عورت نے ہی کچھ کیا ہوگا جو اس کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ کیسی بھی صورتحال کیوں نہ ہو‘ کوئی مرد کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ یقینا اسی معاشرے میں ایسے بھی مرد موجود ہیں جو خواتین کے احترام میں اپنی نشست سے اُٹھ جاتے ہیں۔ ایسے بھائی بھی ہیں جو ساری زندگی محنت کرکے اپنی بہنوں کا جہیز بناکر ان کی شادیاں کرتے ہیں۔ ایسے باپ بھی ہیں جو دھوپ میں محنت مشقت کرکے اپنی بچیوں کو تعلیم دلاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سارا معاشرہ ہی ظالم ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جو ظلم کرتے ہیں۔ نور مقدم کے کیس کو دیکھیں‘ کس طرح ظاہر جعفر نامی شخص نے اس مظلوم کو قتل کیا تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں میری نور مقدم کے والدین سے ملاقات ہوئی۔ وہ نور اور ارشد شریف کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ وہ بھی انصاف کے متلاشی ہیں اور میں بھی۔ کسی اپنے کو قتل جسے ہولناک واقعے میں کھو دینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ نور مقدم کے والدین بتا رہے تھے کہ ان کے گھر میں نور کا کمرہ آج تک ویسا ہی ہے جیسا اس کی زندگی میں تھا۔ اس کمرے میں باقی سب کچھ ویسا ہی ہے مگر نور نہیں ہے۔ اگر نور مقدم اور سارہ انعام جیسی بے قصور خواتین کو بروقت انصاف ملا ہوتا تو شاید آج زینب اور عائشہ انصاف کی متلاشی نہ ہوتیں۔ ایسے کیسوں میں ریاست کو خود مدعی بننا چاہیے اور ظالم کے ہاتھ روکنے چاہئیں۔ گھریلو تشدد کا سدباب اسی طرح ہو سکتا ہے۔
اب ایک اور کیس سامنے آیا ہے۔ چند روز قبل ملتان میں ثانیہ زہرہ نامی لڑکی کی پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش ملی۔ وہ دو بچوں کی ماں تھی۔ اس کے والدین کا اصرار ہے کہ ان کی بیٹی کا قتل ہوا ہے جس کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں خواتین ہمیشہ سے مظالم کا شکار رہی ہیں۔ کبھی وہ غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں تو کبھی تیزاب گردی کی نذر ہو جاتی ہیں۔ اگر سسرال اور شوہر برا ملے تو جہیز کے طعنے‘ شکل و صورت اور وزن پر تنقید‘ ہر چیز پر روک ٹوک کی جاتی ہے۔ طعنے سننے کے باوجود وہ پورا دن گھر میں کام بھی کرتی ہے۔ کتنی ہی لڑکیوں کو سسرال یا شوہر کے مظالم کی وجہ سے حمل کے ضیاع کی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔ لڑکیوں کو شادی کے بعد ماں باپ سے ملنے سے روکا جاتا ہے۔ فون کے استعمال اور ٹی وی دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ سب مظالم کرکے بھی دل نہیں بھرتا۔ اور ایک دن یہ خبر آتی ہے کہ وہ لڑکی چولھا پھٹنے یا کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئی یا اس نے خودکشی کرلی ہے۔ خواتین پر مظالم کا اثر ان کے بچوں پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی ڈر اور خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 47 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ تشدد صرف بیویوں پر ہی ہو رہا ہو‘ اس میں مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں بھی شامل ہیں۔
گھریلو تشدد کا سدباب کرنا ازحد ضروری ہے۔ خواتین پہلے تھپڑ پر ہی قانونی مدد لیں یا پھر ساری زندگی مار کھانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ حال ہی میں اداکارہ جگن کاظم نے ایک پوڈ کاسٹ میں اپنی پہلی شادی کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح انہوں نے ڈیرھ سال تک تشدد برداشت کیا اورپھر خلع لے کر یہ شادی ختم کر دی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور اب ایک خوش و خرم زندگی بسر کررہی ہیں۔ معاشرے کے ہر فرد کو مل کر خواتین کو تحفظ دینا ہو گا۔ سب مل کر گھریلو تشدد کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس کو روکیں۔ اگر کوئی خاتون ہمت کرکے اپنی داستانِ غم بیان کرے تو اسی پر سوال اٹھانے کے بجائے اس کی مدد کریں تاکہ گھریلو تشدد کے سلسلے کو روکا جا سکے۔جب تک ریاست گھریلو تشدد کے واقعات میں مدعی نہیں بنے گی‘ یہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ گھر ایک جائے پناہ ہے‘ اگر عورت اس جائے پناہ میں بھی محفوظ نہیں تو اور کہاں ہو گی۔ خاتون پیار‘ محبت اور تحفظ کی طالب ہے اور اسے یہ سب فراہم کرنا اس کے اہلِ خانہ کی ذمہ داری ہے۔