انتظار اس بات کا کہ حالات بدلیں گے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ بیٹھے بیٹھے نہیں بدلیں گے اور جیسا چل رہا ہے‘ ویسا ہی چلتا رہے گا۔ اکثریتی صوبہ پنجاب کا ہے اور یہاں کے باسیوں کا اپنا ہی مزاج ہے۔ طبقات کی تقسیم اس وقت ایسی ہے کہ ایک تو وہ خوش قسمت طبقہ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں دھندوں میں لگا ہوا ہے۔ مقصدِ حیات ایک ہی ہے کہ پیسہ بناؤ‘ یہ فکر کیے بغیر کہ کس طریقے سے بنتا ہے۔ اس طبقے کو تبدیلی سے کوئی غرض نہیں۔ وہ اپنے پسندیدہ مشغلے میں اتنے مگن ہیں کہ سوچ کہیں اور نہیں جاتی۔ اس طبقے کے علاوہ باقی رہ گئی لاچاروں کی اکثریت‘ جس کی تمام سوچ فکرِ معاش کی ہے۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی نے اکثریت کا جیون اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ سوائے فکرِ معاش کے اورکہیں سوچ جاتی نہیں۔
دو‘ ڈھائی سال پہلے بھی مہنگائی تھی لیکن دیہاتی لوگوں کا کام چل رہا تھا کیونکہ فصلوں کی قیمتیں اچھی تھیں۔ رجیم چینج کا اور پتا نہیں کیا مقصد تھا لیکن اس عمل سے ایک چیز ضرور ہوئی کہ کسان مارا گیا۔ خرچہ پورا کرنا اب اس کیلئے مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اجناس کی قیمتیں جو ملنی چاہئیں اسے مہیا نہیں ہو رہیں۔ رجیم چینج والوں کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ کسی کو اس بارے میں شک ہے تو کسی گاؤں کا رُخ کر لے اور کسانوں اور کاشتکاروں کی روداد سنے۔ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ پنجاب کے کسان نے چیئرمین ماؤ کی تصانیف تو پڑھی نہیں‘ چینی انقلاب کی داستان سے وہ ناآشنا ہے۔ ان کی زندگی کا تجربہ اسے یہی بتاتا ہے کہ تھانے میں کوئی درخواست ہو جائے تو پیسے کے بغیر کام نہیں چلتا۔ زمین کی فرد لینا ہو یا تحصیل میں انتقال کرانا ہو تو جیب میں کچھ پیسے ہونے چاہئیں۔ پنجاب کے کسان نے انقلابِ کیوبا کے بارے میں بھی کچھ نہیں سنا۔ اس وقت اُس کے ذہن میں کچھ ہے تو وہ گندم بحران کی روداد ہے۔ سرگودھا کے کاشتکاروں سے بات کریں توکینو کے باغات کی کم قیمتوں کا رونا رو رہے ہوں گے۔ البتہ لاہور کے فارم 47 والے حکمران اس بات پر خوش ہیں کہ کسان کی ایسی کی تیسی‘ گندم بحران سے شہروں میں تو آٹا سستا ہو گیا۔ ان حکمرانوں کی نظر ہمیشہ شہروں پر رہی ہے‘ دیہات سے زیادہ ان کا سروکار نہیں رہا۔
اوپربیان کی گئی روداد کا حاصل یہ ہے کہ پنجاب سے کوئی توقع نہ رکھے۔ یہی ہماری ریاست کا مخمصہ ہے کہ ہرچیز کا گاڈ فادر پنجاب ہے اور اس صوبے کے لاچار طبقات کے ساتھ جو کچھ بھی ہو‘ انہوں نے ٹس سے مس نہیں ہونا۔ لیبر موومنٹ ویسے یہاں کوئی رہی نہیں اور کالجوں اور جامعات کا حال برُا ہے۔ ایک زمانے میں جو چنگاری ہماری جامعات میں دیکھی جا سکتی تھی‘ کب کی ختم ہو گئی۔ پورا معاشرہ ویسے بھی یا تو پیسے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے یا ذہن رجعت پسندی کے خول میں قید ہو چکے ہیں۔ جومعتوب جماعت ہے‘ جس کا نام لینے سے بہتوں کو زکام ہو جاتا ہے‘ میں چنگاری تھی اور شاید اب بھی ہے۔ لیکن یہی خاصیت ہے جسے آج کے طاقتور پسند نہیں کرتے۔ گھبراہٹ کا عالم بھی اسی وجہ سے ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود اس معتوب جماعت کی سرکشی کی روش ختم نہیں ہو سکی۔ لیکن معتوب تو ہے اورتمام زور اسے محصور رکھنے میں صرف ہو رہا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ موجودہ حالات سے اُکتائے ہوئے ہیں انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کریں کیا۔ حالات سامنے ہیں‘ سب کچھ نظر آ رہا ہے لیکن کوئی بات سوجھ نہیں رہی۔ جسے آپ حکمتِ عملی کہہ سکتے ہیں وہ نہیں بن پا رہی۔ مہنگائی نے جمہور کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ بجلی کے بلوں کو اب لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے موت کا پروانہ ان کے ہاتھوں میں تھما دیا ہو۔ لیکن پھر بھی حکمرانی کے نام پر جو ناٹک رچائے جا رہے ہیں وہ جاری و ساری ہیں۔ ہر دلعزیز سی ایم پنجاب کے ٹک ٹاک ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ اپنی سو دنوں کی کارکردگی کے جو اشتہارات پنجاب حکومت نے نکالے ہیں انہیں دیکھ کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے لیکن یہ چل رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں‘ کوئی روکنے والا نہیں۔ فارم 47کے ہم طعنے دیتے رہیں لیکن چونکہ ان مصنوعی حکومتوں کو ٹیک مل رہی ہے تو اپنی جگہ قائم ہیں۔ عوام جائیں بھاڑ میں‘ جنہوں نے بجٹ پر تنقید کرنی ہے کرتے رہیں۔ مہنگائی سے لدا ہوا بجٹ پاس تو ہو گیا اور پھر کسی کا کیا جاتا ہے؟
ہم پنجاب میں بسنے والوں کا ایک پرابلم ہے کہ پنجاب کے علاوہ ہمیں کچھ اور نظر نہیں آتا۔ کے پی کے حالات سلگ رہے ہیں‘ ایک لحاظ سے وہاں جنگ جاری ہے۔ لیکن ہم جو یہاں کے باسی ہیں اس صورتحال سے غافل ہیں۔ پنجاب میں شادی ہال پورے زوروں سے اپنا کام چلا رہے ہیں‘ کڑاہی گوشت کی دکانوں پر استطاعت رکھنے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔ ان ہوٹلوں اور ڈھابوں کو دیکھیں توگمان ہوتا ہے کہ سارا پنجاب گوشت کھانے پر لگا ہوا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مہنگائی اب مڈل کلاس کو بھی کمر کسنے پر مجبورکر رہی ہے۔ استطاعت رکھنے والوں کا دائرہ تھوڑا محدود ہو رہا ہے۔ لیکن جیسے عرض کیا‘ حکمرانی کرنے والوں کے ناٹک ختم نہیں ہو رہے۔
ایک بات البتہ اچھی ہو رہی ہے۔ ہم کچھ کر تو نہیں پا رہے ہوں گے لیکن زبانیں کھل گئی ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ لوگ کچھ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جن چیزوں پر تنقید کا کبھی سوچا نہ جاسکتا تھا ان پر اب کھل کے تنقید ہوتی ہے۔ جہاں اور کچھ نہیں ہو رہا‘ اسی کو ارتقا سمجھنا چاہیے۔ یہ بھی واضح ہے کہ سامنے آنے کیلئے لوگ شاید تیار نہ ہوں لیکن اندر سے جذبات پک رہے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو معتوب جماعت کو فروری آٹھ کے ناٹک میں اتنے ووٹ پڑنے تھے؟ لوگوں کو ورغلانے‘ بہکانے اور ڈرانے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے لیکن ووٹوں کی گنتی شروع ہونے لگی تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ جذبات کی یہی کیفیت اب بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ پوری قوم جمود کی کیفیت میں ہے۔ معاشی حالت قوم سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سیاست بحران کا شکار ہے۔ آگے کیا کرنا ہے کسی کو پتا نہیں۔ کینیا میں ہم نے نہیں دیکھا کہ کیا ہوا‘ ٹیکسوں کے خلاف لوگ کھڑے ہو گئے‘ اموات بھی ہوئیں۔ حکومت کو بے جا ٹیکس واپس لینا پڑے۔ یہاں شورش کے وہ امکان نہیں لیکن بنیادی صورتحال تو وہی ہے کہ ریاستی آمدنی کا زیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگیوں میں جارہا ہے۔ کچھ وہاں اورکچھ پاور کمپنیوں کی جیبوں میں۔ اس صورتحال سے قوم کیسے نکلے گی؟
چلیں یہاں کچھ تبدیلی نہ آئے باہر کی دنیا میں تبدیلی کے آثار افق پر نمایاں ہو رہے ہیں۔ جو یہ بات نہیں سمجھ پا رہے تھے ان کیلئے بھی اب واضح ہو رہا ہے کہ امریکہ کے آئندہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے۔ اس امکان کی وجہ سے نیٹو ممالک ڈرے ہوئے ہیں کہ ٹرمپ آئے گا تو یوکرین کی امداد کا کیا ہو گا۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ ٹرمپ کے آنے سے یوکرین کی جنگ زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔ جو امداد یوکرین کو اندھے طریقے سے اب مل رہی ہے تب ممکن نہ ہو گی۔ فرانس میں دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے‘ جنہیں دائیں بازو کے انتہا پسند کہا جاتا ہے‘ اقتدار کے قریب پہنچتے جا رہے ہیں۔ یہ لو گ بھی یوکرین کی امداد کے خلاف ہیں۔
ایک بات ذہن نشین رہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔ اُنہی کی کاوشوں سے امریکی ایوانِ نمائندگان نے بھاری اکثریت سے قرارداد پاس کی کہ فروری آٹھ کے الیکشنوں کی کچھ جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ اس قرارداد کا آنا تھا کہ ہمارے حکومتی حلقے تلملا اُٹھے۔ ہم کیا سمجھتے ہیں کہ الیکشنوں کے نام پر جو چاہیں ہم تماشا کریں اور باہر کی دنیا آنکھیں بندکرلے؟ تھوڑی سی تنقید بھی برداشت نہیں ہوتی تو اپنے اعمال تھوڑے درست کر لیں۔