یہ کیا بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں‘ جس کاجوجی چاہے کہہ دیتا ہے۔ بغیر سوچے کہ ایسی باتوں کا اثر عوام الناس پر کیا پڑے گا۔ مشکل وقت ہے پارٹی کیلئے ‘ لیڈر اندر ہے ‘ بھونڈے قسم کے کیسوں کا سامنا ہے‘ اَن گنت ورکر جن میں خواتین بھی شامل میں وہ پابندِسلاسل ہیں۔ جس قسم کی بھی سرکار ہے اُس کا ٹارگٹ ٹی ٹی پی یا کوئی ا ور نہیں پی ٹی آئی ہے۔ ایسے میں پارٹی کی پہلی ضرورت اتحاد کی ہے‘ یہ نہیں کہ ہرکوئی اوٹ پٹانگ کے بیان دیتا پھرے۔ مشکل وقت میں پارٹی کی قیادت بیرسٹر گوہر کے ہاتھوں میں دی گئی ۔ ظاہر ہے یہ ایک عارضی بندوبست ہے‘ اس پر کسی کا اعتراض اٹھنا بالکل بے جواز ہے۔ عمرایوب کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا تھااور نامساعد حالات میں اُنہوں نے بھی اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کیا۔ان کا استعفیٰ قبول ہوا یا نہیں یہاں بات ختم ہوجانی چاہیے۔ جس قسم کے حالات سے پارٹی گزر رہی ہے اُس میں فضول کی بیان بازی قطعاً نہیں جچتی۔
ایسی آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ موجودہ قیادت خان کی رہائی کیلئے کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں اختیارکرسکی۔ یہ جو خود سے انقلابی بنے ہوئے ہیں بتائیں تو سہی کہ بیرسٹر گوہر وغیرہ کون سی حکمتِ عملی اختیار کریں؟ یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ بغیر پبلک پریشر کے قیدی نمبر فلاں کی رہائی ممکن نہ ہوسکے گی۔ اس پر روشنی تو ڈالی جائے کہ پبلک پریشر کیسے بنایا جائے؟ احتجاج کہنا آسان ہے لیکن ایسا کوئی بٹن یا سوئچ نہیں ہوتا جس کے دبانے سے احتجاج برپا ہو جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے ادوار پہلے بھی آئے ہیں اورسیاسی عناصر زیرعتاب رہے ہیں لیکن ماضی کودیکھیں تواحتجاج کی فضا تب ہی پیدا ہوئی جب حالات اُس کیلئے موافق ہوئے۔ نہیں تو لمبی انتظار کی گھڑیاں گزارنی پڑیں۔ سیاسی جماعتیں موقعوں کی تلاش میں رہتیں کہ وہ کچھ کرسکیں۔البتہ جبر کی فضا میں بھی حتی الوسع کارروائیاں سیاسی پارٹیاں جاری رکھتیں۔ایوب خان اور ضیا الحق کے ادوار طویل دورانیے کے تھے۔ کئی کئی سال گزر جاتے جب ایسا معلوم ہوتا کہ پتہ بھی نہیں ہلا‘ نہ ہل سکتا ہے۔موقعے آئے تو غبار اُٹھا اوربظاہر مضبوط حکومتوں کو احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔
پی ٹی آئی کو خوا مخواہ کے احتجاج کے کلچر سے نکلنا چاہیے۔اس میں توکوئی شک نہیں کہ سب سے بڑی جماعت ہے‘ کسی کو کوئی شک تھا تو فروری 8کے انوکھے انتخابات نے دور کردیا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پارٹی ایسی حکمت عملی اپنائے کہ اُس کے حمایتی اورورکر نڈھال ہی ہوتے رہیں۔ اپنی صفیں منظم کریں‘ تنظیمی امورپر توجہ دی جائے اوراس مشکل کے وقت میں ہمت اور خندہ پیشانی سے جماعت اپنے آپ کو قائم رکھے۔جماعت کے لیڈر جب باہر تھے اورزمان پارک میں ڈیرہ جمائے ہوئے تھے توصورتحال مختلف تھی۔ تب وہ کوئی کال دیتے تو لوگ باہر نکلتے۔ لیکن نو مئی کے بعد سے یہ صورتحال تبدیل ہو گئی۔ اُس وقت سے لے کر آج تک پارٹی ایک بڑی مشکل صورتحال سے گزر رہی ہے۔اور یہ اس کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود پارٹی قائم ودائم ہے اوراُس کے حوصلے بھی قائم ہیں۔موسم اچھا ہو توبہت کچھ کرنا آسان ہوتا ہے لیکن ابرآلود ہو توپھر راہ چلتے کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔
یہ جو خود کے بنائے انقلابی کہہ رہے ہیں کہ خان کی رہائی کی حکمت عملی کچھ بنائی جائے اُن کے ذہن میں کیا ہے؟ کھل کے بات تو کریں۔کیا وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ پبلک احتجاج سے اڈیالہ کے تالے کھل سکتے ہیں؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر ہفتے احتجاج اور ریلیوں کی کال دی جائے؟ موقع ہاتھ آیا توتمام ہتھکنڈوں اور قدغنوں کے باوجود لوگوں نے پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالے۔ چکوال میں تو پھربھی کوئی انتخابی مہم چلی‘ انتخابی دفتر کھلا ‘ریلیاں نکالی گئیں‘ جلسوں سے خطاب ہوا‘ لیکن پنجاب کے کتنے ایسے حلقے تھے جن میں کسی قسم کی مہم کے آثار ڈھونڈنا مشکل تھا لیکن پھر بھی عوام نے عجیب و غریب انتخابی نشانات پر ٹھپے لگائے۔ بلے کا انتخابی نشان تو پارٹی سے لے لیا گیا تھا‘ ہرامیدوار کو ایک انوکھا نشان الاٹ ہوا‘ ایسے نشان جن سے تمسخر کا ایک زاویہ نکلتا تھا۔ لیکن پھر بھی ووٹ جہاں پڑنے تھے پڑے۔یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہ تھی۔ہم جو اس ہوا کے ساتھ چل رہے تھے ہمیں اتنی توقع نہ تھی کہ نتائج ایسے آئیں گے‘ پھر اگلوں کا تو نہ پوچھئے کہ وہ کن توقعات پر سواری کررہے تھے۔ آدھی رات جب نتائج آنے لگے سب کے ہوش اُڑ گئے اورپھر وہ کارروائیاں عجلت میں شروع ہوئیں جن کی وجہ سے پاکستانی تاریخ میں ایک نیا اور انوکھا باب رقم ہوا۔لہٰذا گھبرانے کی کیا بات ہے‘ کچھ صبر اور استقامت سے کام لیا جائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجودآج کی صورتحال فروری آٹھ کے الیکشنوں سے پہلی کی صورتحال سے بہتر ہے۔پارٹی ورکر وہیں کھڑے ہیں جہاں تھے‘ اگلے تھوڑا تھک سے گئے ہیں۔
اور یہ کیا آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ تب ہی کچھ ہوسکتا ہے اگر پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کو اپنے ساتھ ملائے اور مینگل اور اچکزئی کوبھی اپنا ہمنوا بنائے؟سیاسی اتحاد مصنوعی طریقوں سے نہیں بنتے۔ حالات ایسے ہوں جیسے 1977ء میں تھے تو اتحاد کی راہیں کھل جاتی ہیں۔مخصوص حالات ہوں جیسے 1983ء میں تھے توایم آرڈی موومنٹ جیسی تحریک اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔مولانا فضل الرحمن نہایت ہی مؤثرانداز سے مقتدرحلقوں پر تنقید کررہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی بھی کچھ ایسا کہہ رہے ہیں جو ہمارے ماحول میں شاذونادرہی سنا جاتا ہے۔ لیکن ہاتھ پھیلائے کسی کے در پر پہنچ جانے سے اتحاد نہیں بنتے۔ پی ڈی ایم کا اتحاد بناتواُس کے پیچھے بھی کچھ عوامل تھے۔ عزت مآب قمرجاوید باجوہ کا کرداراس زمرے میں کبھی بھولا نہیں جاسکتا۔ ملک میں بہت کچھ ہورہا ہے ‘ اندرونی اور بیرونی خطرات سے ملک گھرا ہوا ہے۔ کے پی کے اوربلوچستان کی صورتحال نہایت ہی خطرناک ہے۔ ایمل ولی خان اورمولانا فضل الرحمن دونوں کہہ چکے ہیں کہ جنوبی کے پی کے میں ٹی ٹی پی کااثربڑھ رہا ہے۔ آئے روز کسی جھڑپ یا حملے کی اطلاع آتی ہے۔پہلے ایسے حملوں کی خبریں اخبارات کے صفحہ اول پر آتی تھیں‘ اب معمول ایسا بن چکا ہے کہ خبریں اندر کے صفحات میں چلی گئی ہیں۔
ظاہر ہے لیڈر کا اندر رہنا ورکروں پر بھاری گزرتا ہے لیکن جن حالات سے پارٹی گزر رہی ہے وہ کسی ایک چابی کے گھمانے سے نہیں بدلیں گے۔ جس استقامت سے لیڈر جیل کاٹ رہا ہے اُس کے کچھ حصے کی استقامت سے باہر والوں کو رہنا چاہیے۔ اتنا تو کریں کہ جو کچھ کہنا ہوپارٹی کی میٹنگوں کے اندر کہیں۔ اتنا کچھ برداشت کرنے کے بعد پارٹی زعما کو اتنا ڈسپلن تو اپنے میں پیدا کرنا چاہیے۔ ہر ایک کی اپنی رائے ہوتی ہے‘ اظہارِ رائے پارٹیوں کو زندہ رکھتا ہے لیکن اس کابھی کچھ انداز ہوتا ہے۔جس قسم کے آج کل بیانات آ رہے ہیں اُس سے تویہی پتا چلتا ہے کہ پارٹی قیادت میں بڑا نفاق پیدا ہو رہا ہے۔ یہ سب بکواس ہے‘ ایسا کوئی نفاق نہیں لیکن ایسا تاثر تو نہ دیا جائے۔ جو کچھ کہنا ہو پارٹی اجلاسوں میں کہو۔
ایک اورپرابلم ایسے لوگوں کا ہے جنہیں نو مئی کے بعد مجبوراً پارٹی چھوڑنا پڑی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جو تھوڑی سی تپش بھی برداشت نہ کرسکے لیکن بہت سے ایسے بھی تھے جنہیں بہت جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے لوگ واپسی کا رخ اختیار کرنا چاہیں توپارٹی کا فیصلہ ہے کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے ‘لیکن ایسے لوگ زیادہ ہی ناصح نہ بنیں۔وقت کے ساتھ چلیں اوروقت کا انتظارکریں لیکن خوا مخواہ کی افراتفری سے پرہیز کریں تو بہتر ہے۔