فیصلہ نہیں تھاچماٹا تھا‘ زناٹے دار قسم کا ۔ سرچکراگئے ہوں گے اور خدشہ یہ ہے کہ ابھی تک یہی کیفیت ہوگی۔ قوم نے بھی فیصلہ کم اورچماٹا زیادہ سمجھا کیونکہ فیصلے کا سنایا جاناتھا کہ خبرجنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ مزید حیرانی اس امر سے پیدا ہوئی کہ مبارکوں کا تبادلہ پورے ملک میں ہونے لگا۔ عید کی مبارک بادیں بھی دی جاتی ہیں لیکن فیصلے کے بعد کی مبارک بادوں کا کچھ جذبہ ہی اور تھا۔ فرطِ جذبا ت سے لوگ بھرے پڑے تھے۔
مختلف ایوانوں میں سیٹوں کی گنتی توہوتی رہے گی‘سیٹوں سے زیادہ اس فیصلے کا ایک سیاسی مفہوم ہے کہ دوسال کی مسلسل کاوشوں کے بعد نہ سمجھنے والوں پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی جارہی ہے کہ جس جماعت کی تباہی وبربادی مقصود تھی وہ ایک چٹان کی مانند قائم و دائم ہے۔کتنا کچھ نہیں کیا گیا لیکن اس ضمن میں کچھ کامیابی نہ حاصل ہوسکی۔ دانتوں کا پیسنا اورفرسٹریشن کا طاری ہوناتوپھر بنتا ہے۔آزمانے کیلئے کوئی ہتھیار رہ نہیں گیا تھا‘ سب حربے استعمال ہوئے ۔ اوپر کے کچھ لوگ جو حالات کی تپش نہ سہہ سکے ادھراُدھر ہو گئے لیکن جماعت وہیں قائم‘ اُس کے ورکروہیں کھڑے‘ تمام تر جذبہ و جنون بھی پہلے کی طرح۔ نہیں‘ جذبہ زیادہ پختہ ہو گیا ہے۔ یہ میری جیسی کمزورآنکھیں بھی دیکھ سکتی ہیں۔اپنی زندگی میں بڑے بڑے گروہوں اور جماعتوں کو تتربتراورتحلیل ہوتے دیکھا ہے لیکن یہ عجیب ماجرا ہے کہ یہ جماعت تمام تر حربوں اورہتھکنڈوں کے باوجودلوہے کی مضبوطی کی مانند ہے۔پاکستانی تاریخ میں یہ ایک نئی چیز ہے۔
جماعتیں اورگروہ البتہ خلاؤں میں قائم نہیں رہتے۔ منحصرتوسب کچھ میرکارواں پہ ہوتا ہے۔ وہ ذرا سی کمزوری دکھائے توکارواں راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اب جس میرِکارواں کی یہاں بات ہو رہی ہے کم امتحانوں سے گزرا ہے؟کیا کچھ نہیں سہنا پڑا۔ مقدمات ایسے قائم کیے گئے کہ اُن کا ذکرکرتے ہوئے شرم آتی ہے۔یہ عدت کیس جن پر بنا اُنہوں نے توسب کچھ برداشت کر لیا لیکن ملک کی جگ ہنسائی ہوئی۔ باہر کے میڈیا میں جس انداز سے اس عدت کیس کا تذکرہ ہوتا ہے وہ یہاں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن حیرانی ہے ان کی عقلوں پر جنہوں نے ایسے کیس قائم کیے ۔ ایک ایک کرکے اعلیٰ عدلیہ انہیں باہرپھینک رہی ہے لیکن نا سمجھنے والوں کو کب عقل آنی ہے؟
جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں اچانک خبرآئی کہ عدت کیس بھی اُڑ گیاہے۔ان سے کوئی پوچھے منہ چھپانے کی جگہ آپ کے پاس کوئی رہ گئی ہے؟ خاورمانیکا پہ ترس آتا ہے‘ کیا کچھ اُسے کہنا پڑایا یوں کہیے کیا کچھ اُس سے کہلوایا گیا۔ کس قسم کا بھیانک ماحول اس ملک میں بنادیا گیا ہے۔ پہلے بھی ہماری اخلاقی سطح کچھ اتنی معیاری نہ تھی لیکن اس جماعت اوراس کے لیڈر کے پیچھے لگ کر ایک عجیب سی کیفیت میں دماغ مبتلاہو گئے ہیں۔قیدی نمبرفلاں کا کیا بگاڑ سکتے تھے‘ آئینے میں اپنی شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے۔اوپر سے ملک کا ستیاناس ‘ حالات کنٹرول میں نہیں ہیں‘ دہشت گردی زورپکڑ رہی ہے اور لوگوں کا اعتبارہرچیز سے اٹھ رہا ہے۔ بے یقینی کا عالم ایسا ہے کہ ملک چھوڑنے کی سوچ عروج پر ہے۔
یہ بھی دیکھ لیں کہ جن کو خراب کرنا تھا‘ خراب کیا رسوا کرناتھا‘ کیا کچھ اُن کے خلاف نہ اچھالاگیا۔ لیکن سب برداشت کیا نا؟ سمجھا تو یہ جا رہا تھا کہ پریشانی لاحق ہو جائے گی‘ ٹوٹ جائے گا‘ لیکن ایسا کچھ ہوا؟وہ ہم کتابِ مقدس میں کیا پڑھتے ہیں کہ عزت اورذلت خدا کے ہاتھوں میں ہے۔ جسے عزت اوپر سے ملے اُس کا آپ یا ہم کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ کے فیصلے یا طمانچے کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ساری تدبیریں ناکام نہیں ہو گئیں؟ان کے دشمن تو یہاں تک کہتے تھے کہ نشے کی عادت ہے‘ بغیرنشے کے ایک دن جیل نہیں کاٹی جائے گی۔ اگلا اس ہڈی کا بنا ہواہے کہ دو دوتین تین گھنٹے حیران کرنے والی ورزش ‘ دورانِ ورزش دوتین مرتبہ ٹی شرٹوں کا بدلنا‘ پسینہ کچھ اس قسم کا آیا ہوتا ہے۔ ہرچیز دیکھی جاتی ہے‘ دیکھنے کے تمام ذریعے موجود ہیں۔ورزش کا انداز‘ ورزش کے تمام پہلوؤں کا بغورجائزہ نہ لیا جاتا ہوگا؟اورجب عزم اورہمت سامنے نظرآتے ہوں تودلوں پر کیا گزرتی ہوگی؟ یہی تو پریشانی ہے کہ عزم فولاد کا سا نظرآتا ہے۔ یہ مذاکرات اور اس قسم کی باتیں سب بکواس ہیں۔ہمارے کہنے کی بات نہیں ہے کہ ارادہ اتنا پکا ہے۔ ارادے کا پکا ہونا ہرچیز میں عیاں ہے۔ اس لیے پھر سے عرض کیے لیتے ہیں کہ یہی پریشانی لاحق ہے کہ کوئی کمزوری یا لغزش نظر نہ آئی۔ اس سارے عرصۂ امتحان میں کمزوری کا شائبہ بھی کسی کو محسوس نہیں ہوا۔
پریشانی ہے تودوسری طرف کہ حالات پہلے بھی کچھ گرفت میں اتنے نہ تھے لیکن اب تو نکلتے جا رہے ہیں۔عدلیہ کے یہ تیور ‘ چھ ماہ پہلے کس کو یہ اندازہ ہوسکتا تھا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کا دلیرانہ مؤقف کہ ہمارے کام میں مداخلت کی کوششیں ہوتی ہیں ایک طرف رہا ‘نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک سیشن جج نے لاہور ہائیکور ٹ میں درخواست دے دی کہ فلاں اطراف سے مداخلت کی کوشش ہو رہی تھی۔ اورچیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جن کی ایلیویشن سپریم کورٹ میں ہوچکی ہے‘ نے وہ سخت مؤقف اپنایا کہ اگلوں کے پسینے چھوٹ گئے ہوں گے۔ایک عدد سیشن جج کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اب وہ بھونڈی قسم کی مداخلت برداشت کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں۔
اوپر سے عوام کا جو حال ہے ‘ لوگ رو رہے ہیں کیونکہ ان افلاطونوں نے بجلی بلوں کی مد میں عوام کا وہ حال کردیا ہے کہ برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔ انہوں نے تو اسی ماہ یعنی جولائی میں بجلی کے ٹیرف بڑھانے تھے لیکن پھر انہیں ڈرلگ گیا اور تین ماہ کیلئے یہ اضافہ معطل کیا گیا ہے‘ ختم نہیں صرف عندیہ یہ دیا گیا ہے کہ ٹیکہ تو لگنا ہے لیکن تین ماہ بعد۔اورسنیے وزیراعظم صاحب کوجن کی آواز اب ٹیلی فون کالوں کے درمیان آتی ہے کہ تین ماہ کیلئے ہم نے عوام پر یہ احسانِ عظیم کیا ہے۔اُن کا لہجہ‘ تلفظ اورشیریں آواز سنتے ہی دل چاہتا ہے فون کوزمین پر پٹخ دیں۔ پتا نہیں یہ لوگ کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ عوام کی حالت یہ ہے اورمسیحائے قوم نوازشریف اور اُ ن کی صاضبزادی سی ایم پنجاب مری کی طرف شیشے کی ٹرین کی باتیں کررہے ہیں۔ میاں صاحب کو مری کے موسم سے فرصت نہیں ملتی لیکن جب دل میں تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ میں مصروف لگوں تو ایسے اوٹ پٹانگ کے منصوبے سامنے لے آتے ہیں۔ اِنہیں کچھ سمجھ ہے کہ عوام کن حالات سے گزررہے ہیں اور یہ شیشے کی ٹرینوں کی پتنگ بازی کررہے ہیں۔
فیصلے یا طمانچے کے بعد جاوید لطیف جیسا لیگی ستارہ پکار اُٹھا ہے کہ (ن) لیگ کو اب حکومت چھوڑ دینی چاہیے۔ صائب مشورہ ہے لیکن اپنے سیاسی آقاؤں کی طبیعت کو توخوب سمجھتے ہیں۔اقتدار خیرات میں بھی ملا ہو لیکن ایک لمحے کیلئے بھی چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہوں گے۔اپنا الوسیدھا کرلیا ‘ مقدمات سب صاف ہو گئے‘ اللے تللے ان کے جاری ہیں‘ آئے روز غیر ملکی دوروں پر نکلے ہوتے ہیں‘ یہاں ان کیلئے موسم بگڑے گا توپھر وہی کریں گے جس کی اب مہارت حاصل کرچکے ہیں‘ باہر کی اُڑان۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے کہ خدا کی چکی آہستہ پیستی ہے لیکن بہت باریک پیستی ہے۔The mills of God grind slowly but they grind exceeding small۔یا جیسے ہم کہتے ہیں دیر ہے اندھیر نہیں۔یہاں سمجھا جا رہا تھاکہ اندھیرنگری قائم رہ سکتی ہے۔لیکن جو ہم دیکھ رہے ہیں قدرت کا کرشمہ ہے‘ ایک ایک کرکے چیزیں پاش پاش ہو رہی ہیں۔