اللہ بخشے‘ میری دادی جان نے لگ بھگ 110 سال کی عمر پائی۔ سردیوں کی راتوں میں ہم بچے ان کے گرد اکٹھے ہو جاتے اور وہ ہمیں مختلف داستانیں سناتیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ پنجابی اشعار میں دادی اماں ترنم سے سنایا کرتیں۔ ان کی سنائی ہوئی ایک کہانی مجھے آج تک یاد ہے۔ ایک گائوں جو جنگل کے قریب تھا‘ وہاں شیر آ گیا۔ پورے گائوں میں شور مچ گیا۔ ایک بہادر آدمی تلوار لیے آگے بڑھا۔ شیر سے جب مقابلہ ہوا تو تلوار کا پہلا وار ہی شیر کیلئے ناقابل برداشت تھا‘ چنانچہ وہ بھاگ نکلا۔ یہ شیر کچھ عرصے بعد دوبارہ گائوں میں آ گیا اور مقابلے پر وہی بہادر آدمی تھامگر اب اس شہ زور نے وار کرنے سے پہلے شیر کو مخاطب کرتے ہوئے حقارت سے دھمکایا اور کہا ''دور دفع ہو کتے کہیں کے‘‘۔ شیر یہ سنتے ہی جنگل کی جانب بھاگ نکلا۔ تیسری مرتبہ شیر آیا تو اب وہ اس بہادر آدمی سے باتیں کرنے لگا۔ دونوں میں دوستی ہو گئی۔ بہادر آدمی نے شیر سے پوچھا: پیارے بھائی! تمہارے زخم کا کیا حال ہے‘ طبیعت کیسی ہے جنگل کے سردار کی؟ شیر نے آہ بھرتے ہوئے کہا: بھائی جان! تلوار کا زخم تو مندمل ہو گیا ہے مگر مجھے کتا کہہ کر جو تیر مارا تھا‘ وہ سیدھا دل پر لگا۔ وہ زخم مندمل نہیں ہو رہا۔ خون متواتر رِستا رہتا ہے۔ بہادر آدمی نے شیر کو گلے سے لگایا‘ اس کا منہ چوما اور اسے اپنے گھر لے گیا‘ جہاں گوشت سے اس کی تواضع کی اور پھر اسے جنگل تک چھوڑنے گیا۔ یہ کہانی سنانے کے بعد دادی ماں ہم بچوں کو یہ سبق یاد کراتیں کہ کالم گلوچ اور گندا جملہ زبان سے کبھی نہیں نکالنا‘ اس سے دل زخمی ہوتے ہیں۔ تلواروں کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں مگر دلوں پہ لگے زخم لمبے عرصے تک مندمل نہیں ہو پاتے۔
بچوں کی اخلاقی تربیت پر ریسرچ کرتے ہوئے نیوزی لینڈ میں بچوں کی تعلیم کا جائزہ لیا گیا تو اس رپورٹ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
Rooted in Christian values, we believe that instilling God's love in our children fosters their growth and prepares them for the future.
مسیحی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا ایمان ہے کہ بچوں کے اندر خدا کی محبت ان کی نشوونما کرے گی اور مستقبل کیلئے انہیں تیار کرے گی۔
اسی طرح بعض ترقی یافتہ ملکوں کے نصاب کو دیکھا تو وہاں پرائمری تعلیم میں دو‘ تین سال تک کتابوں کے بجائے انسانی رشتوں اور محبت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ حب الوطنی‘ قانون کی پابندی اور صفائی ستھرائی سمیت جھوٹ سے نفرت اور سچ و دیانت جیسے اخلاقی موضوعات پر بچوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم اپنی سائیکل میکینک کے حوالے کرتے تھے تو اسے کہتے تھے کہ سائیکل کو overhaulکر دیں۔ مطلب یہ جہاں جہاں سے خراب ہے‘ وہاں وہاں سے اسے ٹھیک کر دیں۔ جو پرزہ صحیح ہونے کے قابل نہیں‘اس کی جگہ نیا پرزہ ڈال دیں۔ اچھا میکینک اس طرح سائیکل کو ''اوور آل‘‘ کرتا کہ سائیکل ہلکا پھلکا ہو جاتا۔ چلانے والے کی انرجی بے مقصد ضائع نہیں ہوتی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کا نظام اور ہمارے بیشتر اداروں کا سسٹم بھی اب اوور ہال ہونے والا ہے مگر یہ دیانتدار میکینک کے بغیر نہ ہوگا۔ خاص طور پر نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔
حضور نبی کریمﷺ کے ایک فرمان کے مطابق ''بعض جملے تیروں کی مار سے کہیں زیادہ زخمی کرنے والے ہوتے ہیں‘‘ (ترمذی‘ سندہٗ حسن)۔ وہ لوگ جو اپنے تیر نما جملوں سے پاک وطن کے وجود کو زخمی کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ بغیر تحقیق اور ثبوت کے لوگوں کی عزتوں کو سوشل میڈیا پر زخمی کرتے ہیں‘ ان کا بندوبست ضروری ہے۔ رہنمائی کے لیے قرآنِ مجید کھولا تو ''سورۃ النور‘‘ نظر آئی۔ اس سورۃ میں روشنی اور نور کی اقسام نہیں بتلائی گئیں‘ یہ بتلایا گیا ہے اگر معاشرے میں سنی سنائی جھوٹی باتوں کو پھیلانا شروع کردیا جائے گا‘ عزتوں کو اچھا جائے گا تو معاشرے سے نور رخصت ہو جائے گا۔ جہالت کا اندھیرا چھا جائے گا۔ دنگا فساد اور لڑائیوں کا بازار گرم ہو جائے گا لہٰذا نور کو برقرار رکھنے کیلئے ایسے مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ جو انتباہ کے قابل ہیں‘ انہیں خبردار کیا جائے گا۔ معززین کی عزت کو تار تار کرنے کے چلن کو چلنے نہ دیا جائے گا۔ سورۃ النور کی پہلی آیت کا ترجمہ اس طرح ہے '' یہ ایک عظیم سورت ہے‘ ہمی نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم نے ہی اسے لازم قرار دیا ہے۔ ہم نے اس میں واضح آیات نازل فرمائی ہیں تاکہ تم خیر خواہی کے ساتھ(معاشرے میں) چلو‘‘۔
قارئین کرام! احادیث میں وارد 'واقعہ افک‘ کچھ یوں ہے کہ مومنوں کی ماں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں حضور نبی کریمﷺ کے ہمراہ تھیں۔ آپؓ ایک تو کم عمر اور ہلکے پھلکے وجود کی حامل تھیں‘ دوسرا بیماری کی وجہ سے وزن کا بھی خاصا کم ہو چکا تھا۔سفر سے واپسی کے دوران ایک جگہ پڑائو کیا تاکہ قافلہ کے لوگ کچھ آرام کر لیں۔ اسی دوران حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ہار گم ہو گیا۔ آپؓ اپنا ہار تلاش کرنے میں مصروف تھیں کہ قافلے کو کوچ کا حکم ہو گیا۔ اماں عائشہ صدیقہؓ کا ہودج چند صحابہ کرامؓ نے اٹھایا اور اونٹ پر رکھ دیا۔ حضرت عائشہؓ جب کچھ دیر بعد واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ جا چکا ہے۔ آپؓ وہاں پر ہی بیٹھ گئیں۔ نبی کریمﷺ ہر سفر کے دوران ایک شخص کو مقرر کرتے جو قافلے سے قدرے پیچھے ہوتا تاکہ اگر کسی کا کوئی سامان پیچھے رہ جائے تو اسے اٹھا لیا جائے۔ اس سفر میں یہ ذمہ داری حضرت صفوانؓ کی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور حضرت عائشہؓ اس اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد یہ افراد قافلے کے ساتھ جا ملے۔ عبداللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا‘ اسے پتا چلا تو اس نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر کردار کشی شروع کر دی۔ پورے مدینہ منورہ میں یہ خبر پھیلتی رہی۔ ایک ماہ تک حضور نبی کریمﷺ اور آپ کے خاندان سمیت تمام اہلِ اسلام پریشان رہے۔ اس پر سورۃ النور نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: ''وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں(مردوں) پر تہمت لگائیں‘ پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں 80 کوڑے مارو۔ اور ان کی کوئی گواہی‘ کبھی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔ ہاں! مگر وہ کہ جنہوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اپنی اصلاح کر لی تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘(النور:4 تا 5)۔ مفسرین کرام نے واضح کیا کہ کردار پر بہتان لگانے پر 80کوڑے کی سزا ہے جبکہ باقی بہتان اور جو جھوٹ ہیں‘ ان پر تعزیری سزا کا قانون بن سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کام ضروری ہیں! ہمیں اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کرنی ہے کہ وہ ملک کے مفید اور معزز شہری بن جائیں جبکہ جو آج کی باشعور نسل ہے‘ اس کو احساس دلانا ہے کہ غیر ذمہ دارانہ تقریر و تحریر کا خمیازہ بہرحال بھگتنا ہوگا۔ مذکورہ واقعۂ افک میں تین صحابی ایسے تھے جو مخلص تھے مگر الزام تراشی میں حصہ دار بن گئے‘ انہیں بھی 80‘ 80 کوڑے کی سزا دی گئی تھی۔
معاشرے میں عدل و انصاف سے ہی نور برقرار رہتا ہے۔ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ کسی کی جان و مال محفوظ نہ ہو اور حکمرانی میں یہ درست کرنے کی ہمت نہ ہو تو وہاں اندھیرے کیسے دور ہوں گے‘ نور کیسے ملے گا؟ پاک وطن ان شاء اللہ قائم رہے گا۔جرمنی میں جنہوں نے پاکستانی پرچم کی توہین کی‘ انہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے اور خسارے کا خریدار بنایا ہے۔ یہ پرچم مزید اونچا ہوگا۔ آیئے! اچھے لفظوں کے ساتھ پاکستان اور اہلِ پاکستان کے درد میں ڈوب کر تعمیری تنقید کریں تاکہ پاکستان اندھیرے سے نکلتا چلا اور نور میں آگے بڑھتا چلا جائے۔