حالیہ دنوں جو ہمارے چینی مہمان لیو جیان چاؤ یہاں تشریف لائے‘ کچھ ہمیں زیادہ ہی کھری کھری سنا گئے۔ اُن کا کہنا تھاکہ اپنے ہاں پہلے سکیورٹی کا ماحول ٹھیک کیجئے‘ نہیں تو آپ کے حالات دیکھتے ہوئے چینی انویسٹر اب ڈر گئے ہیں۔ بات سمجھ میں بھی آنی چاہیے‘ چینی ورکروں اور انجینئروں پر حملے ہوں تو خاک یہاں کسی نے انویسٹمنٹ کا سوچنا ہے۔ لیو جیان چاؤ یہ بھی کہہ گئے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی ایک خواب ہی رہتی ہے۔ استحکام کی بنیاد قومی اتفاقِ رائے ہوتی ہے۔ اُن کی باتوں کا بڑا اثر ہوا اور فوراً ہی جسے ہم اپیکس کمیٹی کہتے ہیں‘ اُس کا اجلاس طلب کر لیا گیا اور میٹنگ کے بعد عزم سے بھرا اعلان یہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک بھرپور آپریشن شروع ہو رہا ہے اس عزم کے ساتھ کہ دہشت گردی کو ختم کرنا ہے۔ آپریشن کو ایک روح پرور نام بھی دیا گیا‘ عزمِ استحکام۔
یہ اعلان ہونا تھا کہ قومی اسمبلی میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور خاص طور پر کے پی سے تعلق رکھنے والے ممبران نے پُرزور طریقے سے اس مبینہ آپریشن کی مخالفت شروع کر دی۔ جو مقرر کھڑا ہوا اُس نے کہا کہ ہم فاٹا اور کے پی میں بڑے آپریشن دیکھ چکے ہیں اور ان آپریشنوں سے سابقہ فاٹا کا علاقہ بدحال ہو چکا ہے اور لوگوں میں کوئی گنجائش نہیں رہی کہ کسی نئے آپریشن کو برداشت کر سکیں۔ اس لیے اس آپریشن کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔ شور اتنا اُٹھا کہ سوموار شام کو وزیراعظم آفس سے ایک اعلان جاری ہو گیا کہ نہیں‘ نہیں! آپریشن عزمِ استحکام اُس قسم کا آپریشن نہیں ہو گا۔ یہ جو کارروائیاں جاری ہیں انہی کو تھوڑا تیز کیا جائے گا۔ انگریزی کا بڑا خوبصورت لفظ ہے کہ Energize کیا جائے گا۔ خوبصورت اس لیے کہ یہ بے معنی لفظ ہے‘ جب آپ نے الفاظ کی ہیرا پھیری کرنی ہو تو پھر ایسے لفظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ آپریشن محض آپریشن نہیں رہتا بلکہ کینیٹک آپریشن بن جاتا ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ اس کینیٹک کا مطلب کیا ہے؟ بہرحال وزیراعظم آفس کے اعلان نے واضح کر دیا کہ کوئی بڑی یا نئی بات نہیں ہونے جا رہی‘ بس جو دہشت گردی کے عناصر رہ گئے ہیں اُن کو ختم کرنا ہے۔ آئے روز حملے ہو رہے ہیں‘ قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے‘ ہر چند روز کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے بڑے جنازوں کو سہار ا دے رہے ہوتے ہیں اور یہاں وزیراعظم آفس فرما رہا ہے کہ بس جو دہشت گرد بچ گئے ہیں اُن کو ختم کرنا ہے۔ یعنی سرکار اور ہمارے نیتا اب قوم سے مذاق کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ عزم اور استحکام کی یہ داستان جو اپیکس کمیٹی کی میٹنگ سے شروع ہوئی وزیراعظم آفس کے اعلان پر تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔
چینی بھی سوچتے ہوں گے کہ کن سے پالا پڑا ہے۔ چینی مہمان کے ارشادات کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک نئے عزم سے ہر چیز کی جائے گی۔ لیکن مہمان کی نصیحتوں کا اثر ہم پر دو تین روز سے زیادہ نہ رہا۔ اس میں کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں کہ ہمارے عزم کی داستانیں اتنی مختصر رہتی ہیں کیونکہ قومی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہر چیز بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ چینی مہمان قومی اتفاقِ رائے کی بات کر گئے لیکن یہاں کوئی اتفاقِ رائے نام کی چیز نظر آتی ہے؟ ہر فریق دست وگریباں ہے۔ معیشت کا حال تو اب بچہ بچہ جانتا ہے۔ سیاست کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ فارم 47 کا مسکا لگا کر اسمبلیاں بھری گئی ہیں اور پھر ان مانگے کی اسمبلیوں سے حکومتیں بنائی گئی ہیں۔ اب ایسی حکومتوں سے توقع رکھنا کہ کسی جادو سے قوم میں عزم اور استحکام کی روح پھونک دیں گی‘ کسی خام خیالی سے کم ہے؟ جو جتوائے گئے ہیں اُن کے چہرے بتاتے ہیں کہ کون سی مہربانیوں سے وہ اسمبلیوں اور حکومتوں میں آئے ہیں۔ بیچارگی اور لاچاری چہروں سے عیاں ہے‘ ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ لیکن شعبدہ بازی میں ہم سے کوئی آگے ہو سکتا ہے؟ اعلان کرنا تھا وہ کر دیا۔ دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں‘ روزکی بنیاد پر حملے ہو رہے ہیں‘ لیکن دہشت گرد اپنا کام کریں اور ہم نے اعلان کرنا تھا وہ ہو گیا۔ محاورہ کیا ہے‘ اللہ اللہ خیر سلا۔
اے این پی کے صدر ایمل ولی خان نے چونکا دینے والی بات کی کہ جنوبی کے پی میں ٹی ٹی پی کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے اور اب اُن کی نظریںشمال کی طرف ہیں اور اندیشہ یہی ہے کہ حسبِ سابق اُن کا کنٹرول مالاکنڈ ڈویژن پر پھر سے ہو جائے گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے جس ویٹرنری ڈاکٹر سید غضنفر شاہ کو اغوا کیا گیا تھا اُسے ٹی ٹی پی نے رہا کر دیا ہے۔ اس بیا ن کے ساتھ کہ ڈاکٹرکو تاوان کیلئے نہیں اٹھایا گیا بلکہ اُس پر شک تھا کہ وہ اداروں کیلئے جاسوسی کر رہا ہے۔ جب ثابت ہوا کہ اس الزام سے وہ بے قصور ہے تو اُسے رہا کر دیا گیا۔ اب کوئی بتائے کہ یہ رِٹ آف دی سٹیٹ یا رِٹ آف ٹی ٹی پی ہے؟ جو ہمارا صحافی بھائی خلیل جبران لنڈی کوتل میں مارا گیا‘ سڑک پر اُس کی لاش دو گھنٹے پڑی رہی اور کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ لاش کے قریب جائے۔ یہ وہاں کے حالات ہیں اور ہم فرما رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے جو بچے کھچے عناصر ہیں بس اُن کو ختم کرنا باقی رہ گیا ہے۔ اور یہ جو میں ڈاکٹرصاحب کی خبر پڑھ رہا تھا اُس کے ساتھ ہی ایک اور خبر تھی کہ شمالی وزیرستان میں میر علی کے قریب ایک کانوائے پر گرنیڈ پھینکے گئے جس سے سات راہگیر زخمی ہوئے۔ یعنی دیدہ دلیری دیکھئے کہ کانوائے جا رہی ہے اور ہینڈ گرنیڈ جوکہ ہاتھ سے پھینکے جاتے ہیں‘ اُس پر داغے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ خبریں بھی ہیں کہ لوئر دیر میں افغانستان سے آئے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ یہ سارے واقعات ایسے صوبے میں ہو رہے ہیں جہاں بجلی کی بندش کی وجہ سے ویسے ہی افراتفری اور لاقانونیت پھیلی ہوئی ہے۔ اور کے پی اسمبلی ممبران کھل کے کہہ رہے ہیں کہ آپریشن ہوا تو اُس کی مخالفت کی جائے گی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ایسی زبان کبھی پہلے استعمال کی گئی ہو۔
2007-2008ء میں جب سوات میں آپریشن ہوا اور 2014ء میں جب وزیرستان آپریشن ہوا تب ملکی حالات بالکل مختلف تھے۔ جسے قومی وحدت کہا جا سکتا ہے‘ نظر آتی تھی۔ ایک ہی نکتے پر سب کھڑے تھے۔ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ تفصیل میں جانا مشکل ہے یہ بتانے کیلئے کہ کس کس لحاظ سے یہ صورتحال مختلف ہے۔ ایسے میں کیسا آپریشن اور کون سا آپریشن؟ جو کھینچا تانی ہو رہی ہے اسے تو پہلے ختم کیا جائے۔ جہاں محاذ آرائی باہر کے عناصر سے ہونی چاہیے محاذ آرائی اندرونی شکل اختیارکر چکی ہے۔ آپس میں ہم لگے ہوئے ہیں اور اس اندرونی محاذ آرائی کی زد میں عدلیہ جیسے ادارے بھی آ رہے ہیں۔ یہ بھی پہلے تعین کر لیا جائے کہ دشمن کون ہے اور ترجیحات بھی طے کر لی جائیں‘ پھر ہی عزم اور استحکام کی باتیں ہو سکتی ہیں۔
ٹی ٹی پی نے ریاستِ پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے اور ہم پتا نہیں کن خوابوں کی گردشوں میں گھوم رہے ہیں۔ بڑے خطرات تو پاکستان کو دو ہیں‘ ایک ٹی ٹی پی کے اعلانِ جنگ کی صورت میں اور دوسرا معاشی بدحالی‘ جس نے ہمیں بحیثیتِ قوم بھکاریوں سے بدترکر دیا ہے۔ لیکن سرکاری ترجیحات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لڑائی ہماری بالکل کسی اور نوعیت کی ہے۔ انسان سر مارے تو کس دیوار سے۔ قومی اتفاقِ رائے کا مطلب ہوتا ہے کہ ذہنی فریم ورک تو ایک ہو جس میں کچھ گفتگو ہو سکے۔ یہاں ایسا فریم ورک سرے سے موجود ہی نہیں۔ پھر کہاں کا عزم‘ کہاں کا استحکام اور کہاں کی اتفاقِ رائے؟