پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ نہیں ہوا‘ اُس نے اپنے ساتھ ہاتھ کروایا ہے۔ کیا وہ ہمارے مولانا‘ ایک ہی مولانا تو ہیں‘ کو پڑھنے سے قاصر تھے؟ مولانا کی سیاست کی ان کو کچھ سمجھ نہ تھی؟ یہ پہچاننے میں کتنی عقل چاہیے کہ قبلہ مولانا نے کبھی کسی دیوار سے سینگ نہیں ٹکرائے۔ نہایت ہی سمجھدار آدمی ہیں‘ پھونک پھونک کے چلتے ہیں‘ اور جیسا کہ پنجابی محاورہ ہے‘ اُنہوں نے کبھی تَتے پر پیر نہیں رکھا۔ کیا پی ٹی آئی والے بھول گئے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مولانا اور اُن کے ہمنواؤں کا رول کیا رہا تھا؟ مشرف کے دور میں ہی متحدہ مجلس عمل بنی تھی اور مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد نے صوبہ سرحد میں حکومت کی تھی۔ تقریریں ان کی جتنی بھی دھواں دار ہوں‘ مشرف کے ہر ایک اقدام کا انہوں نے ساتھ دیا۔ اور یہ جو سارا رجیم چینج کے بعد پی ڈی ایم کا معاملہ تھا‘ اس میں کلیدی کردار مولانا کا نہیں تھا؟ ساری اُس کارروائی میں جو رجیم چینج پر ختم ہوئی‘ مولانا اُس کے روحِ رواں تھے۔ تو چھبیسویں ترمیم کے معاملے میں پی ٹی آئی کیا توقع کر رہی تھی؟
یہ درست ہے کہ شروع میں جب اس ترمیم کو لانے کی کوشش کی گئی تو مولانا نے بڑے گرج دار طریقے سے اُس کی مخالفت کی۔ شاید اسی امر کی وجہ سے پی ٹی آئی نے آنکھوں اور عقل پر پٹی باندھ لی اور اس کے زعما مولانا کے ڈیرے کے چکر لگانے لگے۔ چکر بھی کیسے لگائے کہ حاضریاں دیتے ہی گئے۔ ایک طرف صدر آصف زرداری‘ وزیراعظم شہباز شریف‘ اپنے آپ کو جو مستقبل کا ستارہ سمجھتے ہیں‘ بلاول زرداری‘ مولانا کو منانے میں لگے ہوئے تھے اور ساتھ ہی بیرسٹر گوہر اور اُن کے ساتھی مولانا کے در پر حاضریاں دیتے جا رہے تھے۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے سامنے تو مقصد واضح تھا کہ اُنہیں مولانا کے ووٹ چاہیے تھے اور اُنہیں یقین تھا کہ مناسب منت سماجت کے بعد مولانا رام ہو جائیں گے۔ بلاول کو داد دینا پڑتی ہے کہ وہ اس یقین سے کبھی نہ ہٹے کہ مولانا کی پھوں پھاں کے باوجود آخرکار وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوکر اس آئینی ترمیم کی حمایت کریں گے۔ عجوبہ تو پی ٹی آئی کا ہے کہ وہ کس خیال میں مولانا کی خوشامدیں کر رہی تھی۔ پی ٹی آئی کا تو دوٹوک مؤقف یہ ہونا چاہیے تھا کہ چھبیسویں ترمیم اعلیٰ عدلیہ پر کھلا وار ہے اور جیسے بھی حالات ہوں‘ ہم نے اس کی مخالفت کرنی ہے۔ مولانا کے پاس بار بار جانے سے پرہیز کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان حاضریوں سے جہاں مولانا کی گُڈی اوپر جا رہی تھی‘ پی ٹی آئی کا امیج خراب ہو رہا تھا۔ پر پتا نہیں بانی پی ٹی آئی کو اندر جاکر کیا کچھ بتلایا جاتا تھا اور بتلائے جانے کی روشنی میں پتا نہیں وہ کیا ہدایات جاری کرتے تھے۔ لیکن اس قضیے میں پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو خراب کیا ہے۔ اگر بیرسٹر گوہر وغیرہ کا یہ خیال تھا کہ ہماری چکنی چپڑی باتوں سے مولانا پھسل کر ہمارے ساتھ آ کھڑے ہوں گے تو ایسی خام خیالی کا شاید حکیم لقمان کے پاس بھی کوئی علاج نہ ہو۔
اس سارے تناظر میں یہ سوال بھی بنتا ہے کہ یہ جو آپ جلسوں کی کالیں دے رہے تھے اس کا کیا مقصد تھا؟ سنگجانی میں بڑا جلسہ ہو گیا تو اُس سے کیا ہوا؟ لاہور کے جلسے کو پولیس نے درمیان میں روک دیا۔ اور پھر یہ جو ڈی چوک پر یلغار تھی جہاں بڑے والہانہ انداز سے علی امین گنڈاپور آئے اور اسی والہانہ انداز سے موقع سے غائب ہو گئے‘ اس سے کیا حاصل ہوا؟ اس سے کوئی انکار ہے کہ پی ٹی آئی ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہے؟ جبر واستبداد کے تمام ہتھکنڈے سہہ اور برداشت کر رہی ہے۔ لیکن حالات کو دیکھ کر ہی حکمت عملی بننی چاہیے۔ یہ جو بغیر سوچے احتجاج کی کالیں آ جاتی ہیں اس سے سوائے ورکروں کے تھکنے کے اور کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کو یہ توکوئی مجبوری نہیں کہ وہ اپنی عوامی حمایت ثابت کرتی پھرے۔ یہ تو جس قسم کا ڈھونگ فروری کے الیکشنوں میں رچایا گیا اُس سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ عوامی مقبولیت ہے تو پی ٹی آئی کی ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی تو بار بار عوامی طاقت دکھانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی تھی۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاست ہی کر سکتی ہے۔ یہاں کوئی پہاڑوں پر جنگ نہیں ہو رہی کہ کسی ہوچی من یا چے گویرا کی کھوج لگائی جائے۔ ہاں‘ جبر کا موسم چل رہا ہے‘ من مانیاں ہو رہی ہیں لیکن پی ٹی آئی نے اس کا جواب سیاست سے ہی دینا ہے۔ اور کوئی راستہ تو ہے نہیں۔ حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہو گا‘ انتخابات میں کیا ہوا ساری قوم کو معلوم ہے۔ لیکن سہاروں کے ساتھ ہی سہی حکومت بیٹھی ہوئی ہے۔ چھبیسویں ترمیم پر جتنی تنقید کی جائے بجا ہے لیکن جن طریقوں سے بھی کیا‘ حکومت نے اسے منظور تو کروا لیا۔ اور ووٹ جب اس کے حق میں ڈل چکے تھے تب وہ منظر دیکھنے کے قابل تھا کہ سب قبلہ مولانا سے ہاتھ کیسے ملا رہے تھے۔ جب سب خوشی سے پھول رہے تھے تب بھی پی ٹی آئی کے زعما کو بات سمجھ نہیں آئی؟
چلیں در پر حاضریاں تو ایک بات ہوئی لیکن جب مولانا نے اپنا ارادہ ظاہرکر دیا تھا کہ وہ ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالیں گے تو پھر بیرسٹر گوہر کو کیا سوجھی کہ مولانا کی تعریف کے ڈونگرے برسانے لگیں؟ ٹی وی پر سنتے حیرانی کی انتہا نہ رہی کیونکہ تعریف میں بیرسٹرصاحب بولتے جا رہے تھے۔ اتنا تو پھر سوچئے کہ اگر مولانا کی اتنی تعریف کی گئی تو پھر (ن) لیگ اور پی پی پی کتنی قصوروار ٹھہریں کیونکہ جو ثواب کا کام مولانا کر رہے تھے وہی انہوں نے کیا‘ یعنی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالے۔ جب حرکت برابر کی تو تعریف بھی برابر کی بنتی ہے۔ پی ٹی آئی سے یہ بھی کوئی پوچھے کہ اگر ترمیم کے بارے میں اتنے اعتراضات ہیں تو اُس پارلیمانی کمیٹی جس نے چیف جسٹس کا تعین کرنا ہے ‘ کاحصہ بننے پر کیوں یہ تاثر دیا گیا کہ پی ٹی آئی بھی اس میں شامل ہو گی؟ اچھا ہوا کہ عقل آئی اور اس کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ دیر آید درست آید۔
ایک بات مانیے کہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ وہ نہیں کیا جو اس ترمیم نے کر ڈالا ہے۔ پہلے والوں نے پی سی او کے ذریعے من پسند جج اعلیٰ عدلیہ میں بٹھائے لیکن اعلیٰ عدلیہ کی ہیئت اور سٹرکچر کو تبدیل نہ کیا۔ یہ جو آج کے قانونی ماہر آئے ہیں انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جج ان کی مرضی کے لگیں گے‘ آئینی پٹیشنوں کو نئے تشکیل شدہ آئینی بینچ میں بھیج دیا جائے گا‘ ہائیکورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی جوڈیشل کمیشن دیکھے گا اور کسی ہائیکورٹ میں کوئی رِٹ لگی اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی تو اُسے کسی اور ہائیکورٹ حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں بھی منتقل کرنے کی سہولت موجود ہو گی۔ قبلہ مولانا فرماتے ہیں کہ کالے ناگ کے ہم نے دانت نکال دیے ہیں۔ نکالے ہیں تو یہ والے کون سے دانت ہیں جو باقی رہ گئے ہیں؟ ضیا اور مشرف کے دور میں یہ امید رہتی کہ حالات اگر نامساعد ہیں تو جب بہتر ہوں گے تو عدلیہ بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔ یہاں تو سرے سے ہر چیز تبدیل کر دی گئی ہے۔ بانس کا ہی ستیاناس ہو جائے توبانسری نے کیا بجنا ہے۔
دھیمی آواز میں چند وکلا بھرپورتحریک کا انتباہ کر رہے ہیں۔ فی الحال مشورہ ہے کہ آرام سے بیٹھیں کیونکہ زیادہ تر وکلا چین کی نیند سو رہے ہیں۔