کہنا یہ چاہتے تھے کہ حضور سیدھا سیدھا وہ کیجیے جو ضیا الحق قبیل کے حکمرانوں نے کیا تھا‘ یعنی آئین کو ایک طرف رکھیے اور اپنی مرضی کیجیے۔ مسئلہ یہاں یہ بنا ہوا ہے کہ ہمارے کرم فرما کرنا وہ چاہتے ہیں جو ایوب خان اور ضیا الحق نے کیا تھا لیکن ویسا ماحول نہیں بنا پا رہے۔ اسی سے ان کے لیے سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ دل میں آرزوئیں بہت ہیں لیکن پوری نہیں ہو رہیں۔ کالا باغ کے عزائم ہوں توکالا باغ کے ہتھیار بھی ہونے چاہئیں لیکن یہاں وہ صورتحال نہیں بن پا رہی۔ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن عدالتیں آڑے آ رہی ہیں۔ عدلیہ کو صحیح راستے پر لانے کے لیے وہ زور لگانا پڑ رہا ہے کہ حلیہ بدل رہا ہے اور پسینے چھوٹ رہے ہیں مقصد پھر بھی حاصل نہیں ہو رہا۔
اسی لیے عرض کیے دیتے ہیں کہ جن جھمیلوں میں آپ پھنسے ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے لیے سیدھا سیدھا کام کیجیے۔ ایک تو کسی شریف الدین پیرزادہ کو ڈھونڈ نکالیے۔ معافی چاہتے ہیں لیکن آپ کے قانونی مشیران خاصے نکمے ثابت ہو رہے ہیں۔ کوئی شریف الدین پیرزادہ ہوتے تو اب تک کئی راستے نکال چکے ہوتے۔ بہرحال ہم ہی کچھ رائے دے دیتے ہیں کہ ایک پی سی او یا عارضی آئینی آرڈر نافذ کیجیے اور جیسا کہ ہمارے یہاں ہوتا رہاہے کہ جج صاحبان سے نیا حلف لیا جائے۔ جو جج صاحبان تھوڑے مشکل ثابت ہوں اور جن کے سروں پر آئین اور قانون کا بھوت سوار ہو‘ انہیں حلف کی دعوت نہ دی جائے۔ وہ خود ہی گھر بیٹھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور جو پسندیدہ ہیں ان سے حلف لیا جائے‘ کچھ اوروں کو بھی شامل کر لیا جائے اور نئی عدالتوں کا قیام ظہور پذیر ہو جائے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ جو آپ کر رہے ہیں‘ نت نئے قانون پارلیمنٹ میں لا رہے ہیں اور پھر پارلیمنٹ میں آپ سے مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہو رہی۔ قانون بھی ایسے ہیں کہ ان کی ہیئت دیکھ کر عوام الناس کی ہنسی نہیں رکتی۔ مخالف ذہنیت رکھنے والے وکلا ان پر تبرے کَس دیتے ہیں۔ جس پر حالت اور غیر ہو جاتی ہے‘ غصے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ہر چیز کا ستیاناس ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے وہ کریں جو کہ ہم تجویز کر رہے ہیں۔ لیکن حال یہ ہے کہ اکھاڑے کا شوق تو ہے‘ پہلوانی کے صحیح گُر آتے نہیں۔
یہی دیکھ لیجیے کہ سرکش رہنما ہے تو اندر‘ سلاخوں کے پیچھے‘ کوئی گولہ بارود استعمال نہیں کر رہا بس ایک احتجاج کی کال دے دیتا ہے اور آپ کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ راولپنڈی میں لوگ جمع نہ ہو سکیں‘ اس لیے آپ نے شہر کو ایسا بند کردیا کہ شاید کوئی تاتاری فوج بھی نہ کر سکتی۔ احتجاج کے نہ ہونے کو آپ اپنی کامیابی قرار دیں گے لیکن شہر کے بند ہونے کو ہم تو آپ کی ناکامی سے تعبیر کریں گے۔ ایک مثال شاید برمحل ہو‘ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم تھے تو بے نظیر بھٹو نے لیاقت باغ پر ہی لانگ مارچ کی کال دی۔ بھاری مینڈیٹ والی حکومت تھی لیکن پسینے چھوٹ گئے۔ جنرل آصف نواز فوج کے کمانڈر تھے‘ اُن سے امداد طلب کی گئی۔ فوجی دستے سامنے آ گئے اور پورے راولپنڈی کو بند کر دیا گیا۔ محترمہ چھپتی چھپاتیں پھر بھی ایک دو گاڑیوں کے ساتھ شام لیاقت باغ پہنچ گئیں۔ وہاں سے پھر اسلام آباد کو لوٹیں ۔گو اُن کے ساتھ دو ہی گاڑیاں تھیں لیکن شام ڈھلے اس دن کے واقعات کا تخمینہ لگایا گیا تو شکست حکومت کی بنتی تھی اور کامیابی محترمہ کی۔ اب بھی وہی ہو رہا ہے‘ ان سطور کے لکھنے کے وقت پورا راولپنڈی شہر بند ہے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کا زمینی رابطہ منقطع۔ راولپنڈی اور آس پاس کے اضلاع میں دفعہ 144نافذ ہے۔ خود انصاف کیجیے‘ سرکار چلانے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ سرکش جماعت کے لوگ سڑکوں پر نہیں آ سکے لیکن آپ کے ہوش تو اُڑ گئے۔ کامیابی پھر کس کی ہوئی؟
وہ جو بیکری والی وڈیو بنی ہے‘ اس کی تفصیل میں نہیں جاتا کیونکہ اعتراض اُٹھ جائے گا اور ویسے بھی وہ وڈیو اتنی پھیلی ہے کہ معمولی سا اشارہ بھی کافی ہے اور وہاں تک لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ کسی کی بھی سرِعام تذلیل اچھی بات نہیں لیکن ایسے واقعات اصل حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کا موڈ کیا ہے۔ جس قسم کی زور زبردستی ان لگ بھگ پچھلے دو سالوں میں آزمائی جا چکی ہے‘ اس سے کام چل نہیں رہا۔ لوگ تائب نہیں ہورہے۔ لوگوں کا اپنا مزاج ہے‘ اپنا ذہن بنا رہے ہیں اور سرکاری باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہاں کل کلاں دودھ اور شہد کی نہریں اس دھرتی پر پھوٹ پڑیں پھر اور بات ہے‘ لوگوں کا ذہن شاید بدل جائے لیکن اب تو ایسا نہیں ہے۔ اسی لیے ہم لاچاروں کی استدعا ہے کہ ہمت پیدا کریں اور من کی آشا پوری کرنے کے لیے وہ کریں جو سابقہ ادوار کے گھڑ سواروں نے کیا۔ لیکن ارادے اور تکمیل کے بیچ میں آپ لٹکے ہوئے ہیں اور اس کیفیت میں قوم بھی لٹکی ہوئی ہے۔ یہی ہماری ریاست اور معاشرے کا مسئلہ ہے‘ ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ جانا کہاں ہے اور اس سفر کا مقصد کیا ہے۔ قوم کے لیے ایک خوشخبری البتہ بنتی ہے۔ وزیراعظم سات سمندر پار اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے نیویارک پہنچتے ہیں۔ دیس میں ہماری بات سننے کے لیے کوئی تیار نہیں لیکن ہمیں زعم کھائے جاتا ہے کہ دنیا ہماری باتیں سننے کے لیے بے قرار ہے۔ بہرحال اتنی کامیابی تو ہوئی کہ مالدیپ کے صدر نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ یہ ہمارا اعزاز ہے کہ کسی اور حکمران نے یہ شرف حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہماری قومی ترقی کے عمل پر تو ایک نظر دوڑائیے ۔ ایوب خان اور ان کے گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ جابر حکمران سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اُس زمانے میں لاہو رکے مال روڈ پر متعدد کتب خانے تھے اور ایک سے ایک عمدہ ریستوران جہاں وکلا‘ سیاستدان‘ صحافی اور ادیب چائے پینے شام کو اکٹھے ہوتے تھے۔ سیاست پر گفتگو ہوتی‘ طرح طرح کے انقلاب کی باتیں ہوتیں۔ چائے کا وقت جاتا تو اشراف اور صاحبِ ذوق مال پر جو متعدد آسودگیٔ شب کے ٹھکانے تھے‘ ان کا رُخ کرتے۔ آج کا دورکیسا‘ کتب خانے اُجڑ گئے‘ پورے مال پر ایک ڈھنگ کا ریستوران نہیں رہا اور جہاں تک مے کدوں کی ویرانی کا سوال ہے اس کا ذکر ہی بیکار۔ سولہ سال کی عمر تھی جب لارنس کالج سے پڑھ کر میں لاہور آیا۔ نہ عمر تھی نہ جیب میں پیسے تو تب کی لاہور کی محفلوں میں کیا شریک ہونا تھا لیکن فٹ پاتھ پر نامور وکیل اور سیاستدان نظر آتے تھے جو شیزان اور لارڈز میں چائے پینے اور دنیا جہاں کی گفتگو کرنے کے لیے مجمع لگاتے۔ کبھی دھڑکتے دل سے اِنڈس ہوٹل کی بار میں جانے کا اتفاق ہوتا۔ فلیٹیز کا سوچ بھی نہ سکتے تھے کیونکہ ہماری پہنچ سے باہر تھا۔ مال کے فٹ پاتھ پر ایک پرانی کیڈیلیک کھڑی ہوتی تھی‘ خستہ حال لیکن پھر بھی پُرشکوہ۔ آس پاس کے کسی فلیٹ سے شام کو ایک صاحب نکلتے‘ ڈبل برسٹڈ سوٹ پہنے۔ کیڈیلیک میں بیٹھتے اور شاید شام کے رندوں کی کسی محفل میں اس وقت جاتے۔
اب مال روڈ کے اس حصے پر جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں ہیں۔ لاہور میں نجی محفلیں رہ گئی ہیں۔ اس عمر میں ایسی محفلوں کو ہم کیا کریں؟ موسیقی ایسی جو کانوں کو نہیں بھاتی‘ رقص ایسا کہ رقص کم اور اُچھل کود زیادہ۔ ہم بھی کیا گزرے زمانے کی باتیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن اور کریں بھی کیا؟ فلیٹیز کا وہ حال ہے کہ جانے کا دل نہیں کرتا۔ زمانہ تھا جب لمبی لمبی پرانی امریکی کاریں باہر کھڑی ہوتی تھیں۔ راہِ الفت کے سفر انہی میں طے کیے جاتے تھے۔ گئیں وہ کاریں اورگئے وہ نظارے‘ یادوں کے سہارے ہی زندگی گزرتی ہے۔