غزہ کی صورتحال پر لکھنا کب سے چھوڑ دیا کیونکہ ایسے حالات میں رونا پیٹنا بے سود لگتا ہے۔ یہی صورتحال اب لبنان میں ہے‘ جہاں اسرائیلی فوج نے زمینی حملے کا آغاز کر دیا ہے۔ حسن نصراللہ کے مارے جانے کے بعد دل ڈوب سا گیا ہے اور میدانِ جنگ سے دور بیٹھے کورے کاغذ کے ٹکڑوں کو کالا کرنے سے کیا ہو سکتا ہے۔ حالیہ ہفتوں اور پچھلے چند ماہ میں حزب اللہ نے بہت نقصان اٹھایا ہے اور اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی بمباری سے کئی سینئر عہدیدار بشمول حسن نصراللہ مارے جا چکے ہیں۔ لیکن ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ نقصان کے باوجود حزب اللہ میدان میں ہے اور اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ زمینی حملے کے باوجود اب بھی حزب اللہ کے میزائل اسرائیل پر گر رہے ہیں۔ اب جو تکنیکی برتری اسرائیل کے پاس ہے حزب اللہ اُس کے مقابلے میں تکنیکی اعتبار سے کمزور ہے لیکن پھر بھی میدان میں تو ہے۔ یہ ہم سارے عرب اور مسلم ممالک کے بارے میں نہیں کہہ سکتے۔ دور دراز کے ملکوں کو تو چھوڑیے‘ لبنان اور غزہ کی پٹی کے جو ہمسائے ہیں اُن کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ دبک کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کرنا دور کی بات ہے‘ کچھ کہنے کو بھی تیار نہیں‘ اس مصلحت یا ڈر سے کہ زیادہ اونچا بولے تو امریکہ کو ناگوار نہ گزرے۔ ہم مسلمان بڑھکیں بہت مارتے ہیں لیکن ہماری اجتماعی حالت بڑی پتلی ہے‘ اتنی گئی گزری کہ اپنے پہ شرم آتی ہے۔
جنوبی لبنان میں ابھی تو اسرائیلی حملہ شروع ہوا ہے۔ لبنان کی حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ اُس میں گھسنا آسان ہے نکلنا مشکل پڑ جاتا ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ اب کیا ہوتا ہے۔ فضا میں تو اسرائیل کا کوئی مقابلہ نہیں‘ اُس کی فضائی برتری اتنی زیادہ ہے کہ فضا میں اُس کے سامنے کوئی عرب ملک یا ایران بھی ٹھہر نہیں سکتا‘ لیکن یہ جو زمین پر اب قدم رکھ رہا ہے اس کا مقابلہ حزب اللہ کر سکتا ہے۔ اور ایسی ہی جنگ کیلئے حزب اللہ نے کب سے تیاری کی ہوئی ہے۔ 2006ء میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان پہلا معرکہ ہوا تھا اور اُس میں حزب اللہ نے ایسا مقابلہ کیا کہ حساب برابر رہا۔ اسرائیلی ذہنوں میں تب سے تھا کہ حزب اللہ سے بدلہ لینا ہے اور جیسے عرض کیا‘ حزب اللہ بھی تب سے اس تیاری میں رہا کہ ایک نہ ایک دن اسرائیل سے پھر سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔
ایران کو بڑی ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ دمشق میں اُس کے سفارت خانے پر اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حملہ کیا جس سے کئی اعلیٰ عہدیدار ہلاک ہوئے۔ پھر اسماعیل ہنیہ پر حملہ تہران کی ایک سرکاری رہائش گاہ میں ہوا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس حملے سے ایران کی بہت ہی سبکی ہوئی کیونکہ ظاہر ہے حملے کا ہونا حفاظت کی بہت بڑی ناکامی تھی۔ لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ ایرانی قیادت بڑی سمجھدار ہے‘ اُس نے کوئی فوری ردعمل نہیں دکھایا کیونکہ اگر اسرائیل پر کوئی نقصان دہ میزائلوں کا حملہ ہوتا توخدشہ یہ تھا کہ امریکہ جوابی کارروائی کرے گا۔ بہت سے تجزیہ کار تو یہ کہتے آئے ہیں کہ اسرائیل کا بڑا مقصد ہی یہ ہے کہ جنگ میں ایران اور امریکہ کو کھینچا جائے تاکہ ایران کی تباہی ممکن ہو سکے۔ یہ خطرات جانتے ہوئے ہی ایرانی قیادت نے آنکھیں بندکر کے کوئی ردِعمل نہیں دکھایا۔ طاقت کا توازن اُس خطے میں ایسا ہو چکا ہے کہ ایران یا حزب اللہ اسرائیل کا ڈائریکٹ سامنا نہیں کر سکتے۔ دشمن آپ کا طاقتور ہو تو آپ کا فائدہ اس میں ہے کہ آپ دائیں بائیں اورچھپ کر اُس پر حملہ کریں۔ گوریلا جنگوں کا یہ پہلا اور بنیادی اصول ہے کہ دشمن طاقتور ہو تو پیچھے ہٹیے اورجب وہ کمزور پڑے تبھی اُس کی طرف بڑھیں۔ حماس نے اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کی۔ اچھی بھلی پوزیشن غزہ کی پٹی میں اُس کی قائم ہو چکی تھی۔ حکومت وہ چلا رہی تھی‘ عسکری قوت اُس کے پاس تھی۔ لیکن نہتے اسرائیلی شہریوں پر حملہ کرنا اور اُنہیں قتل کرنا عقل سے عاری واردات تھی۔ اُس حملے سے اُس نے اپنے اوپر جنگ اور تباہی کو مسلط کیا۔ یہ تو کتابی باتیں ہیں کہ عالمی برادری میں اسرائیل کو بہت تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ اسرائیل کے اتحادی اُس کے ساتھ ہیں‘ امریکہ بے دریغ اُس کی امداد کر رہا ہے۔ اسلحہ اور بارود اسرائیل کا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اور اسرائیلی کارروائیوں سے غزہ تباہ ہو کے رہ گیا اور کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔ اس سے حماس نے کیا حاصل کیا ہے؟
اس کے برعکس حزب اللہ اور اُس کا بڑا حمایتی ایران احتیاط سے چل رہے ہیں۔ غزہ کی سرزمین پر جنگی ظلم ڈھائے جا رہے تھے تو اخوت کی بنا پر حزب اللہ نے کچھ تو کرنا تھا۔ احتیاط کا دامن چھوڑے بغیر شمالی اسرائیل پر اُس نے بمباری جاری رکھی جس سے اسرائیل کی ایک پوری پٹی کے باسیوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن اس سے زیادہ حزب اللہ نے نہیں کیا۔ یہ تو اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ غزہ کی تباہی کے بعد حزب اللہ سے حساب چکانا ہے لہٰذا یہ زمینی حملہ‘ لیکن زمینی حملے میں فضائی برتری والی بات نہیں رہے گی۔ زمین پر اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے جنگجو آمنے سامنے ہوں گے تو فضائی رول کم پڑے گا۔ 2006ء میں حزب اللہ نے اسرائیل کے مرکاوا ٹینکوں کا خوب مقابلہ کیا تھا۔ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
ایک چیز اور نہیں بھولنی چاہیے کہ اسرائیلی معاشرے کی توانائی کی ایک بڑی وجہ اسرائیلی جمہوریت ہے۔ اسرائیل عربوں پر ظلم ڈھاتا ہے لیکن داخلی طور پر اسرائیل میں جمہوریت قائم ہے۔ اسرائیل کا سربراہ کوئی بادشاہ یا شیخ نہیں بلکہ پارلیمنٹ سے منتخب شدہ آدمی ہے۔ اور اسرائیل کا میڈیا اور اسرائیل کی عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ مغربی کنارے پر بستے عربوں کی کوئی آزادی نہیں ہے لیکن اسرائیلی شہریوں کے بنیادی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ وہاں اسرائیلی شہری اٹھائے نہیں جاتے یا گمشدہ نہیں کیے جاتے۔ جیسا ہم نے دیکھا اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو جو حملہ اسرائیلی سپریم کورٹ پر کرنا چاہتا تھا‘ اُس کے خلاف دورانِ غزہ جنگ‘ بڑے بڑے جلوس اسرائیلی شہروں میں نکلے۔ حتیٰ کہ اسرائیلی فوج اور ایئر فورس کے جو ریزروسٹ (reservist) جن کو جنگ کی صورت میں سروس کیلئے بلا لیا جاتا ہے‘ وہ بھی ان جلوسوں میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے بھی ا پنی آواز اسرائیلی سپریم کورٹ کے حق میں اٹھائی۔ یہ بنیادی فرق ہے اسرائیلی اور ہمارے معاشروں میں۔ وہاں جمہوریت ہے اور ہمارے ملکوں میں پتا نہیں کون کون سے نظام ہیں۔ اس فرق کو ہم کیوں نہیں سمجھتے؟ اس پر کیوں نہیں کچھ غور کرتے؟
یہ کہنا کہ اسرائیل کو امریکی امداد ملتی ہے‘ جزوی سچ ہے۔ امداد ملتی ہے لیکن یہودی ریاست کو وہاں کے یہودیوں نے مضبوط اور ترقی یافتہ بنایا۔ یہ بات بھی فراموش نہ کی جائے کہ وہاں کے یہودی زیادہ تر وہاں کے رہنے والے نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ سے آئے ہیں۔ یعنی کلچر اور تعلیم کے لحاظ سے اس خطے کے باسیوں سے وہ کہیں آگے تھے۔ جو اسرائیل کی یونیورسٹیاں اور ریسرچ سنٹر ہیں اُن کا مقابلہ عرب یا مسلم دنیا کر سکتی ہے؟ تعلیم اور ریسرچ میں وہ صفِ اول کے ملکوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ جو اُن کی خفیہ ایجنسی موساد نے پیجروں والی کارروائی کی‘ کہ پیجرکھلیں اور اُن میں دھماکا ہو جائے‘ یہ کوئی عام کارروائی تھی؟ تعلیم اور ریسرچ کے اعتبار سے کوئی پسماندہ ملک ایسی پیچیدہ حرکت کو روبہ عمل لا سکتا تھا؟ ان چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ صدیاں بیت چکی ہیں کہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم اب بھی پیچھے ہیں۔ عیسائی ہم سے آگے‘ یہودی آگے‘ اب تو ہندو بھی آگے۔ پر ہم جیسے نعرے تو کوئی لگائے۔