جس جماعت کے پیچھے خیبرپختونخوا اورپنجاب کے عوام کھڑے ہیں سب کو معلوم ہے‘ عوامی ٹیسٹ کا کوئی بھی امتحان ہو وہی جماعت سرخروہوگی۔ لیکن وہ جماعت اپنی مرضی کے انتخابات نہیں کراسکتی اور نہ ہی یہاں بنگلہ دیش کرسکتی ہے۔ اُس کیلئے وہ حالات ہی نہیں‘ بے چینی ہوگی لیکن یہاں ٹمپریچربنگلہ دیش والا ابھی تک پیدانہیں ہوا۔ اس کے برعکس بھی صورتحال اسی قسم کی ہے۔ پی ٹی آئی کو دبایاتوہوا ہے‘ پکڑدھکڑ ہوئی ہے اورجاری بھی ہے‘ لیکن اُس جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ لاکھ کوششیں کی گئی ہیں لیکن یہ مطمح نظرپورا نہیں ہوا۔ جس کا مطلب ہے کہ قومی صورتحال ایک سٹیلمیٹ (Stalemate) کاشکار ہے۔سیاسی حالات منجمد ہیں اورحکمرانی یا جسے انگریزی میں گورننس کہتے ہیں‘اُس کا ستیاناس ہوکررہ گیا ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ دیگچی کو ڈھانپ کردبادیا جائے اور اندر ہنڈیا میں چیزیں پکتی رہیں۔منہ سے تھالی ہٹے بھاپ توپھر نکلے گی اور کئی د فعہ بھاپ نکلنے سے نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال نارمل نہیں‘ منجمد کا مطلب چیزیں رُکی ہوئی ہیں۔ملک کا پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے اور ہرگزرتے دن بڑھتا جارہا ہے۔ سمجھنے کی کچھ ضرورت ہے‘ کہ نہ سرکش جماعت نے بدلنا ہے نہ دائرۂ طاقت کی سوچ میں تبدیلی کاکوئی امکان ہے۔ نہ خوئے بغاوت میں کمی نہ سوئے دار میں تبدیلی۔ رگڑے میں قوم ہے اور قوم رگڑی جا رہی ہے۔
گوپنجاب بنگلہ دیش کی طر ف نہیں جارہا لیکن مجموعی طورپر ملک میں کچھ اورہورہا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صورتحال خطرے کی طرف جا نہیں رہی‘ جاچکی ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ قومی سوچ کا مرکز ان دوصوبوں کی صورتحال ہو لیکن چونکہ مختلف محاذ کھلے ہوئے ہیں‘ قومی سوچ انتشار کاشکار ہوگئی ہے۔جو توجہ طویل مغربی سرحدپر ہونی چاہیے وہ ادھراُدھر بکھری پڑی ہے۔اعلیٰ اجلاسوں میں چہروں پر ایک نظرڈالی جائے توتناؤ کے اثرات صاف نظرآتے ہیں اور یہ کوئی عجوبہ نہیں کیونکہ قومی صورتحال واقعی گمبھیر ہوچکی ہے۔ اس کاکوئی حل ہونا چاہیے‘ کتنی دیر انتشار اورافراتفری کے راستے پر ہم چلتے رہیں گے؟ یہی اسلام آباد والا جلسہ دیکھ لیجئے۔ ایک جلسہ ہی تھا‘ نارمل طریقے سے کرایاجاسکتا تھا اورایسا ہوتا توآسمانوں نے کچھ گرنا نہیں تھا۔ لیکن انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کاوہ عالم کہ لگتا تھا کوئی تاتاری فوج آ رہی ہے اور شاید دارالحکومت پر حملے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کنٹینرو ں کواتنا پکڑا اور استعمال کیا گیا کہ کروڑوں کا خرچہ اس پر آیا ہوگا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ اصل خطرے کی صورتحال دومغربی صوبوں میں ہے لیکن ساری ٹینشن معتوب جماعت کے حوالے سے ہے۔
پھبتی کسنے کی بات نہیں لیکن یہ جو ظاہری طورپر حکومت میں ہیں یہ پتلے ہیں‘ ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں۔اول تو یہ کچھ کرنا نہیں چاہتے‘ وہ صلاحیت ہی نہیں‘ لیکن کرنا چاہیں بھی تونہیں کرسکتے کیونکہ طاقت کا جوتوازن ہے ہم سب اُس سے باخبرہیں۔لہٰذا اس جمود کی صورتحال کو توڑنے کی خاطر اگرکچھ کرنا ہے تویہ پہل کہیں اور سے ہوگی۔ یہ توبہت اچھا کہا گیا ہے کہ سیاسی رویوں کو دشمنی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے لیکن جیسا کہ قوم کو بخوبی علم ہے یہاں رویے ہی ایسے رہے ہیں کہ تفریق کی لائنیں بہت گہری ہوگئی ہیں۔ مل بیٹھ کر اب کسی حل کا سوچاجاناچاہیے‘ اس کی اشد ضرورت ہے۔
ایک تو بات واضح ہو گئی کہ نومئی 2023ء کے بعد جو بھی صورتحال پیدا ہوئی مطلوبہ مقاصدحاصل نہیں ہوسکے اور معتوب جماعت تابعداری کے راستوں پر چلنے کیلئے آمادہ نہیں ہوئی۔ اس مقصد کیلئے جو طورطریقے آزمائے گئے قوم کو اُن کا بخوبی علم ہے۔بہرحال ہم جب فوج میں تھے توایک جملے کواکثر سنتے کہ ناکامی کو تقویت نہیں پہنچانی چاہیے(Never reinforce failure)یعنی کسی چیز میں ناکامی ہوئی ہے توپھر ناکامی پر زورنہیں دینا چاہیے۔ معتوب جماعت کو بھی پتاچل گیا ہوگاکہ گو عوام اُس کے ساتھ ہیں‘ بنگلہ دیش والی صورتحال نہیں پیدا ہورہی۔ عوامی حمایت تو تب ہی کارگر ہو اگر کوئی اسے راستہ ملے‘ راستے ہی بند ہوں اورزورزبردستی سے کام لیا جا رہا ہو عوامی حمایت بے دلی یا غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔سنگجانی والا بہت بڑا جلسہ تھا لیکن جلسے تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں‘ عوام نے اپنی اصل رائے کا اظہار انتخابات میں بھی کردیا‘ لیکن جماعت تو مشکل حالات سے گزر رہی ہے اور لیڈربدستور سلاخوں کے پیچھے ہے۔
بانی پی ٹی آئی کا یہ کہناکچھ مناسب نہیں لگتا کہ موت کی چکی کے اندرمرجاؤں گا‘ غلامی نہیں قبول کروں گا۔ استقامت کے اظہار کے طور پر توایسا کہنا ٹھیک ہے لیکن قوم کے لیڈروں پر اصل فرض یہ بنتا ہے کہ وہ قوم کو کسی منزل تک پہنچائیں۔ جدوجہد میں لوگ مرتے تو رہتے ہیں لیکن کوئی چیئرمین ماؤ ہو یا فیڈل کاسترواُن کا کام قوم کو آگے لے جانا ہوتا ہے۔ برما کی بیچاری لیڈر کب سے اندر ہے‘ مصر میں محمد مُرسی سلاخوں کے پیچھے مر گیا۔نہیں‘ پاکستان کو ایک معمار کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات کی صورت میں جو یہاں کھلواڑ بن چکا ہے اُس نے آسانی سے ٹھیک نہیں ہونا۔ اب اس کھلواڑ کو درست کرنا کسی عام حکومت یا روزمرہ کے لیڈروں کا کام نہیں رہا۔ لہٰذا جدوجہد تو ضروری ہے لیکن ساتھ ساتھ سوچ بچار کی بھی ضرورت ہے۔ یہ جو علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پندرہ دنوں میں اڈیالہ سے رہا کرالوں گا‘ کیا ایسی بات کہنی چاہیے تھی؟ سال بعد ایک عوامی اکٹھ ہو رہا ہے‘ تمام رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود انفرادی طور پر لوگ آئے اوراس انداز سے کہ بہت ہی بڑا جلسہ ہوگیا۔جذباتی باتیں جلسوں میں ہو جاتی ہیں لیکن غصے کے اظہار کے علاوہ قومی صورتحال کا کچھ احاطہ کیا جاتا اور کسی حکمت عملی کی طرف اشارہ آتا۔ وہاں جذباتی باتیں ہوئیں اور یہاں سرکارحرکت میں آ گئی اورپکڑدھکڑ کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔
سرکارکو بھی سوچنا چاہیے‘ پکڑدھکڑ سے کام چلتا توجماعت ختم ہوگئی ہوتی‘ اس کا نام لینے والے سامنے نہ آتے اوردبک کے اپنے اپنے کونوں میں بیٹھے رہتے۔ لیکن جیسے عرض کرچکے کہ ایسا نہیں ہوا‘ عوام وہیں کھڑے ہیں جہاں تھے۔ اب ہم کسی بیرونی دشمن سے تو گتھم گتھا نہیں‘ یہ تو ہماری اندرونی صورتحال ہے اور ہماری مجموعی نالائقی ہے کہ بحران دربحران میں پھنسے ہوئے ہیں۔یہاں کسی کو چرچل بننے کی ضرورت نہیں کیونکہ آگے سے نازی جرمنی نے حملہ نہیں کیا ہوا۔ مفروضے غلط ثابت ہوئے ہیں‘ حکمت عملیاں ناکام ہوئی ہیں۔ ایسے میں سوچ میں تبدیلی آنی چاہیے‘ کچھ لچک کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ اورکچھ نہیں تومحاذ آرائی ختم ہونی چاہیے۔ اب یہ جو مقدمات بنائے گئے ہیں ان میں کوئی جان ہوتی پھر تو اوربات تھی‘ لیکن عدالتوں میں ٹھہر نہیں پا رہے اور اڑائے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی عدالتی کارروائیاں جاری ہیں کیونکہ مقصدانصاف کے حصول کے علاوہ کچھ اور ہے۔
کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ دہشت گردی سے لڑنے کیلئے عوامی حمایت ضروری ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کیا فائدہ؟حالات ایسے ہوں کہ عوام معاشی حالا ت سے تنگ ہوں اورسیاسی حالات سے بپھرے پڑے ہوں تو پھر کون سی ہم آہنگی اورکون سی سیسہ پلائی دیوار؟ ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اتنی نصیحتیں کرکے دل کچھ اور کہتا ہے کہ یہاں رویے اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ ان میں کسی تبدیلی کا آنا محال ہے۔ ہماری تاریخ ان رویوں سے بھری پڑی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ ہمیں کچھ یاد نہیں اور ہم سیکھنے کے محتاج بھی نہیں۔نام کیا لینے لیکن کئی حکومتی زعما ہیں جن کے لبوں سے ایسی گفتگو جاری رہتی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ عہدوں پر بٹھا تو دیے گئے لیکن بات کرنے کا ڈھنگ نہیں۔ پرکیا کریں پھنسے ہوئے ہیں‘ ناٹک جاری ہیں اور عقل کی بات کسی نے کرنی نہیں۔