افسوس کرنا تو اب ایک رسم بن چکی ہے۔ پرسوں جو بلوچستان میں دہشت گردی اور حملوں کی وارداتیں ہوئیں بہت ہی بڑا واقعہ ہے‘ خاص طور پر وہ 23 بیچارے غریب پنجابی جنہیں شناخت کرکے گولیوں سے اڑا دیا گیا اس کے بارے میں جتنا کہا جائے کم ہے۔ لیکن ایک تو یہ ہے کہ غریب انسانوں کا ہماری انوکھی مملکت میں کوئی والی وارث نہیں۔ یہ تو بیچارے غریب سے غریب تر لوگ تھے جو مزدوری وغیرہ کیلئے ادھر سے اُدھر جا رہے تھے۔ ایسے واقعات غریبوں کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ دوسری بات بلوچستان کی عمومی صورتحال کے بارے میں ہے اور اگر اس بات میں کوئی شک تھا تو اب واضح ہو جانا چاہیے کہ جسے آپ ریاست کی رِٹ کہہ سکتے ہیں وہ وہاں کے دور دراز علاقوں سے کہیں اڑان کر چکی ہے۔ ہائی وے پر بسوں اور گاڑیوں کو روکا گیا اور مسافروں کو اتارکر پھر گولیاں چلائی گئیں۔ جہاں ایسا ہو جائے وہاں رِٹ آف دی سٹیٹ کی حالت عیاں ہو جاتی ہے۔ اور پرسوں تو کہیں ایک جگہ خونیں واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ اب جو تفصیل سے خبریں آ رہی ہیں اُن سے پتا چل رہا ہے کہ بلوچستان کے دس اضلاع میں حملے ہوئے۔ اتنا تو پھر پوچھ سکتے ہیں کہ وہاں سرکار کے معاملات کون چلارہا ہے‘ نظم ونسق کی ذمہ داریاں کس نے سنبھالی ہوئی ہیں؟
وادیٔ بولان میں جس پل کو اُڑایا گیا ہے اُس سے صوبے کا باقی ملک سے ریلوے کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ جو بڑی شاہراہیں ہیں اُن پر اب پنجاب سے تعلق رکھنے والے سفرکرنے سے گھبرائیں گے کیونکہ جہاں امنِ عامہ کا کوئی والی وارث نہ رہے تو پھر باہر نکلنا جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے۔ بلوچستان کے حالات یہ ہیں‘ پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں کا حال ہم دیکھ چکے ہیں‘ کے پی کے سابقہ قبائلی علاقوں میں جانا بھی اب اتنا آسان نہیں رہا۔ اس لیے دل لرز رہا ہے یہ سوچ کر کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے یا ملک کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے؟ ہم جیسی بدروحیں توکب سے کہہ رہی ہیں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں‘ کچھ ہوش سے کام لیا جائے اور ہمیں یہ بھی دھڑکا رہتا تھا کہ یہاں ایسی باتیں سننی کس نے ہیں۔ ایک تو اب اس امر کی ضرورت ہے کہ جو پٹیاں ہم نے آنکھوں پر باندھی ہوئی ہیں اُنہیں اتارا جائے اور جو دماغوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اُنہیں ذرا کھولا جائے۔ حقیقت کو دیکھنے سے ہمارے لوگ عاری تو رہتے ہیں لیکن اب تو کند سے کند ذہن آدمی پر بھی آشکار ہو جانا چاہیے کہ کے پی اور بلوچستان میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ کوئی عام دہشت گردی کی وارداتیں نہیں۔ یہ پوری طرح اِنسرجنسیز ہیں۔ مجھے اردو کا مناسب لفظ کوئی مل نہیں رہا۔ اس لیے اِنسرجنسی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی یہ دو باقاعدہ جنگیں ہیں جو جاری ہیں اوراگر یہ جنگیں ہیں تو ہماری توجہ ان پر ہونی چاہیے۔ دیگر کاموں کو چھوڑ کر ان دو بغاوتوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا قومی دھیان بٹا ہوا ہے‘ زیادہ توجہ ہماری فروعی کاموں پر لگی ہوئی ہے۔ یہ جو اندرونی سیاسی محاذ کھلا ہوا ہے ساری توانائیاں ہم نے اس میں برباد کرکے رکھ دی ہیں۔ اس اندرونی محاذ کوختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ستم تو دیکھئے کہ یہاں باتیں فائروال کی ہو رہی ہیں کہ ایسے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا کر ہم نے سوشل میڈیا کو قابو میں لانا ہے۔ سوشل میڈیا میں جو لوگ دلچسپی دکھاتے ہیں اُن کیلئے ایک باقاعدہ نام چنا گیا ہے جسے میں دہرانا نہیں چاہتا کیونکہ حالت اب یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ لفظ لفظ کو پھونک کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں آگ لگی ہو تو ٹھیک ہے لیکن اظہارِ رائے سے ہم نے خائف رہنا ہے۔ کے پی اور بلوچستان میں اور اب تو کچے کے علاقے میں بھی اگلے راکٹ برسا رہے ہیں لیکن ہمیں فکر سوشل میڈیاکی لگی ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال کو دیکھ کر دل کرتا ہے سر کسی دیوار میں دے ماریں۔
ہمیں کسی ایک سیاسی جماعت کی فکر نہیں۔ بات اب ایک جماعت سے آگے نکل چکی ہے۔ ملک کی قسمت‘ اس کا مستقبل‘ اس کی خیر خواہی اور بقا یہ سب داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ میں پچھترویں سال میں ہوں‘ میں نے تو کسی اور ملک میں جانا نہیں۔ دبئی وغیرہ اوروں کیلئے ہوں گے ہمارے جیسوں کیلئے نہیں۔ اسی لیے ہمیں فکراس دھرتی کی لگی ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پھر دہرائے دیتے ہیں کہ کسی ایک جماعت سے سروکار نہیں‘ پر ملک سے تو ہے۔ ملک کے معاملات صحیح طریقے سے نہیں چل سکے اسی لیے تو اس نہج پر ہم پہنچے ہیں۔ کہنے کو تو یہ بات درست ہے کہ اُن 23 پنجابیوں کو بلوچ دہشت گردوں نے مارا لیکن اصل میں دیکھا جائے اُن غریبوں کو ہماری کم عقلی نے مارا کہ حالات ہی ایسے بن گئے ہیں کہ راکٹ لانچروں اور بموں کی آوازیں اُن دو صوبوں میں سنائی دے رہی ہیں۔ جب سیاست فنا ہو جائے‘ معاشی حالات ابتر ہو جائیں اور معاملاتِ ریاست سے اعتماد اٹھ جائے تو پھرانہی آوازوں نے سنائی دینا ہے۔
یہاں اگر یہ حالات ہیں تو دیگر قومیں ان سے بڑھ کر خطرناک حالات سے گزری ہیں۔ یورپ‘ امریکہ‘ جاپان اور روس براعظموں کی جنگوں سے گزرے ہیں۔ لیکن وہ جنگیں ایسی حکومتوں نے لڑیں جن پر اُن کے عوام کا اعتماد تھا۔ عوامی رائے ملحوظِ خاطر نہ رکھی جائے‘ جمہوریت کے نام پر ناٹک رچائے جائیں‘ ایسے چہرے اقتدار میں لائے جائیں جن پر کسی کا کوئی اعتماد نہ ہو یہ تو کوئی حالات نہیں جن سے جنگیں لڑی جا سکیں۔ کوئی بتائے تو سہی کہ کون سا وہ لیڈر ہے جو قوم میں ولولہ پیدا کر سکتا ہے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ جس قسم کی موجودہ حکومتیں ہیں وہ یہ کام کر سکتی ہیں؟ کوئی ایسی قیادت تو ہو جسے جنیوئن کہا جا سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اندرونی محاذ آرائی کی کیفیت ختم کی جائے۔ اس وقت خطرے میں کوئی تنہا سیاسی جماعت یا لیڈر نہیں‘ خطرے میں ملک ہے۔ یہ جن دو بغاوتوں کا ذکر ہوا ہے بڑی خطرناک چیزیں ہیں۔ ہمارے وجود کو ان سے خطرہ پڑ رہا ہے۔ لیکن یہاں ہم سیاسی رقابتوں کے چنگل سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ خطرے کی نوعیت کچھ اور ہے‘ توانائیاں کہیں اورصرف ہو رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس سلسلے کو ختم کون کرے؟
سیاسی طور پر چھوٹے لوگوں کی قیادت سے کام نہیں چلنے والا۔ کوئی سچے دل سے یہ کہے کہ موجودہ وزیراعظم یہ ذمہ داری پوری کر سکتے ہیں تو میں اپنا نام تبدیل کر لوں۔ وقت ایسا آن پہنچا ہے کہ پاکستان کو دلیر اور مدبر قیادت چاہیے‘ ایسے لوگ جن پر عوام بھروسا کر سکیں۔ بلوچستان میں باقاعدہ ایک اسمبلی موجود ہے‘ صوبائی حکومت ہے لیکن کیا حکومت اور کیا اسمبلی‘ ان پر کوئی اعتماد کرتا ہے؟ سرکار کے لوگ تو اب بیچارے ڈرے بیٹھے ہیں۔ ایف سی وغیرہ کے لوگوں کی وہاں حالت کیا ہو گی جنہیں اب آئے روز کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان میں پہلے بھی شورشیں ہوئی ہیں لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو اَب وہاں ہو رہا ہے ماضی کی تمام بغاوتوں سے مختلف ہے۔ سرکاری مشینری تو ناکارہ ہوتی جا رہی ہے‘ وہاں کی قوم پرست جماعتیں بھی غیر متعلق ہو چکی ہیں۔ سرداروں کو اب وہاں کوئی نہیں پوچھتا۔ اس موجودہ شورش میں ایسے نوجوان لوگ شامل ہیں جن کا اعتبار انتخابات اور اسمبلیوں سے اُٹھ چکا ہے۔ یہاں تک حالات پہنچنے نہیں چاہئیں تھے لیکن پہنچا دیے گئے ہیں اور یہ ہماری مجموعی ناکامی ہے۔
ایئرکنڈیشنڈ ہالوں میں پریس کانفرنسیں کرنا اور وہاں آنکھیں دکھانا اور پھبتیاں کَسنا اس سے اب کام نہیں چلے گا۔ بیکار کی ضد دکھانے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے‘ نہیں تو اسی روش پر چلتے رہے توسب کچھ بہہ جائے گا۔