وہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا۔ شام کو آرمی کلب کے ممبر بار میں آتے تھے۔ ان کے لیے مشروبات کا اہتمام بھی یوسف کے فرائض میں شامل تھا۔ دراصل منیجر نے اپنی ساری ذمہ داری نوجوان یوسف کے کندھوں پر ڈال دی تھی۔ آرمی آفیسرز کی اکثریت گوروں کی تھی‘ یہ آفیسرز یوسف سے گپ شپ بھی لگایا کرتے تھے۔ یوسف نے منیجر کی اجازت سے اپنا سینڈوچ کا سٹال بھی شروع کر دیا جس کی سیل دنوں میں بڑھتی گئی۔ اب یوسف کا سینڈوچ کا کاروبار خوب چل نکلا تھا۔ وہ سارا دن مصروف رہتا تھا لیکن تنہائی کے لمحوں میں اسے اکثر اپنی والدہ کا خیال آتا۔ وہ سوچتا ماں اسے یاد کرکے پریشان تو ہوتی ہو گی۔ وقت گزرتا گیا۔ ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے۔ پھر ایک دن یوسف کا چھوٹا بھائی ایوب اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا اور اسے گھر واپس جانے کو کہا۔ یوسف اس سے مل کر خوش ہوا۔ وہ خود بھی گھر کو یاد کر رہا تھا۔ طے ہوا کہ یوسف عیدالفطر سے پہلے گھر آ جائے گا۔ اس نے بھائی سے وعدہ لیا کہ وہ گھر میں کسی کو یوسف کے آنے کے بارے میں نہیں بتائے گا۔ عید سے پہلے جب یوسف اچانک بمبئی میں اپنے گھر آیا تو اس کی ماں اور بہنیں اس سے لپٹ گئیں۔ اس نے اپنی ساری کمائی ماں کے ہاتھ میں دے دی۔ آغا جی بھی اس سے مل کر خوش ہوئے کہ بیٹا اپنے زورِ بازو سے کمانے کے قابل ہو گیا ہے۔ لیکن قدرت نے یوسف کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ ایک روز وہ چرچ گیٹ سٹیشن پر کھڑا ٹرین کا انتظار کر رہا تھا کہ اس نے ڈاکٹر مسانی کو دیکھا‘ جو شہر کا ایک معروف نفسیات دان تھا۔ یوسف اسے جانتا تھا کیونکہ وہ ایک بار اس کے کالج میں آیا تھا۔ ڈاکٹر مسانی نے اس سے پوچھا: تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ یوسف نے جواب دیا کہ میں نوکری کی تلاش میں ہوں۔ ڈاکٹر مسانی نے کہا کہ میں بمبئی ٹاکیز کے مالک سے ملنے جا رہا ہوں‘ تم چاہو تو میرے ساتھ جا سکتے ہو۔ یوسف نے ہامی بھر لی۔ تھوڑی دیر میں وہ ڈاکٹر مسانی کے ہمراہ ٹرین میں بیٹھا ایک ایسی منزل کی طرف رواں دواں تھا جہاں اس کی زندگی کا رُخ بدلنے والا تھا۔
ڈاکٹر مسانی کے ساتھ ٹرین کا سفر گپ شپ میں گزر گیا‘ جب وہ ٹرین سے اُتر کر سٹوڈیو کی عمارت میں پہنچے تو یوسف اس کی وسعت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے کبھی تصور میں بھی فلم سٹوڈیو نہیں دیکھا تھا۔ ڈاکٹر مسانی سیدھے دیوکا رانی کے دفتر گئے۔ وہی اس سٹوڈیو کی مالک تھی۔ یوسف نے دیکھا کہ دیوکا رانی کی شخصیت میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ اس کے رکھ رکھاؤ اور انداز میں کوئی بات ایسی تھی کہ دیکھنے والا پہلی نظر میں ہی اس سے متاثر ہو جاتا۔ دیوکا رانی نے انہیں خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر مسانی نے یوسف کا تعارف کرایا۔ دیوکا رانی نے یوسف کو دیکھا اور بولی ''تم اُردو جانتے ہو؟‘‘۔ یوسف نے بتایا کہ مجھے اُردو اور اُردو ادب سے خاص دلچسپی ہے اور میں اُردو روانی سے بول سکتا ہوں۔ دیوکا رانی بمبئی ٹاکیز کی مالک تھی۔ دن میں کتنے ہی امیدوار فلم میں کام کرنے کی خواہش لیے سٹوڈیو آتے۔ بہت کم کی رسائی اس کے دفتر تک ہوتی اور جو وہاں پہنچ بھی جاتے‘ دیو کارانی کی نگاہِ انتخاب میں نہ آتے۔ لیکن یوسف میں کوئی خاص بات تھی۔ دیوکا رانی نے کچھ دیر تامل کے بعد یوسف سے کہا: کیا تم ایکٹر بننا چاہو گے؟ ماہانہ تنخواہ 1250 روپے ہو گی۔ دیوکا رانی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ''مجھے ایک نوجوان تعلیم یافتہ اور خوبصورت اداکار چاہیے اور تم میں یہ ساری خوبیاں ہیں‘‘۔ یوسف کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا۔ فلم میں آنے کا اس نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی سینما میں فلم نہیں دیکھی تھی۔ اس کا خواب تو کرکٹر یا فٹ بالر بننا تھا اور پھر اس کے گھر کا ماحول بھی اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس کے والد آغا جی فلم کے سخت خلاف تھے۔
دیوکارانی نے کہا ''تم اچھی طرح سوچ لو اور مجھے بعد میں جواب دے دینا‘‘۔ اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا تھا‘ دیوکارانی نے انہیں کھانے کی دعوت دی لیکن ڈاکٹر مسانی نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اسے کہیں اور پہنچنا ہے۔ واپسی کے سفر پر سارا وقت یوسف اس پیشکش کے بارے میں سوچتا رہا۔ پھر اسے خیال آیا کہ مجھے تو اداکاری کے بارے میں کچھ پتا نہیں‘ میں اداکار کیسے بن سکتا ہوں۔ پھر اس کا دھیان آغا جی کی طرف چلا گیا۔ اگر انہیں اس بارے میں پتا چلا تو ان کے غصے کا عالم کیا ہو گا۔ گھر پہنچ کر اس نے کسی سے دیوکا رانی کی پیشکش کا ذکر نہیں کیا۔ صرف اپنے چھوٹے بھائی ایوب کو اعتماد میں لیا۔ اس کے بھائیوں میں ایوب ہی ایسا تھا جسے ادب اور آرٹ سے دلچسپی تھی۔ ایوب نے یوسف کی ساری بات سنی اور بولا: یہ پیشکش تو بہت اچھی ہے لیکن 1250 روپے بہت زیادہ رقم ہے۔ یہ تنخواہ ماہانہ کیسے ہو سکتی ہے؟ ہو سکتا ہے دیوکا رانی نے یہ تنخواہ سال کی بتائی ہو؟ ایوب کی بات سن کر یوسف سوچ میں پڑ گیا۔ واقعی ایوب ٹھیک ہی کہتا ہے۔ 1250 روپے ماہانہ تنخواہ کیسے ہو سکتی ہے۔ اس وقت اداکار راج کپور کی ماہانہ تنخواہ 170 روپے تھی۔
ایوب کی بات سن کر یوسف نے سوچا کہ ہو سکتا ہے مجھے سننے میں غلط فہمی ہوئی ہو۔ کیوں نہ ڈاکٹر مسانی کے ذریعے دیوکا رانی سے دوبارہ پوچھ لیا جائے۔ اگلے روز جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کی نماز کے بعد وہ ڈاکٹر مسانی کے گھر گیا اور کہا: کیا وہ کنفرم کر سکتے ہیں کہ اس کی تنخواہ 1250 روپے ماہانہ ہے یا سالانہ؟ ڈاکٹر مسانی نے فون پر دیوکا رانی سے کنفرم کیا۔ یہ تنخواہ ماہانہ تھی۔ یہ پیشکش اتنی پُرکشش تھی کہ یوسف نے ہامی بھر لی اور اسی روز بمبئی ٹاکیز کو جوائن کر لیا۔ اس کے گھر میں چھوٹے بھائی ایوب کے علاوہ کسی کو پتا نہ تھا۔ سٹوڈیو میں اس کا تعارف مختلف لوگوں سے کرایا گیا۔ جن میں معروف اداکار اشوک کمار بھی شامل تھے۔ جن کی فلم ''قسمت‘‘ کی ان دنوں شوٹنگ چل رہی تھی۔ وہیں اس کی ملاقات خالصہ کالج کے اپنے دوست راج کپور سے بھی ہوئی‘ جو بڑے تپاک سے ملا اور پوچھا: ''آغا جی کو پتا ہے کہ تم فلموں کی دنیا میں آ گئے ہو؟‘‘۔ یوسف نے بات کو ٹال دیا۔ اشوک کمار نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا: ''تم نوجوان ہو۔ تم میں سیکھنے کی لگن ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے‘‘۔ یہیں اس کی ملاقات مکھر جی سے ہوئی۔ وہ بنگالی تھے اور انہیں شعرو ادب سے دلچسپی تھی۔ انہوں نے یوسف سے کہا: ہمیں اُردو شاعری سناؤ۔ یوسف نے انہیں اپنے پسندیدہ اشعار سنائے۔ اس دن کے بعد مکھر جی نے کہا کہ آئندہ جتنے سٹوری سیشن ہوں گے‘ ان میں یوسف بھی شریک ہو گا۔ یوسف نے ان سٹوری سیشنز سے بہت کچھ سیکھا۔ کچھ دنوں کے بعد اسے بتایا گیا کہ یوسف کو فلم ''جوار بھاٹا‘‘ میں اداکاری کرنا ہو گی۔ یوسف کی عمر اُس وقت 21 برس تھی جب اس کا کیمرے سے سامنا ہوا۔ لیکن فلم کے آغاز میں ایک اور مرحلہ درپیش تھا کہ یوسف خان کا فلمی نام کیا ہو گا۔ تین چار ناموں کی فہرست سے آخر دلیپ کمار کا انتخاب ہوا۔ یوں اس دن وہ یوسف خان سے دلیپ کمار بن گیا اور پھر یہی نام اس کی پہچان بن گیا اور لوگ اس کا اصل نام بھول گئے۔ اس کی پہلی فلم ''جوار بھاٹا‘‘ 1944ء میں ریلیز ہوئی۔ یہ فلمی دنیا میں دلیپ کمار کا پہلا قدم تھا۔ پھر دلیپ کی فنی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب فلم ''جگنو‘‘ میں اس کے مقابل نور جہاں کو کاسٹ کیا گیا۔ فلم کی کہانی اور گیت بے حد مقبول ہوئے اور دلیپ کمار نے بطور اداکار ایک ہی جست میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔ (جاری)