اللہ تبارک وتعالیٰ کی انسانوں پر بہت زیادہ عنایات ہیں اور یہ اس کا فضل‘ کرم اور اس کی عطا ہوتی ہے کہ کسی انسان کو حجازِ مقدس کی زیارت کا شرف عطا کر دے اور حج وعمرہ کے لیے مکہ مکرمہ اور بیت اللہ پہنچنے کی توفیق عطا فرما دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ماضی میں بھی کئی مرتبہ مجھے بیت اللہ الحرام کی زیارت کا شرف عطا کیا اور اس سال بھی حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت سے بہرہ ور کیا۔ مکہ مکرمہ میں بہت سے ساتھیوں سے ملاقات رہی‘ جن میں اظہر اقبال‘ فیصل طارق‘ اظہار بن شمس‘ شیخ ادریس اور دیگر بہت سے ساتھی نمایاں ہیں۔ اس سفر کے دوران جدہ کے دوستوں نے بھی جدہ میں الحمرا ہال میں ایک ''درسِ قرآن‘‘ کے پروگرام کا انعقاد کیا۔ عبدالقیوم سلفی ہفتے کے روز عصر کی نماز کے وقت مکہ مکرمہ پہنچے۔ نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد ان کے ساتھ جدہ روانگی ہوئی۔ جدہ میں پہلے بین الاقوامی اشاعتی ادارے ''دارالسلام‘‘ کے وزٹ کا موقع ملا۔ وہاں محبت کرنے والے دوست برادر فیصل علوی نے بھرپور انداز سے مہمان نوازی کی۔ اللہ کے دین کی نشر واشاعت کے حوالے سے بہت ہی گراں قدر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ دارالسلام کے وزٹ کے بعد الحمرا ہال سے متصل مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔ الحمرا ہال پہنچنے پر دوستوں نے بھرپور انداز سے استقبال کیا۔ مجلس میں مختار عثمانی‘ عکاشہ ساحل اور دیگر بہت سے دوست احباب موجود تھے۔ کافی عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھر جدہ میں دوستوں کے ساتھ گفتگو کا موقع مل رہا تھا۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ انہیں کچھ ترامیم واضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور اگر انسان ان نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو ان کو شمار کرنا بھی اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اگر تم شمار کرنا چاہو اللہ کی نعمتوں کا تو تم نہیں کر سکتے اُن کا احاطہ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الرحمن میں متعدد دفعہ انسان وجنات کو مخاطب ہو کر یہ بات کہی کہ ''پس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے بہت سے مقامات پر اپنی نعمتوں کا احساس دلایا۔ سورۃ النحل قرآن مجید کی ایک ایسی سورۃ مبارکہ ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیقات اور اس کی نعمتوں کا بکثرت ذکر آیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ النحل میں پانی سے نکلنے والی مچھلیوں‘ گائے کے تھنوں سے نکلنے والے دودھ‘ شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلنے والے شہد‘ انسان کے بیٹے بیٹیوں اور گھروں جیسی نعمتوں کا ذکر کر کے انسان کو اس بات کا احساس دلایا کہ یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حقیقت کو بھی بیان کیا کہ انسان کو پانی کے ایک بے وقعت قطرے سے پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سماعت اور بصارت جیسی بے مثل نعمتیں عطا فرمائیں۔
انسان اگر محض اپنے وجود پہ غور کرے تو سوچنے والا دماغ‘ دھڑکتا ہوا دل‘ پکڑنے والے ہاتھ‘ چلنے والا قدم‘ آکسیجن کو کشیدکرنے والے پھیپھڑے‘ وجود سے غلاظت کو نکالنے والے گردے اور انسان کو طاقت اور قوت دینے والا جگر یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں اور اس کی عطا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت‘ شہرت‘ حسن‘ جوانی اور محبت کرنے والے دوست احباب اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں کئی مرتبہ انسان سے چھن جاتی ہیں اور ان کے چھننے کی ایک بڑی وجہ نعمتوں کی ناشکری ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآن مجید میں بڑے ہی خوبصورت اور بلیغ انداز میں ایک مثال کے ذریعے سورۃ النحل کی آیت نمبر 112 میں واضح کیا ہے۔ ''اللہ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی‘ اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آ رہی تھی۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا مزہ چکھایا ‘جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا‘‘۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب انسان ناشکری کرتا ہے تو امن اور اطمینان جیسی نعمتیں خوف سے اور رِزق جیسی نعمتیں بھوک سے تبدیل ہو جاتی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حقیقت کو بھی بیان کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس وقت تک اپنی نعمتوں کو زائل نہیں کرتے جب تک انسان خود ان نعمتوں کے چھن جانے کا موقع پیدا نہیں کرتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانفال کی آیت نمبر 53 میں ارشاد فرماتے ہیں ''یہ اس لیے کہ اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر اسے بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنے طرزِ عمل کو نہ بدل دیں‘ اور بیشک اللہ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔
جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ناشکری کے سبب نعمتوں کے چھن جانے کا ذکر کیا‘ وہیں قرآن مجید میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اگر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں میں مزید اضافہ فرما دیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر سات میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں خبردار کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو) یقینا میرا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو واضح فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو انسانوں کو عذاب دینے کی ضرورت نہیں‘ اگر وہ ایمان کے راستے پر چل کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النسا کی آیت نمبر 147 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور ایمان کی روش پر چلو‘ اللہ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے‘‘۔چنانچہ قرآن مجید کی مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ہم نعمتوں کا تسلسل برقرا ررکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا ہر پل شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اس شکر کے تین درجات ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں اس بات کا کامل احساس ہونا چاہیے کہ جو نعمتیں اس کے پاس موجود ہیں‘ یقینا وہ سب کی سب اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہیں۔ شکر کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے مخلوق کے سامنے بھی اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرے‘ خلوت اور تنہائی میں بھی ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے اس کی نعمتوں کا قدردان رہے اور ہر نعمت کے مل جانے کے بعد زبان سے ''الحمدللہ‘‘ کا کلمہ ادا کرتا رہے۔ نعمتوں کے شکر کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنے اعمال وافعال سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کا اظہار کیا جائے۔ طاقت‘ قوت‘ وسائل‘ سرمایہ اور اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ بصارت و سماعت‘ جذبات واحساسات اور عقل وشعور کو انہی راستوں پر استعمال کیا جائے جن سے پروردگارِ عالم کی رضا حاصل ہوتی ہو۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ لازماً اپنی نعمتوں کو بڑھا دیں گے۔
حاضرینِ مجلس نے بڑی توجہ کے ساتھ ان گزارشات کو سنا اور بعد ازاں مرزا احمد بیگ بھائی کے گھر ایک پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر سوال و جواب کی ایک نشست بھی ہوئی اور یوں جدہ کا درس اور ساتھیوں سے ملاقات کی یہ پُروقار تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔