ہمارے معاشرے میں ایک عرصے سے قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے ایسے ہولناک واقعات رونما ہو چکے ہیں جن پر پوری قوم نے شدید دکھ اور اضطراب کو محسوس کیا۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے حملے کی کسک تاحال ہر باشعور اور محب وطن شہری کے دل میں موجود ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں آئے روز سیاسی اختلافات‘ فرقہ واریت اور قومی عصبیتوں کی بنیاد پر قتل وغارت گری کے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ چند روز قبل کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں نے حملہ کر کے بارہ پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ اسی طرح دو روز قبل بلوچستان میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں لگ بھگ چالیس افراد جاں بحق ہو گئے۔ قتل وغارت گری کے نتیجے میں مقتولین کے پسماندگان پر جو کچھ بیت جاتا ہے اس سے صحیح معنوں میں وہی شخص آگاہ ہو سکتا ہے جس نے اس قسم کے واقعات کو اپنے خاندان یا اپنے گرد ونواح میں رونما ہوتے ہوئے دیکھا ہو۔ ملک میں جب بھی قتل کا کوئی واقعہ رپورٹ ہوتا ہے تو مجھے 23 مارچ 1987ء کی وہ رات یاد آ جاتی ہے جب والد مرحوم علامہ احسان الٰہی ظہیر کو ایک بم دھماکے میں اپنے رفقا کے ہمراہ نشانہ بنایا گیا تھا۔ آپ کے بہت سے رفقا موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے‘ مگرآپ کی صحت کو دیکھ کر ڈاکٹر پُرامید تھے۔ آپ عیادت کرنے والے لوگوں کے ساتھ گرمجوشی سے پیش آتے اور حوصلے میں تھے‘ لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو منظور ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے سرکاری طور پر آپ کے علاج کی پیشکش کی‘ آپ کو میوہسپتال لاہور سے ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن آپ کی زندگی کے لمحات پورے ہو چکے تھے؛ چنانچہ آپ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہر خوشی اور غمی کے لمحات میں آپ کی یاد آتی رہی اور کئی عشرے گزرنے کے باوجود آج بھی ان کے خلا کو محسوس کیا جاتا ہے۔ قتل وغارت گری کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے بہت سے لوگ اپنے خاندانوں کے واحد کفیل ہوتے ہیں اور اُن کے چلے جانے کے بعد خاندانوں میں سماجی اور معاشی اعتبار سے ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جو مدتِ مدید تک پورا نہیں ہو پاتا۔ قتل وغارت گری کو روکنے کیلئے ہمیں ریاستی‘ معاشرتی اور انفرادی سطح پر بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سے بعض اہم اقدامات درج ذیل ہیں:
1۔ معاشرے کی تربیت: والدین‘ اساتذہ اور علما کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کی احسن انداز میں تربیت کریں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں لوگوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک کو بچا لینا گویا پوری انسانیت کو بچا لینا ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 32 میں کچھ یوں فرمایا ہے: ''جس نے قتل کیا کسی جان کو بغیر کسی جان (قصاص) کے یا زمین میں فساد مچانے کے‘ تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی کو ناحق قتل سے بچا کر) زندگی دی اُسے تو گویا کہ اس نے زندگی دی تمام لوگوں کو‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں مومن کے قتل کی شدید انداز میں مذمت کرتے ہوئے اس کی سنگینی کو اس انداز میں اجاگر کیا ہے: ''اور جو قتل کر ڈالے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اُس کی سزا جہنم ہے‘ ہمیشہ رہے گا اُس میں اور غضب کیا اللہ نے اُس پر اور لعنت کی اُس پر‘ اور تیار کر رکھا ہے اُس کیلئے بڑا عذاب‘‘۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی انسانوں کی جان اور عزت کی حرمت کو بہت ہی خوبصورت اور واشگاف انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو رسول اللہﷺنے منیٰ میں خطبہ دیا‘ خطبہ میں آپؐ نے پوچھا: لوگو! آج کون سا دن ہے؟ لوگ بولے: یہ حرمت کا دن ہے‘ آپﷺ نے پھر پوچھا: اور یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا شہر ہے۔ آپﷺنے پوچھا: یہ مہینہ کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ حرمت کا مہینہ ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: بس تمہارا خون‘ تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت‘ اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے‘ اس کلمہ کو آپﷺ نے کئی بار دہرایا۔ اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے انسانی جان کی حرمت کو کس حد تک اجاگر کیا اور خونِ ناحق کو کس قدر ناپسند فرمایا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ''مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے‘‘۔
2۔ برداشت اور صبر کا سبق: ہمارے معاشرے میں لوگ عدم برداشت اور بے صبری کے راستے پر چل پڑے ہیں اور معمولی معمولی بات پر ایک دوسرے کی عزت اور جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ معاشرے میں اثر ورسوخ رکھنے والی تمام شخصیات‘ جن میں ہمارے والدین‘ اساتذہ‘ مذہبی رہنما اور سیاسی قائدین شامل ہیں‘ کو معاشرے میں صبر‘ برداشت‘ تحمل اور بردباری کے فروغ کیلئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے اور لوگوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ نقطہ نظر کے اختلاف کے باوجود دوسروں کو برداشت کرنا اور کسی ناپسندیدہ بات پر صبر کرنا معاشرے کی بقا کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
3۔قانون کا نفاذ: معاشرے میں قیامِ امن کیلئے قانون کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جرم وسزا کا نظام مؤثر نہیں۔ سفارش‘ اثر ورسوخ اور دیگر ذرائع سے کئی مرتبہ مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر معاشرے میں جرائم کی قرار واقعی سزا ملنا شروع ہو جائے تو معاشرہ ہر قسم کی قتل وغارت گری سے پاک ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی جماعت نبی کریمؐ کی خدمت میں (اسلام قبول کرنے کو) حاضر ہوئی لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے (اونٹ کے) دودھ کا انتظام کر دیجیے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے دودھ کا اہتمام نہیں کر سکتا البتہ تم (صدقہ کے) اونٹوں میں چلے جاؤ۔ ان کا دودھ وغیرہ پیو تاکہ تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے۔ وہ لوگ وہاں چلے گئے اور جب اونٹوں کا دودھ پی کر تندرست ہو گئے تو انہوں نے اونٹوں کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ نکلے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا۔ ایک شخص نے اس کی خبر آنحضرتؐ کو دی جس پر آپؐ نے ان کی تلاش کیلئے سوار دوڑائے‘ دوپہر سے پہلے ہی وہ سوار انہیں پکڑ کر لے آئے۔ ان قاتلوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور پھر آپؐ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں سلائی گرم کر کے پھیر دی گئی (انہوں نے بھی چرواہے کو اسی طرح قتل کیا تھا) اور انہیں حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) کے علاقے میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ اسی طرح صحیح بخاری ہی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ لڑکی کو اس حالت میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں لایا گیا کہ ابھی اس کی چند سانسیں باقی تھیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے‘ کیا فلاں شخص نے کیا! فلاں نے کیا! آخر اس یہودی کا نام لیا گیا جس نے اس کا سر کچلا تھا‘ جس پر لڑکی نے سر کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس یہودی کو بلایا گیا جس نے اقرارِ جرم کر لیا اور نبی کریمﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیا گیا۔
اگر ملک میں حقیقتاً قانون کی عملداری ہو اور سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنیوالوں کو کڑی سزائیں دی جائیں تو معاشرے سے خود بخود جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے پاک کرکے امن و آشتی کا گہوارہ بنا دے‘ آمین!