انسان اس دنیا میں ایک مخصوص مدت کے لیے آیا ہے اور ہر شخص اپنے اپنے مزاج اور میلان کے مطابق زندگی گزار کر اس دنیائے فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے خود سری‘ گھمنڈ‘ تکبر اور خودپسندی کو اپنا شعار بنائے رکھا مگر ان لوگوں کو بھی ظلم اور معصیت والی زندگی گزارنے کے بعد بالآخر موت کے گھاٹ اترنا پڑا۔ فرعون صاحبِ اقتدار تھا‘ وہ اپنے دورِحکومت میں بچوں کو ذبح کر دیا کرتا تھا۔ بنی اسرائیل کے لوگوں کو بلاوجہ ظلم وستم کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون علیہما السلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ اس کے پاس بھیجا لیکن اس نے پیغامِ حق کو قبول نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر بہت سے چھوٹے چھوٹے عذابوں کو مسلط کیا۔ وہ ہر عذاب کو دیکھنے کے بعد ایمان لانے کا عہد کرتا لیکن عذاب کے ٹلنے کے بعد دوبارہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوغرقِ آب کر دیا اور رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔ قارون کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ سرمایہ دیا تھا لیکن وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی شکر گزاری کے راستے پر چلنے کے بجائے فخر اور تکبر کے راستے پر چلتا رہا۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو زمین کے اندر دھنسا دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہامان کی بربادی کا بھی قرآن میں ذکر کیا ہے۔ سورۃ الکہف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک بہت بڑے جاگیردار کے تکبر کی وجہ سے اس کے برباد ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ابولہب ایک بڑے قبیلے والا تھا اور اس کو اپنے مال ومتاع پر ناز تھا‘ وہ اور اس کی بیوی اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی عداوت میں تمام حدود سے تجاوز کر گئے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کو ان کی معاندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نشانِ عبرت بنا دیا۔
زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے نافرمان لوگ ہلاکت کے گھڑے میں گر کر نشانِ عبرت بن گئے۔ اس کے برعکس صلحاء‘ شہداء‘ صدیقین اور انبیاء کرام نے مثالی زندگیاں گزاریں اور اپنے طرزِ عمل‘ کردار اور اخلاق سے تاریخِ انسانی کو روشن کر دیا۔ مثالی زندگی گزارنے کے بعد یہ عظیم ہستیاں بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں مگر ان کی رحلت کے باوجود آج تک لوگ ان کے کردار وعمل سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ان عظیم ہستیوں کے دنیا سے چلے جانے سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ کسی بھی انسان کو اس دنیائے فانی میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا اور ہر شخص کو جلد یا بدیر اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔
ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے قرب وجوار میں رہنے والے بہت سے اعزہ واقارب اور دوست و رشتہ دار اس دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ ہمارے بزرگوں اور دوستوں کی رحلت کے باوجود نہ جانے کیا وجہ ہے کہ ہم بہت جلد موت کو فراموش کر کے دوبارہ اپنے معاملات میں مشغول ہو جاتے ہیں اور دنیا کے سامان اور مال کے پیچھے کچھ اس طرح بھاگ نکلتے ہیں کہ یہ تک فراموش کر دیتے ہیں کہ جلد یا بدیر ہمیں بھی مرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی اس کوتاہ بینی کو سورۃ التکاثر میں کچھ یوں بیان فرمایا ''کثرت کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ خبردار! عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ پھر سن لو! عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ دیکھو! اگر معلوم ہوتا تمہیں (اس روش کا انجام) یقینی علم کی حیثیت سے (تو تم ہرگز ایسا نہ کرتے)۔ جان لو تم جہنم کو ضرور دیکھو گے۔ پھر تم اسے یقین کی آنکھ سے ضرور دیکھو گے۔ پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا‘‘۔
میں نے بھی ہر انسان کی طرح اپنے بہت سے اعزہ و اقارب کو اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھا ہے۔ دادا‘ دادی اور نانا‘ نانی کے انتقال کے علاوہ والد گرامی اور والدہ محترمہ کے جنازوں کو بھی اٹھتے ہوئے دیکھ چکا ہوں لیکن اس کے باوجود زندگی کے معمولات کئی مرتبہ موت کے احساس کو دل اور دماغ سے محو کر دیتے ہیں لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی موت سے دوبارہ انسان کے ذہن میں دنیا کی بے ثباتی واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ حالیہ ایام میں ایک ایسی ہی عظیم شخصیت‘ جس کے ساتھ کئی برس تک قریبی تعلق رہا‘ کے انتقال کی خبر نے یکلخت دل ودماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
31 اگست کو اس بات کی اطلاع ملی کہ مولانا اسد اللہ سبحانی انتقال کر گئے ہیں۔ مولانا اسد اللہ سبحانی کے ساتھ میرا تعلق کئی عشروں پر محیط تھا۔ آپ 15 برس تک لاہور میں خطابت اور تبلیغ کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ مولانا سبحانی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے خصائص اور خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔ مولانا سبحانی رحمۃ اللہ علیہ ایک جرأتمند‘ دلیر‘ زندہ دل اور متوکل انسان تھے۔ اپنی تمام زندگی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کیے رکھی۔ اس اَنتھک مجاہد اور شعلہ بیاں خطیب نے کئی عشروں تک ہزاروں نوجوانوں کے دلوں پر حکومت کی۔ آپ کی وفات کی ناگہانی خبر میرے لیے ناقابلِ یقین تھی۔ قریبی عزیز اور دوست انجینئر محمد عمران کو بھی جب اس خبر کی اطلاع ملی تو وہ یکلخت غم اور صدمے میں ڈوب گئے۔ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور ہم نے مولانا کے جنازے میں شرکت کے لیے پروگرام ترتیب دیا۔ جب ہم مولانا کے گائوں‘ 4 جی ڈی‘ اوکاڑہ میں پہنچے تو لوگوں کی کثیر تعداد کو اُس مسجد میں موجود پایا جہاں مولانا کا جنازہ ادا کیا جانا تھا۔
نماز جنازہ پڑھانے کے لیے معروف عالم‘ عظیم مدرس‘ برادرِ کبیر شیخ الحدیث حافظ عبدالغفار مدنی صاحب کو دعوت دی گئی تھی۔ جونہی اُن کی نظر مجھ پر پڑی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ حافظ عبدالغفار مدنی صاحب علم وتدریس اور دینی خدمات کے لحاظ سے مقدم ہیں لیکن یہ ان کی ذرّہ نوازی تھی کہ انہوں نے مولانا سبحانی صاحب کے ساتھ میری رفاقت‘ اخوت اور دوستی کو مدنظر رکھتے ہوئے جنازہ پڑھانے کے لیے اصرار کیا۔ ایک قریبی دوست کا جنازہ پڑھانا آسان نہ تھا۔ دل غم اور آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئیں۔ نمازِ جنازہ میں علاقہ بھر سے کثیر تعداد میں مذہبی‘ سماجی اور سیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ مولانا کے معتقدین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔
مولانااسد اللہ سبحانی کے جنازے کے بعد ایک مرتبہ پھر دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ یقینا ایک دن ہم سب نے اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر کے اپنے پروردگارِ عالم کی طرف پلٹنا ہے۔ نہ جانے کیا وجہ ہے کہ ہم اس فانی دنیا میں کامیابی کے حصول کے لیے اپنے وقت اور وسائل کوہمہ وقت صرف کرتے رہتے ہیں لیکن اخروی زندگی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ مجید نے اس بات کو واضح کر دیا کہ کامیابی درحقیقت اُسی کو حاصل ہو گی جو آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 185 میں اس حقیقت کوکچھ یوں واضح فرماتے ہیں کہ ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم کو پورے اجر (تمہارے اعمال کے) دیے جائیں گے‘ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے‘ بے شک وہ کامیاب ہو گیا‘ اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں رہنے والے ہر شخص کو بالآخر موت کا جام پینا ہو گا۔ چنانچہ ہمیں موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کو ہمہ وقت مدنظر رکھنا چاہیے اور ابھی سے اخروی زندگی میں کامیابی کے لیے جستجو کرنی چاہیے تاکہ جب ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور پیش ہوں تو وہ ہم سے راضی ہو اورہمارے لیے اخروی کامیابی کے راستے ہموار ہو چکے ہوں۔