ہر سلیم الطبع شخص اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اور وطن کی تعمیر وترقی کا خواہش مند رہتا ہے۔ مجھے بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح اپنے دیس سے بہت زیادہ محبت ہے۔ میں جب بھی بیرونِ ملک سفر کے لیے گیا تو پاکستانیوں کو خوشحال دیکھ کر طبیعت میں فرحت کا احساس پیدا ہوا۔ اس کے برعکس جب کبھی بھی اندرون و بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بدحالی کو دیکھا‘ طبیعت پر ایک بوجھ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ پاکستان کے لوگ بڑی تعداد میں یورپ اور خلیجی ممالک میں روزگار کے لیے آباد ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے کاروباری اور معاشی اعتبار سے مستحکم اور اثرو رسوخ رکھنے والے ہیں۔ ان لوگوں کی اچھی حالت دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے مگر ان کے مدمقابل جب ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو معاشی دبائو کی وجہ سے بیرونِ ملک بھی پر یشانیوں کا شکار ہیں تو انسان کی طبیعت میں انقباض اور گھٹن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیر ت کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺ کو بھی اپنے وطن‘ مدینہ طیبہ سے بڑی محبت تھی۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ سفر سے مدینہ واپس آتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو آپﷺ اپنی اونٹنی کی رفتار کو تیز کر دیتے‘ کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔ صحیح بخاری ہی میں کچھ مختلف الفاظ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر سوار ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔ احادیث مبارکہ میں جہاں آپﷺ کی مدینہ طیبہ سے محبت کا ذکر ہے‘ وہیں مدینہ طیبہ کے احد پہاڑ سے محبت کا بھی ذکر ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ''میں رسول اللہﷺ کے ساتھ خیبر (غزوہ کے موقع پر) گیا‘ میں آپﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا‘ پھر جب آپﷺ واپس آئے اور احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ''اے اللہ! میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں‘ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا۔ اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما‘‘۔ ان احادیث مبارکہ سے جہاں رسول اللہﷺ کے شہر مدینہ کی عظمت واضح ہوتی ہے وہیں حب الوطنی کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
حالیہ دورۂ برطانیہ کے دوران میں نے بہت سے پاکستانیوں سے ملاقات کی اور ان کو اپنے وطن کے حوالے سے متفکر پایا۔ ملک کی معاشی ناہمواری کی وجہ سے بہت سے لوگ تشویش کا شکار تھے اور صدقِ دل سے یہ تمنا رکھتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کو معاشی اعتبار سے مستحکم کر دے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے بھی بیرونِ ملک مقیم مختلف ہم وطنوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ بہت سے ایسے پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی جو برسہا برس سے برطانیہ میں آباد ہیں اور جنہوں نے اپنے وطن کو بہت کم دیکھا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اپنے وطن کے لیے گہری محبت کے جذبات اور احساسات موجود تھے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی جب بھی اپنے ملک کی کسی معروف شخصیت کو دیکھتے ہیں تو غیر معمولی مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس مسرت کی بنیادی وجہ اپنے وطن سے نسبت ہوتی ہے۔ پاکستانی کمیونٹی اپنے ملک سے آنے والے لوگوں کا دل کی گہرائیوں سے استقبال کرتی اور ان کی ضیافت میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں چھوڑتی۔ بیرونِ ملک لوگوں کے رویے اور محبت دیکھ کر اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ پاکستان کے ساتھ محبت اور نسبت کی وجہ ماضی اور بچپن کی یادیں اور آبائو اجداد کی وہ بے مثال قربانیاں ہیں‘ جو انہوں نے آزاد وطن کے حصول کے لیے دی تھیں۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا اور اس کے حصول کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنے وطن کو خیرباد کہا اور ہجرتیں کیں۔ اس دوران بزرگوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کیا گیا‘ بڑی تعداد میں خواتین کی آبرو ریزی ہوئی اور معصوم بچوں کو لہو میں تڑپایا گیا۔ ان عظیم قربانیوں کے بعد وطن کے حصول پر تمام لوگ مطمئن تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک ایسا وطن حاصل ہو گیا کہ جس کے لیے والہانہ قربانیاں دی گئی تھیں۔ پاکستان کا قیام صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لیے خوشی کی خبر نہیں تھی بلکہ پورے عالم اسلام میں قیامِ پاکستان پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ بہت سی کمزوریوں کے باوجود آج بھی پاکستان کی عالم اسلام میں اس اعتبار سے ایک مثبت شناخت ہے کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی والے اس ملک کو لوگ اپنی امیدوں کا مرکز ومحور سمجھتے اور اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان امتِ مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرے گا۔
مجھے جب کبھی وطن سے باہر جانے کا موقع ملتا ہے‘ جہاں بہت سے ذہین اور قابل احباب سے ملاقاتوں کا موقع میسر آتا ہے وہیں بہت سے تاریخی اور نمایاں مقامات پر جانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ میں نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران برطانیہ میں کم و بیش 100 سے زائد اجتماعات سے خطاب کیا اور برطانوی مسلمانوں میں دین سے محبت کے بہت سے غیر معمولی مناظر دیکھے۔ اس کے ساتھ ساتھ برٹش میوزیم‘ مادام تسائو میوزیم‘ لندن برج اور جنوبی اور شمالی برطانیہ کے بہت سے خوبصورت مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا لیکن ہر سفر کے اختتام پر پاکستان کی یاد اور محبت کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے محسوس کیا۔ کئی مرتبہ وقتی طور پر معروف‘ تاریخی اور سرسبز مقامات کو دیکھنے کے بعد جہاں دل پر برطانیہ کی خوبصورتی کے اثرات مرتب ہوئے وہیں وطن واپسی کے دوران میں نے ہمیشہ وطن کی محبت کو پہلے سے زیادہ اپنے دل ودماغ میں اترتے ہوئے محسوس کیا۔ ماضی کے اسفار میں سے ایک سفر کے دوران برطانیہ کے بہت سے مقامات دیکھے۔ برادرِ عزیز عدنان رشید لندن کے مختلف مقامات کا بھرپور انداز سے تعارف کراتے رہے لیکن جب وطن واپسی ہوئی تو میں نے لاہور کی سمت بڑھتے ہوئے جہاز میں بیٹھ کر لاہور کے لیے ایک عجیب کشش محسوس کی۔ لاہور کے قدیم تاریخی مقامات‘ بڑے بڑے باغات‘ خوبصورت مساجد اور درس گاہیں میرے ذہن پر بہت گہرے اثرات مرتب کر رہی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے لاہور ہر اعتبار سے لندن سے زیادہ خوبصورت اور دلکش شہر ہے۔ علامہ اقبال ایئرپورٹ پر اترنے تک میری آنکھوں میں نمی آ چکی تھی اور میرے دل میں شکر گزاری کی گہری کیفیت اور احساس تھا۔
حالیہ دورۂ برطانیہ کے دوران بھی 10 سے زائد مختلف پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع ملا لیکن وطن واپسی پر جو خوشی اور سکون کا احساس دل میں پیدا ہوا‘ یقینا وہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا جو احساس برطانیہ میں مقیم دوستوں کی محبت‘ الفت اور اخوت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ وطن پہنچتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے اپنے گھر مراجعت ہو چکی ہے اور بے اختیار دل سے یہ دعا جاری ہوئی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کی اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے حفاظت فرما‘ اس کو امن وسکون کا گہوارہ بنا‘ اس کی معیشت کو مستحکم اور مالیاتی مسائل کو حل فرما۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وطنِ عزیز کو ترقی اور استحکام کے راستے پہ چلائے اور ملک کے تمام طبقات کو وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین!